جنرل نیوز

اس دیش کی آزادی کو کیا ہوگیا؟

 

رشحات قلم

عبدالقیوم شاکر القاسمی

جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء 

ضلع نظام آباد

9505057866

 

سب سے پہلے میں اپنی طرف سے پورے ملک کے باشندوں کو 76 ویں یوم آزادی کی سالگرہ پر مبارکباددیتا ہوں اوریہ کہنا چاہتا ہوں کہ

آزاد دیش میں لیکن غلامی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور خداجانے کب تک جاری رہے گا

ملکی سطح پر اگر نظر ڈالی جاے اورحالات کا عمیق نظروں سے جائزہ لیاجاے تو پتہ چلے گا کہ

آج بھی کمزوروں اوراقلیتی طبقات کے افراد پر ہر قسم کے ظلم وجبر کو روارکھا جارہا ہے جگہ جگہ ان کے حقوق کو پامال کرکے محروم کیا جارہا ہے مساجد ومدارس اورمکانات پر انہدامی کارروائیاں ہورہی ہیں ان کے ذاتی مسائل ومعاملات میں مداخلت کرکے مذہبی آزادی پر بھی روک لگای جارہی ہے تعلیم ولیاقت ہونے کے باوجود مختلف شعبوں میں نوکریوں اورملازمتوں سے دورکیا جارہا ہے

مہنگای آسمان کو چھورہی ہے لوگ گھروں سے بے گھر ہورہے بھکمری اورفقر وفاقہ عام ہوتا جارہا ہے

اس ملک کے رہنے والوں کے درمیان نفرت کا ماحول بنایا اورعداوت کا بازار گرم کیا جارہا ہے

باوجود ان سب کے ہم اب بھی اس دیش کو آزاد مان کر گذشتہ 75 سال سے برابر ترنگا لہراکر شہیدان وطن کو خراج عقیدت پیش کرکے اپنے ملک کی جمہوریت پر ناز اورفخرکررہے ہیں

اقلیتوں کے مال وعزت جائیداداورکاروبار وتجارت اسی طرح ان کے جمہوری اجتماعی حقوق آج کچھ بھی محفوظ نہیں ہے پھر بھی ہم آزادی کا جشن منارہے ہیں

ہماری حب الوطنی کو للکارنے اورہمیں دوسرے درجہ کا شہری سمجھنے والوں اور ہم پر غداری اوردیش سے عدم محبت کا پرچارکرنے والوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ 15اگست 1947میں اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لےء جہاں اوروں نے قربانیاں دی ہیں وہیں ہم وطن پرست اورمحبان ملک

مسلم علماء وعوام نے بھی کوی کسر نہیں چھوڑی یہ اوربات ہیکہ زمانہ ان کی اس عظیم قربانی کو فراموش کرگیا

ہم نے صرف سیاسی قومی لیڈروں کو جانا کہ یہ آزدی کے ہیرو ہیں

لیکن

المیہ یہ ہیکہ ان کو ہیرو کس نے بنایا ان شخصیات کو ہم نے یکسر فراموش کردیا ہے

جنہیں آج یادکرنے اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ضرورت ہے

ہندوستان کی روشن تاریخ گواہ ہیکہ جب جب بھی ہندوستان کوخون کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہماری ہی گردنیں کٹی مسلمانوں نے ہی پیش قدمی کرتے ہوے اس کو اپنے لہو سے سینچا

جب جب بھی اس ملک کی سالمیت کو خطرلاحق ہوا تو مسلمانوں نے ہی آگے بڑھ کر اس کی حفاظت کی اورپاسبانی کا فریضہ انجام دیا

آپ سب کو معلوم ہیکہ یہ ملک ایک طویل عرصہ تک انگریزی سامراج کے چنگل میں گرفتارتھا اس ملک کی گردن میں طوق غلامی ڈالاجاچکاتھا یہاں کی آزادی اورخودمختارحکومت اورعوام سب کو محکوم وغلام بنالیا گیا تھا جس کی ایک تین سوسالہ طویل ترین داستان ہے

لیکن

میں پورے اختصارکے ساتھ عرض کروں گا کہ انگریزوں کے خلاف صداے جہاد بلند کرکے انگریزی سامراج سے نبردآزما ہونے کا سب سے پہلے اعلان اگر کسی نے کیا تو تاریخ گواہ ہیکہ وہ مولاناسید احمد شہید رح اورمولاناشاہ اسماعیل شہیدرح تھے

پھر 1757 میں پلاسی کا معرکہ ہوا اورشیر بنگال نواب سراج الدولہ نے انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف علم جہاد بلند کیا

شیخ الہند مولانامحمودالحسن علامہ عبیداللہ سندھی نے مل کر ایک جلاوطن حکومت بھی کی جس کے صدرراجہ مہیندرپرتاب سنگھ تھے

