مضامین

"آدھی ملاقات ” کے مفتی ثناء الہدٰی قاسمی

"آدھی ملاقات ” کے مفتی ثناء الہدٰی قاسمی
✍️ ڈاکٹر قاسم خورشید
اوراقِ پارینہ  کے روشن ہوتے ہی لفظوں سے تصویریں اُبھرنے لگتی ہیں بہت سی ایسی شبیہیں بھی جنہیں ہماری بے توجہی نے گرد آلود کر دیا تھا ۔مگر مطلع صاف ہونے لگتا ہے تو جیسے گہرے اندھیرے کو روشنیوں کا سلسلہ مِل جاتا ہے
بس ایک دور تو حال ہی میں ہم سے رخصت ہوا ہے جب ملاقات کی زندہ تصویروں سے ہماری گہری آشنائی تھی رشتہ مستحکم اور غیر مشروط ہونے پر خط کی تحریروں کے ساتھ پیغام زبانی يا تحریرِ لامکانی کا بھی خاصا دخل ہوا کرتا تھا
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ   تو  پیغامِ  زبانی  اور  ہے
 ہمارے عہد کے بہترین دانشور اديب محقق مدبر مقرر اور مذہبی رہنما مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی صاحب کا اکابرین معاصرین اور متعلقین کے نام خطوط کا مجموعہ "آدھی ملاقات ” جب منظرِ عام پر آیا تو خطوط نویسی کی نئی جہتوں سے نئے عہد کو روشناس ہونے کا موقع ملا
حالانکہ مفتی صاحب نے شروع میں بی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
"مکتوب نگاری کا فن مردہ ہوتا جارہا ہے جو کچھ بچ گیا ہے وہ بھی کاروباری اور تجارتی زیادہ ہے،جس میں سودوزیاں کا ذکر زیادہ ہے  اور جذبات کی دہلیز پر برف کی موٹی سل ڈال دی جاتی ہے ،ایسے خطوط بے رس ،ہے کیف ،خشک اور سپاٹ ہوتے ہیں "
مفتی صاحب رشتوں کی ہم نوائی کے طرفدار ہیں ظاہر ہے تمام عمر جو شخص سماجی سروکار کے وقف رہا ہو اس کے  مشاہدے میں سماج کا بڑا حلقہ رہا ہے جس انہماک اور شدّت سے وہ انسانی فلاح و استحکام کے کام کر رہے ہیں تو ان میں سے کچھ لوگوں سے بار بار ملاقات کی وجہ سے ذاتی رشتا بھی استوار ہو ہی جاتا ہے رشتے میں توقعات بھی ناگزیر ہیں مگر مرکزیت محبت ہے اور زیادہ تر والہانہ تعلقات میں غیر مشروط معاملات ہی ہوا کرتے ہیں ہمارے ادب کا بیشتر حصہ رشتوں کا رزمیہ ہے تمام اصناف اور خصوصی طور پر تخلیقی ادب کے شہہ پاروں میں زندگی سے زیادہ زندگی، تصوّر سے زیادہ افلاک، تصنع سے زیادہ سبک روی ،خیال سے پرے الہام ،سر آئینہ سے روشن پسِ آئینہ ،حقیقت سے بہتر فسانے کا التزام نظر آتا ہے ایسے میں معتبر یت ہی بے اماں ہو جاتی ہے غالب بھی جب اپنے اشعار کے رموز سے باہر آئے تو خطوط میں تمام تر بندشوں سے آزاد ہوکر بس خوشبو میں رچے بسے رشتے کے ساتھ گویا ہوئے اور غالب کی غیر معمولی نثر نگاری کے اوصاف اُن کے خطوط میں یوں روشن ہوئے کہ غالب کی نثر بھی ہمارے لیے  فکری اور فطری خصائص کے لیے رہنما اصول کے قالب میں ڈھل گئی
مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی صاحب بھی جب اپنے مضامین اپنی تقریروں سے باہر آئے تو اکابرین معاصرین کے نام خطوط سے گزرتے ہوئے شدّت سے محسوس کیا کہ رشتوں کی رفاقت سے وہ یکسر محروم ہو جاتے اگر خطوں میں کھلنے سے قاصر رہتے
مَیں کہہ چکا ہوں کہ مفتی صاحب کی زندگی سماجی فلاح و استحکام کی نذر ہے اس لیے انسانی رشتے کے بھی بڑے نبّاض بن کر ابھرے ہیں اکابرین کے نام اُن کے خطوط سے یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں کتنی شفقت کتنی حمایت حاصل رہی ہے
مفتی صاحب اکثر مقامات پر  اپنے مضامین سے زیادہ خطوط میں کھلے ہیں حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی حضرت نظام الدین صاحب قاضی مجاہد الا سلام قاسمی مفتی سعید احمد پالن پوری مولانا سعید ارحمن اعظمی حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی حضرت خالد سیف اللہ رحمانی  قاری مشتاق احمد مولانا سید محمد شمس الحق  یا دوسری طرف مولانا انیس الرحمن قاسمی  مفتی نسیم احمد قاسمی  ڈاکٹر سعود عالم قاسمی جناب اجمل فرید کے ساتھ اہل خانہ اور متعلقین کے نام اُن کے خطوط کے مطالعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مفتی صاحب نے کس طرح رشتوں کے استحکام کے عمل میں چابکدستی سے سماجی منظر نامے بھی پیش کیے ہیں بعض اوقات کاروباری خطوط بھی نجی نوعیت کے ہو گئے ہے مشاھیر سے مفتی صاحب کے رشتے کی مضبوطی کا بھی شدید احساس ہوتا ہے خطوط کے مطالعے سے جہاں یہ  بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کس طرح عالمی سطح پر اسلام کے فروغ کو عملی صورت بھی دی جاتی رہی ہے
