مضامین

کوڑے دان میں دم توڑتے بچے 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بغیر شادی کے بچوں کی پیدائش میں ہندوستان جیسے ملک میں اضافہ ہو رہا ہے، ”لیو ان رلیشن شپ“کے قانونی جواز کی وجہ سے بھی یہ تعداد بڑھ رہی ہے، ناجائز حمل ہمارے سماج میں اس گئے گزرے دور میں بھی لائق ملامت ہے، اس لیے ایسے بچوں کو اپنی حرام کاری کو چھپانے کے لیے پیدا ہو تے ہی جنگل جھاڑی یا کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے، قسمت نے یاوری کی تو بچہ کسی انسان کے ہاتھ لگ کر زندہ رہتا ہے، ورنہ جانور اسے اپنی خوراک بنا لیتے ہیں اور بچہ کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے، پھینکے جانے والے بچوں میں ایک بڑی تعداد ان چاہے بچوں اور بچیوں کی بھی ہوتی ہے، مسلسل بچیوں کی پیدائش سے تنگ آکر پھینکے جانے والی بچیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں کوڑے دان میں ملے بچوں کی تعداد 240212، مدھیہ پردیش میں 224277، گجرات میں 149146، اتر پردیش میں 127163، کرناٹک میں 113171 ہے، ان میں ستر فیصد معصوم بچیاں ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد ان بچیوں کی ہے جن کو ان کے والدین نے ہی کوڑے خانے کی نذرکر دیا۔

ہندوستان کی تمام ریاستوں میں کم و بیش اس قسم کی صورتحال پائی جاتی ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ ماؤں میں بھی پہلے سی ممتانہیں رہی، پہلے بچوں کو ماؤں کے آنچل کا سایہ ملتا تھا، اب مائیں جینز پینٹ اور اسکرٹ میں آگئی ہیں دوپٹہ سروں سے غائب ہونے کی وجہ سے یہ سایہ بھی بچوں سے چھنتا جا رہاہے۔

جس بے دردی سے ان بچوں کو جنگل اور کوڑے دان میں پھینکا جا تا ہے، اس کی وجہ سے ننانوے فیصد بچوں کو چاہ کر بھی بچانا ممکن نہیں ہو تا؛ کیوں کہ وہ کھلے میں پڑے ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے انفیکشن اور جراثیم کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے بچوں کی تعداد ہندوستان میں تین کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے،یورپ اور مغربی ممالک میں یہ تناسب ہندوستان سے کہیں زیادہ ہے اور قدیم بھی، اس لیے وہاں اٹھارہویں صدی عیسوی سے ہی پھینکے گئے بچوں کو بچانے کی مہم شروع کی گئی اور اسے بے بی ہیچز( hatches Baby) کا نام دیا گیاتھا، یہ ایک پالنا ہوتاہے جس کا ایک سرا ہاسپیٹل سے مربوط ہوتا ہے، جیسے ہی کوئی بچہ اس پر رکھا گیا، الارم کی گھنٹی ہاسپیٹل میں بجتی ہے اور ڈاکٹروں کی ٹیم اس کو بچانے کے لیے سر گرم عمل ہو جاتی ہے، 1991ء میں اس کی شروعات تمل ناڈو میں جے للیتا نے کی تھی اور اب اسے کریڈل بے بی اسکیم (Cradle Baby Scheme)کے تحت کیا جا رہا ہے،یہ تجربہ وہاں انتہائی کامیاب رہا اور گذشتہ پچیس سالوں کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس مہم کے تحت پانچ ہزار بچوں کو بچانا ممکن ہو سکا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس کام کے لیے وزارت برائے وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے تحت ہر ضلع میں کریڈل بے بی رسیپشن سنٹر(Cradle Baby Reception Centre) موجود ہے اور سرکاری و غیر سرکاری اڈاپشن ایجنسیز( Adoption agencies)کے ذریعہ ایسے بچوں کے تحفظ کا نظم کیا جاتا ہے۔اگرکسی بچے کو کسی نے گود نہیں لیا توایسے بچوں کی فوسٹر ہوم( Foster Home) چھ سال کی عمر تک پرورش و پرداخت کرتا ہے اور اس کے بعد انہیں بچوں کے گھر میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اٹھارہ سال تک سرکاری صرفہ پر زندگی گزارتے ہیں، وہاں ان کی پیشہ ورانہ تربیت کی جاتی ہے اور اٹھارہ سال کے بعد وہ اپنا معاش خود حاصل کرنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔

معاشی کساد بازاری اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی کے عمومی مزاج کی وجہ سے ہندوستان میں بچوں کو گود لینے کا رجحان کم ہو تا جا رہا ہے،سنٹرل اڈاپشن ریسورس اتھارٹی (CARA)کے مطابق 2021-22 میں 2991 بچوں کو ہی گود لیا جا سکا، جن میں 1293 لڑکے اور 1698 لڑکیاں تھیں،414 بچوں کو گود لینے والے غیر ملکی تھے، یہ صورت حال اس وقت ہے جب ہندوستان میں کم و بیش پندرہ فیصد شادی شدہ جوڑے لاولد ہیں، جن کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق تیس ملین ہے۔

مسلمانوں کے درمیان اس قسم کے واقعات نسبتاً کم ہیں، کیوں کہ اسلام کے نزدیک نو مولود کو کوڑے دان اور جنگلوں میں پھینکنا گناہ عظیم ہے، اورایسے بے سہارا بچوں کی کفالت اور پرورش و پرداخت ثواب کا کام ہے۔ اڈیشہ کے بسرا سندر گڑھ میں دشا نام سے ایک ایسا ادارہ آزاد بھائی نے قائم کیا ہے، جس میں پھینکے ہوئے نو مولود بچوں کی پرورش و پرداخت اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کا نظم کیا جاتا ہے، ان نومولود بچوں کی خدمت کے لیے عورتوں کو ملازمت پر رکھا گیاہے،جو ان کی ضرورتوں کا دھیان رکھتی ہیں، وقت پر انہیں دودھ پلاتی ہیں اور ماؤں کی طرح ان کی غلاظتیں صاف کرتی ہیں، پڑھ لکھ کر جب یہ بچے، بچیاں شادی کے لائق ہوجاتی ہیں تو ان کی شادیاں کر دی جاتی ہیں، اس ادارہ کاتذکرہ اس لیے کیا گیا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ بھی ایک کرنے کا کام ہے، اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم بہت سارے بچوں کو ایمان کی دولت سے مالامال کر سکیں گے، ان کی پرورش و پرداخت اسلامی انداز میں کر کے انہیں اچھا مسلمان اور بہتر شہری بنا سکیں گے، یہ مسئلہ کا حل بھی ہے اور ثواب کا ثواب بھی،

 

متعلقہ خبریں

Back to top button