یہ شیخ الہند مولانامحمودالحسن ہی تھے جنہوں نے مہاتماگاندھی کو افریقہ سے بلاکر تحریک آزادی کاہیرو بنایا

شیخ الاسلام مولاناحسین احمدرح اس ملک کی آزادی کی خاطر گرفتار ہوے مالٹا کی جیل میں انگریزوں کی صعوبتوں کو بھی جھیلا اورہندوستان چھوڑو تحریک چلای

انگریزی فوج میں شامل ہونے کو حرام ہونے کا فتوی بھی جاری کیا اورکفن اپنے ساتھ لے کر پھرتے تھے

مولانا شبیر احمد عثمانی مولاناحفظ الرحمان سیوہاروی مولانامحمد میاں دیوبندی مولاناحبیب الرحمان عثمانی مولاناحبیب الرحمان لدھیانوی یہ تمام علماء وزعماے قوم وملت ہی تھے جنہوں نے تحریک آزادی میں اہم کرداراداکیا

اگر میں یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ

مہاتماگاندھی جی جواہر لال نہرو جی ڈاکٹرامیبڈکراورسبھاش چندرابوس اوردوسرے اہم قومی لیڈران کو ہیروبنانے والے ہمارے ہی یہ علماء تھے

جنہوں نے ہندوستان کے ایک ایک ذمہ دار انسان کے دلوں میں آزادی کی روح پھونکی اورملک کی حفاظت کا سامان کیا

لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ ہماری قوم نے ان سب علماء کی قربانیوں کو بھلادیا

آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ 1857 کا انقلاب برپاکرنے والے وہ کوی اور نہیں

ہماری ہی قوم کے سربراہان مسجد ومحراب کے باشی عمامہ اورٹوپی پہننے والے علماء ہی تھے جو پرچم آزدی کو کبھی سرنگوں ہونے نہ دیا

شاملی کے میدان میں معرکہ ہوتا ہے تو ہزاروں حفاظ کرام اورہزاروں کی تعداد میں علماء عظام نے خاک وخون کی ہولی کھیلی بالآخر ملک کی حفاظت کےلےء شہید ہوتے چلے گےء

لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو سرعام پھانسی دے دی گیء سینکڑوں علماء کو کالے پانی کی سزاء سنای گیء

دہلی کے چاندنی چوک سے لیکر شاملی کے میدان تک کوی درخت ایسا نہ تھا جس پر کسی عالم کی گردن نہ لٹکی ہوی ہوں

روح کانپ جاتی ہے اگر ان علماء کرام کی قربانیوں کو سنایا جاے اورتاریخ کی کتابوں میں پڑھاجاے

علم حریت بلند کرنے والی جماعت علماء میں وہ نام بھی شامل ہیں جن کو دنیا مولانا قاسم نانوتوی مولانامملوک علی حافظ ضامن شہیدمولاناجعفرتھانیسری کے نام سے یادکرتی ہے

وقت نہیں کہ ان سب کے نام اورقربانیوں اورتحریکات کو شمارکراؤں

لیکن

اتنا ضرورکہوں گاکہ اس ملک کی آزادی کے لےء ہمارے مسلم علماء اورعوام نے جتنا خون بہایا اتناکسی اورنے اپنے بدن کا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا

یادکیجیے

مولانامحمد علی جوہر۔ مولاناظفرعلی خان۔ مولاناشاہ عطاء اللہ بخاری۔ مولاناعبدالباری فرنگی محلی۔مولانا عبدالماجد بدایونی ۔مولاناشوکت علی ۔حکیم اجمل خان ۔ڈاکٹر مختاراحمد انصاری ۔سیف الدین کچلو ۔اورامام الہند فخر ہندوستان مولاناابولاکلام آزاد کی قربانیوں کو اور اپنے اندر بھی وہ حوصلہ وجرأت پیداکرو جو ان مقدس ہستیوں نے پیداکیا تھا

آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ آج ملک کی آزادی کا 76 واں جشن پورے دیش میں منایا جارہا ہے لیکن ہماری اورہمارے علماء کرام کی قربانیوں کو نظرانداز کرکے کچھ فرقہ پرست دشمن ملک تنظیموں اورلوگوں کی جانب سے ہم سے ہی دیش بھکتی اورحب الوطنی کا ثبوت مانگا جارہا ہے

اس لےء میری گذارش اورپیغام ہیکہ ہمیں اپنے اسلاف کی تاریخ اور عظیم قربانیوں کو یادرکھنا چاہیے

اللہ پاک سے دعاء ہیکہ ہمارے اس ملک کو دشمنوں کی بری نظر سے محفوظ فرماءے اوراس ملک کو قومی یکجہتی اورامن وامان کا گہوارہ بناے

 

متعلقہ خبریں

Back to top button