بعض نکات جو عام طور پر مضامین میں جگہ نہیں حاصل کر پاتے ہیں خطوط میں آسانی سے بیان ہو جاتے ہیں انداز سے ہی صداقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
مولانا رابع حسنی ندوی کے نام سبھی خطوط مطالعے کو رو سے ناگزیر ہیں
"……گزشتہ سال دوبئی کے حاکم متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر اعظم اور نائب صدر شیخ محمد بن راشد المکتوم کی دعوت پر جائزہ قرآن کریم میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت ہوئی تھی اور کم از کم بارہ خطابات ہوئے تھے _اس سفر میں امارت شرعیہ کا کھل کر تعارف ہوا تھا،اس کی وجہ سے عام فضا امارت کے حق میں بنی "
مفتی صاحب کے ایسے تمام خطوط کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے جن سے امارت کی خدمات کے ساتھ وقت وقت پر بنائی گئی پالیسیوں کا بہت سہل انداز میں جانکاری حاصل ہو جاتی ہے ۔مفتی صاحب نے تمام عمر دیہی علاقوں میں بھی تحریک کو عملی صورت دینے میں بہترین خدمات دی ہیں ویشالی کے گاؤں کے حوالے سے مکفر اسلام حضرت مولانا سید ولی رحمانی صاحب سے استفادے کے سلسلے میں اُن کے خطوط اس کی تصدیق یوں کرتے ہیں
” ويشالی ضلع کے قریہ و دیہات سے حضرت امیر شریعت رابع کا ربط بڑا گہرا ,مضبوط اور مستحکم تھا ،عقیدت مندوں اور متوسلین کی بڑی تعداد وہاں تھی،حضرت کے وصال کے بعد یہ ربط انتہائی کمزور ہو گیا،آپ کی تشریف آوری سے تعلقات کی تجدید ہوگی اور اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ یہ باعث خیر و فلاح ہوگا”
اسی طرح جابجا اپنے خطوط میں مفتی صاحب کے افکار بھی کھلتے ہیں ملک اور سماج میں درپیش مسائل کے حوالے سے بھی انہوں نے بار بار قلم اٹھایا ہے اور کئی مقامات پر مایوسیوں کے باوجود گفتگو بند نہیں کے ہے وہ اپنی کاوشیں جاری رکھتے ہیں جابجا اپنے مقامی صوبائی ملکی اور غیر ملکی سفر کا مقاصد کے ساتھ ذکر کیا ہے جو معلوماتی ہونے کے ساتھ تحریک بھی پہنچاتے ہیں اپنے خطوں میں وہ مسائل اور وسائل دونوں کا ذکر کرتے ہیں بعض مقام پر سخت گیری بھی ہے مگر مقصد فلاح سے مزیّن ہے
مفتی صاحب خطوط نگاری کے موجودہ رویے سے بھلے نالاں ہوں مگر اب بھی وہ اپنی پرانی روش پر ہی قائم ہیں خطوط کے ذریعے جس طرح وہ کسی عمل کو دستاویزی صورت عطا کرتے ہیں وہ اس صنف کی بقا کے لیے بےحد ضروری ہے انہیں بھی غالباً یہ اندازہ ہے کہ گلوبل عہد میں خطوط نے ترسیل کی صورت بدلی ہے مگر موقف بدلنا آسان نہیں ہے اب بھی ہم میسیج یا چیٹ سے گفتگو کرتے ہیں پہلے ٹیلیفون نے ترسیل کی سمعی صورت کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کی کوشش کی تھی اب بھی ہم اپنی ساتھ سے پیغام دینے کے لیے مختلف سمعی بصری طریقے اپنائے ہیں مگر اب بھی  کل کی طرح آج بھی متن سے لیس ہونا ناگزیر ہے لفظوں کی دنیا کبھی ختم نہیں ہو سکتی اس لیے جہاں جس فورم میں ترسیل کے لیے لفظ استعمال کیے گئے ہیں وہ ہمیشہ ہمارے حوالے میں رہیں گے ہی_اس لیے خطوط کا مجموعہ "آدھی ملاقات” مفتی محمد ثناء الہدٰی قاسمی صاحب کی زندہ تحریروں کے لیے بہترین تحقیقی دستاویز بھی ہے
اللہ کرے زورقلم اور زیادہ
🟤 ڈاکٹر قاسم خورشید
ماہرِ تعلیم و سابق ہیڈ لینگویجز ایس سی ای آر ٹی بہار

متعلقہ خبریں

Back to top button