مضامین

کیا ہمیں شروع میں ہی ایک کیرئیر یا فن متعین کرلینا چاہئے؟

الحمد للّہ ایل ایل بی میں داخلہ ہوگیا، میرے خوابوں کی داستاں
مشن تقویتِ امت قسط 16
آئیے آج خوابوں کی عمرِ رواں کو یاد کرتے ہیں، جب چھوٹا تھا تو والد صاحب کو دیکھ کر یہ تمنا ہوتی تھی کہ شیخ الحدیث بنوں گا، پھر سوم میں آیا تو یاد آتا ہے کہ ایک بار اشرف العلوم کنہواں میں اصول الشاشی کے استاذ محترم مولانا صدر عالم صاحب نے سوال کیا کہ آگے کیا بننا چاہتے ہو، تو میں نے جواب دیا تھا کہ بہت بڑا امیر بننا چاہتا ہوں تاکہ غریبوں کی مدد کرسکوں کیوں کہ میں خود غریب تھا اپنے والدین کے اسٹرگل اور جد وجہد کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کررہا تھا، راستے پر بیٹھے فقیروں کو دیکھ کر آنسو نکل آتے تھے، جب پنجم میں دارالعلوم آیا تو، اپنی غربت اور تعلیم کے درمیان تطابق پیدا کرتے ہوئے، مدارس کے مہتممین کے مظالم سے عبرت لیتے ہوئے اور دلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپنے مامو جان ڈاکٹر قاسم عادل سے انسپائر ہوکر یہ خواہش ہوئی کہ مدارس کا استاذ بننے کے بجائے یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کا پروفیسر بنوں گا تاکہ پیسے بھی اچھے ملیں، گھر کی معاشی حالت بھی درست کرسکوں اور دین کی خدمت بھی کرسکوں، ششم کے بعد سے مولانا سلمان بجنوری صاحب اور میرے فیورٹ استاذ بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب سے رسم و راہ بڑھی تو فقیہ اور ادیب بننے کا شوق ابھرا، ہفتم دورہ تکمیل ادب میں لائبریری کا چسکا لگا تو پھر مفسر، فلسفی، عامل، سانٹسٹ، ماہر نفسیات و ماورائیات اور نہ جانے کیا کیا بننے کی خواہش ہوئی، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش کی تکمیل کے لیے ایک عمر بتانی پڑے۔ کبھی اسماعیل مینک اور ذاکر نائک کو سن کر انگریزی کا خطیب و مناظر بننے کا شوق ابھرتا تو کبھی اویسی کو سن کر سیاسی لیڈر بننے کا سودا سر میں سماتا، کبھی امام ابوحنیفہ جیسا مجتہد بننے کا دل کرتا تو کبھی شاہ ولی اللہ جیسا متبحر عالم بننے کی امنگ جاگتی۔
یہ اس زمانے کی خوبصورتی ہوتی ہے کہ ہر پہر آپ کے گولز چینج ہوتے ہیں، ہر مہینے آپ کے خواب بدلتے ہیں، اور بدلتے بھی رہنے چاہئیں، اگر نہیں بدلتے تو اس کا مطلب ہے آپ سوچ نہیں رہے، مختلف چیزوں کو ایکسپلور نہیں کررہے
اس زمانے میں بلکہ اب بھی مجھے بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ کوئی ایک لائن چنو، کسی ایک فیلڈ کا انتخاب کرو اور اسی میں ماہر بنو جیساکہ آج کل ٹرینڈ چلا ہوا ہے، لیکن پتہ نہیں بچپن سے ہی عادت رہی ہے کہ کوئی چیز نارمل انداز میں کرنے کا جی ہی نہیں کرتا، کچھ نہ کچھ دھماکہ ہوتے رہنا چاہیے، کچھ نہ کچھ غیر معمولی کام کرتے رہنا چاہئے، اور میری زندگی ان غیر معمولی واقعات و رب کے انعامات غیر مترقبہ سے بھری پڑی ہے الحمدللہ، اس لیے میں ہمیشہ ایسا مشورہ دینے والوں کے مشورے پر توجہِ عمل نہیں دیتا، بس ہاں میں ہاں والی توجہ دے کر اپنے رستے ہولیتا ہوں
ایل ایل بی کی کہانی
