نیشنل

بلقیس بانو کے خاطیوں کی رہائی کے کیس میں مرکز اور گجرات حکومت پر سپریم کورٹ ہوئی برہم

دہلی ۔ 18 اپریل ( اردولیکس) سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کیس کے 11 خاطیوں کی رہائی پر مرکزی حکومت اور گجرات حکومت سے کئی سوالات کئے اور کہا کہ جرم کی سنگینی کو پیش نظر رکھنا چاہئے تھا۔ عدالت نے سوال کیا کہ آیا دماغ کا کچھ استعمال کیا گیا؟ خاطیوں کی قبل از وقت رہائی کی وجوہات طلب کرتے ہوئے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی نا گارتنا کی بینچ نے قید کی مدت کے دوران انھیں پیرول پر رہا کرنے کے بارے میں بھی سوال اٹھائے۔ بینچ نے کہا کہ رہائی ایک ایسی مہربانی ہے جو ان کے جرم سے میل نہیں کھاتی۔ بینچ نے کہا کہ ریکارڈ دیکھئے ، ایک کو ایک ہزار دن کے پیرول پر رہا کیا گیا جوکئی سال ہوتے ہیں۔

 

دوسرے کو 200 ، 1 دن اور تیسرے کو 1,500 دنوں کے لئے رہا کیا گیا۔ آپ کس پالیسی پر عمل کر رہے ہیں؟ یہ دفعہ 302 کا کیس ایک معمولی نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعی قتل اور اجتماعی عصمت ریزی کا کیس ہے۔ آپ گھوڑوں اور گدھوں کو ایک ساتھ نہیں ہانک نہیں سکتے ، اسی طرح قتل عام کا تقابل ایک قتل سے نہیں کر سکتے ۔

 

بلقیس بانو کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے کہا کہ درخواست کے ساتھ کوئی نیا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ بینچ نے مرکز اور گجرات حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل ایس وی راجو سے کہا کہ اس معاملہ میں ایک حاملہ خاتون ہے جس کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی اور ایں کے خاندان کے کئی ارکان کو قتل کیا گیا۔ جرائم عام طور پر سماج اور کمیونٹی کے خلاف ہوتے ہیں جو برابر نہیں ہیں۔

 

ان کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت نے رہائی کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے دماغ کا استعمال کیا ؟ اور کس بنیاد پر فیصلہ کیا گیا؟ بنچ نے کہا کہ آج اس خاتون یعنی بلقیس بانو کے ساتھ ایسا ہوا ہے کل کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔

متعلقہ خبریں

Back to top button