اس کے پیچھے ایک وجہ یہ تھی کہ ماضی قریب کے جتنے بھی کامیاب لیڈر رہے ہیں ان میں سے اکثر لاء کے ڈگری ہولڈر ہیں، لہذا ہم نے ایک لمبے عرصے سے سوچ رکھا تھا کہ جب بھی موقع ملا ایل ایل بی ضرور کریں گے، مرکز المعارف سے فارغ ہونے کے بعد ادارے کی جانب سے ہمیں یہ آفر ملا کہ آپ اجمل کمپنی میں کام کریں، کام کے ساتھ ساتھ آپ کو ایل ایل بی کے لیے اسکالرشپ بھی ملے گی، آفر اچھا تھا مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ بزنس لاء سے ریلٹیڈ ہوگا اور ہم کو فوکس کرنا تھا کریمنل لاء پہ تاکہ مسلمانوں پر ہورہے ظلم کی روک تھام اور جیلوں میں بند بے گناہ قیدیوں کی داد رسی کرسکیں اس لیے وہاں نہیں گیا، پھر تحفیظ القرآن پٹنہ میں پڑھاتے ہوئے مرکز المعارف کے سلور جوبلی کے موقع پر ڈائریکٹر سر مولانا برہان الدین صاحب کی معرفت مولانا بدر الدین اجمل صاحب سے دہلی میں ملاقات کرکے درخواست کی کہ وہ آسام میں موجود لاء کالج میں ایڈمیشن دلادیں اور دس ہزار اسکالرشپ دیں تاکہ پانچ ہزار گھر بھیج کر پانچ ہزار میں اپنا خرچہ چلاسکوں، لیکن وہاں بھی بات نہیں بنی کیوں کہ مولانا پانچ ہزار ماہانہ ہی دینے کو تیار ہوئے، لیکن میں نے ٹھان رکھی تھی کہ بھیا کرنا ہے تو کرنا ہے بلکہ اب تو اپنے بل بوتے پر کرنا ہے، کورونا سے پہلے کلیٹ کے اگزام کی تیاری کی مگر کورونا کی وجہ سے معاملہ التوا میں چلا گیا، پھر دو ہزار اکیس میں جب گجرات پڑھانے گیا تو وہاں ایک وکیل صاحب صادق سر سے ملاقات ہوئی، انہوں نے ایک کالج کا پتہ بتایا جہاں ہر سال کی فیس صرف انیس ہزار ہے لہذا الہ آباد یونیورسٹی سے مربوط اسی کالج میں ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا الحمدللہ، دعا فرمائیں کہ اللہ بحسن و خوبی اسے پایۂ تکمیل تک پہنچائے آمین ثم آمین یارب العالمین
کیا آپ کو شروعات میں ہی اپنا میدان کار چن لینا چاہئے؟
تیس پینتیس سال سے پہلے اس مشورے پر عمل کا میں سخت مخالف ہوں، کیوں کہ جب میں اللہ سے ہمیشہ دعا مانگتا ہوں کہ اپنی شان کے مطابق سب سے اونچا کام لے لے، اور اللہ کے سامنے اپنی ایک ہی فیلڈ کی صلاحیت پیش کروں، یہ تو کوئی معقول اور پریکٹیکل بات نہیں ہوئی، میں صرف نحو میں مہارت پیدا کرکے اللہ سے کس منہ سے دعا مانگ سکتا ہوں کہ اے اللہ مجھے محدث و مفسر و ماہر نحو بھی بنا؟!؟!، آج ریلائنس انڈسٹری اگر بزنس کے فیلڈ میں کامیاب ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے سینکڑوں انڈسٹریز میں اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں
اس آئیڈیا کو اپنانے کا ایک بہت بڑا فائدہ مجھے مرکز المعارف میں بھی حاصل ہوا کہ ناصحین مشورہ دیتے تھے کہ یا تو اکیڈمکس اور نصابی کتابوں پر جم کر محنت کرو یا انگریزی رائٹر بننے پر یا پھر انگریزی کا مقرر بننے پر کیوں کہ تینوں کے محنت کا طریقہ الگ الگ ہے میدان الگ الگ ہیں، ایک ساتھ تینوں میں تمہاری پوزیشن نہیں آسکتی، لیکن ہم ٹھہرے ضدی، ہم نے ٹھان لی کہ اس اسٹیریو ٹائپ (غیر معقول گھسی پٹی مگر عام طور پر مشہور و مقبول بات)  کو توڑنا ہے اور الحمدللہ جب مرکز المعارف ممبئی سے فارغ ہوا تو تینوں (اکیڈمک، تحریر و تقریر) کی ٹرافی میرے ہاتھ میں تھی فللہ الحمد علی ذلک و الشکر لاساتذنا و کل من بذل المجہود فی تنمیتنا
اس لیے میرا اپنی موجودہ اور آئندہ نسل کے لئے مشورہ یہ ہے کہ تیس بتیس سال تک کی عمر ایکسپلور کرنے کی ہے، جن جن فنون میں آپ کو تھوڑی دل چسپی ہو اس کا کورس کر ڈالئے، اس عمر میں اگر کوئی کہتا ہے آپ کو کہ کسی ایک فیلڈ میں مہارت پیدا کرو تو اس کے مشورے کو بتیس یا پینتیس تک کے لیے موخر کردیجیے، ورنہ پھر ایسے ماہر فن بن جائیں گے جنہیں دوسرے فنون کی الف با کا بھی پتہ نہیں ہوتا، کیوں کہ انہوں نے نوعمری سے ہی اپنے دماغ میں بس ایک چیز سیٹ کی ہوئی ہوتی ہے، تو دوسرے فنون کے تئیں ان کا ذہن پہلے ہی اپنے دروازے پر نو انٹری یا ناٹ انٹریسٹیڈ کا چارٹ لگائے ہوتا ہے
بیس بائیس سال کی عمر میں اپنی سہولت کے حساب سے جاب یا بزنس میں لگیں، پھر مختلف فنون مختلف کورسز کو ایکسپلور کرتے رہیں، آپ ایک ساتھ دو کورس کرسکتے ہیں ایک ریگولر ایک ڈسٹینس (فاصلاتی)
کچھ گریجویشن اور ماسٹرز لیول کے کورسز ہیں جنہیں کرنے کا ہر اس شخص کو مشورہ دوں گا جو کچھ بڑا کرنا چاہتا ہے اور کچھ ڈھنگ کی بڑی تبدیلی لانا چاہتا ہے:
1 زندگی کا ایک بہترین ٹیچر بننے کے لیے بی ایڈ کیوں کہ اس سے بڑا اعزاز کچھ نہیں ہوسکتا کہ انسان معلمِ انسانیت بن جائے
2 فرد اور خود کے جذبات و احساسات کو سمجھنے کے لیے سائیکالوجی (نفسیات)
3 اپنی معقولیت کو جلا بخشنے اور مظلوموں کی دار رسی کے لئے ایل ایل بی
4 سماج اور اس کی حرکیات کو سمجھنے کے لیے سوشولوجی (عمرانیات) اور پولیٹیکل سائنس
5 آئیڈیاز کی دنیا کو ایکسپلور کرنے اور دنیا و مافیہا کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے فلاسفی
6 سماج کی صحیح عکاسی کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے جرنلزم اور ادب
7 سماج کی غربت دور کرنے کے لیے ایم بی اے اکنامکس
8 سماج میں زمینی سطح پر کام کرنے کے لیے ماسٹرز آف سوشل ورک
9 قرآن و حدیث کی تعلیمات کا موجودہ دور کی تعلیمات اور تہذیبوں سے تقابلی مطالعہ، اور دونوں کے درمیان خلا کو پر کرنے کے طریقوں کا مطالعہ
مجھے بھی ان شاءاللہ یہ سارے کورسز کرنے ہیں، ایل ایل بی میں داخلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے
ان سارے کورسز کی تعیین کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں اس سچویشن کا تصور کرتا ہوں جہاں میں اکیلا ہوں اور اکیلے ہی مجھے پوری قوم کی نیا پار لگانے کی ضرورت ہو تو کون کون سے علوم ہیں جو مجھے حاصل ہونے چاہئیں تو میرے سامنے یہ جوابات آئے ہیں، اگر آپ کے ذہن میں ان کے علاوہ اور بھی آپشنز آتے ہیں تو مطلع فرمائیں تاکہ ان پر بھی سوچا جاسکے
باقی ٹیکنیکل چیزوں کو سیکھنے کے لئے الگ سے کورسز میں پیسے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں یوٹیوب زندہ باد، یوٹیوب سے اچھی ٹیکنیکل باریکیاں کوئی یونیورسٹی بھی آپ کو نہیں سکھاسکتی
اتنے سارے کورسز کرنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں تو میں کیا کروں؟
 اگر آپ کے پاس وقت نہیں ان تمام کورسز کو کرنے کا تو کم از کم ان تمام فنون پر چند کتابوں کا مطالعہ ضرور کریں، یا یوٹیوب یا کسی اور پلیٹ فارم پر کریش کورس ضرور کرلیں، مثلاً سوشولوجی کا کورس میں نے یوٹیوب پر بہت ہی مشہور چینل کریش کورس سے کیا ہے، لیکن یاد رکھیں ڈگری ڈگری ہوتی ہے، آج بھی کسی فیلڈ میں پہچان بنانے اور کام کرنے کے لیے آپ کو ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے، ذاتی مطالعے سے کام نہیں چلتا
پھر اس کے بعد پی ایچ ڈی کے لئے ان تمام ناصحین کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کسی ایک فن کو خاص کرلیں، اور جب تک پی ایچ ڈی نہیں کرلیتے اپنی تعلیم کو مکمل ہرگز نہ سمجھیں، اطلبوا العلم من المھد الی اللحد کے زاویے سے تعلیم مکمل تو اس وقت بھی نہیں ہوتی البتہ تکمیل کا ایک زینہ پی ایچ ڈی کے بعد آدمی چڑھ لیتا ہے
اس کے بعد جب آپ میدان میں آئیں گے نا تو یقین مانیں ان شاءاللہ اللہ ہم سے ہماری صلاحیتوں سے بھی بڑھ کر کام لے گا، لیکن اس کے لیے شرط ہے اپنے رب کے سامنے اپنی بھوک اور اپنی تیاری دکھانا
پیش کر غافل! عمل (صلاحیت) کوئی اگر دفتر میں ہے
مفتی قیام الدین قاسمی سیتامڑھی  خادم مشن تقویتِ امت
7070552322

متعلقہ خبریں

Back to top button