جنرل نیوز

مفتاح العلماء _ حضرت رحیم الدین انصاری رحمۃ الله علیہ ‘ دکن کی ایک تحریکی وتاریخی شخصیت

مفتاح العلماء

حضرت

از قلم

 شیخ حسین احمد حسامی (کاماریڈی)

حضرت رحیم الدین انصاری کی رحلت قوم وملت (بالخصوص جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد کے لیے) ایک بڑے خسارہ سے کم نہیں،

 

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا ،

 

آپ کی علمی، ادبی اور انتظامی خدمات ناقابل فراموش ہیں، ریاست تلنگانہ میں ہی نہیں بلکہ دیگر ریاستوں میں بھی آپ کا تعارف اچھا خاصا رہا ہے،

حضرت مولانا حمید الدین عاقل علیہ الرحمہ کی سرپرستی اور ان کی شفقت میں آپ نے اپنی زندگی کو پروان چڑھایا اور تا دم زیست اسی فکر اور کاز سے جڑے رہے، آپ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد کے معتمد اور بعدازاں ناظم رہے، آپ نے جامعہ کے انتظامی، تعلیمی اور تعمیری امور کو جس حسن و خوبی سے انجام دیا وہ اپنی مثال آپ ہے ،

ریاستی و بیرونی علمائےکرام سے آپ کا والہانہ تعلق رہا،

حضرتؒ امیر ملت اسلامیہ۔۔۔۔۔ نے انصاری صاحب کو اپنا داماد بنایا اور قاضی مجاہد الاسلام صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے آپ کو "مفتاح العلماء” کے لقب سے نوازا، حضرت رحیم الدین انصاری صاحب ایک طرف مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تھے ، تو دوسری طرف ندوۃ العلماء کے رکنِ تاسیسی، یونائیٹڈ مسلم فورم تلنگانہ کےصدر، اردواکیڈمی متحدہ آندھرا کے( دو مرتبہ) صدر رہے چکےاور کئی تنظیموں اور اداروں کے سرپرست تھے

آپ۔۔۔! شہر کے بڑے بڑے اجتماعات کے روحِ رواں ہوا کرتے تھے،

أئمہ حرمین کو مدعو کرنا اور تاریخی جلسے منعقد کروانا، عظمتِ صحابہؓ کانفرنس جو جامعہ میں منعقد ہوئی تھی جس میں عرب و عجم کے علماء کرام کو مدعو گیا تھا جو بہرطور کامیاب رہی، اس کا سہرا آپ ہی کے سر جاتا ہے،

ملی مسائل کی یکسوئی کے لیے آپ ہمیشہ پیش پیش رہا کرتےتھے،

راقم الحروف کے والد گرامی حضرت شیخ جلیل احمد صاحب رحمۃ الله علیہ(بانی مدرسۂ عربیہ کاشف العلوم کاماریڈی) کی امیر ملت اسلامیہ مولانا حمید الدین حسامی عاقل علیہ الرحمہ سے گہری وابستگی رہی ، اس دور میں جب دیہاتوں میں عیسائیت، قادیانیت اور لادینیت عام ہورہی تھی ، کاماریڈی میں ایک دینی ادارے "مدرسہ عربیہ کاشف العلوم” کا قیام (1980ء) عمل میں لایا گیا تھا جس کی سرپرستی حضرت امیرِ ملت تا حیات فرماتے رہے،

چنانچہ اسی عنوان سے حضرت امیرِ ملت کو بانئ ادارہ کاشف العلوم (کاماریڈی) حضرت جلیل احمد علیہ الرحمہ وقفے وقفے سے مدعو فرماتے تھے اور مختلف مقامات پر دینی شعور بیداری مہم کا سلسلہ چلا تھا ، امت مسلمہ کو راہ راست کی تلقین و ترغیب کا کام اِسی جذبہ سے جاری رہا

راہِ حق بتانا میرا کام تھا۔

دل کی دنیا بدلنا ترا کام ہے

امیرِ ملت علیہ الرحمہ، اس شعر کے مکمل طور پر عمل پیرا تھے، شب و روز پورے ملک کے دورے کیا کرتے تھے، کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جس میں حضرت کسی اجلاس سے خطاب نہ فرمائے ہوں، یہ معاملہ تادمِ حیات جاری رہا، اور قوم کو دینِ حق سمجھاتے رہے،

حضرت کے اکثر اسفار میں شب و روز حضرت انصاری رحمۃ الله علیہ شریک رہتے، حضرت امیر ملت مولانا حمید الدین حسامی عاقل علیہ الرحمہ کے اسفار کی ترتیب مرتب فرماتے،

انصاری صاحب حاضر دماغ تھے، آپ کی حاضر دماغی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی دور میں دیکھا کہ ایک مرتبہ غلط فہمی کی وجہ سے پولیس عملہ جامعہ آکر غیر ضروری سوالات کرنے لگا انصاری صاحب ادارے میں موجود نہیں تھے، جیسے ہی پتہ چلا کہ پولیس "پریس رپورٹرس” کو اپنے ساتھ لائی ہے،

فورا آپہنچے اور اپنی مسند پر براجمان ہوتے ہوئے بغیر کسی خوف کے دو ٹوک انداز میں جواب دیتے ہوئے ان افسران کو لاجواب کردیا اور ان افسران کے سامنے کوئی حیلہ حوالہ نہ رہا بس انہوں نے چپکے سے اپنی راہ لی،

دوسرے دن جامعہ میں (بااثرشخصیات کی موجودگی میں) پریس کانفرنس کے ذریعے سخت نوٹس لیا جس سے اس وقت کی موجودہ حکومت اور پولیس اہلکاروں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا،

انصاری صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، آپ حق بات کہنے سے (ملامت کرنے والوں کی ملامت سے) خوف نہیں کھاتے تھے، آپ کی جرأت و ہمت کی داد دی جاتی رہی، آپ کی للکار سے وقت کے بڑے بڑے اہلِ رسوخ بدک جاتے ، آپ حق گو تھے، آپ مردم شناس تھے،

جامعہ میں اساتذہ کا انتخاب ہو یا درسیات کے کتب کی تقسیم ہو اپنی دور رس نگاہ سے درست فیصلہ کرتے تھے، انصاری صاحب عام خاص مقبول تھے، آپ ملک ہی میں نہیں دیگر ممالک میں بھی معروف تھے، آپ علیہ الرحمہ بڑے حوصلہ مند انسان تھے

2010 میں علامہ حمید الدین حسامی عاقل رحمۃ الله علیہ کے وصال کے بعد راقم الحروف کو اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ایک کتاب "دکن کی عہدساز شخصیت” کے عنوان پر کام کرنے کا موقع ملا تو آپ کی ہمت افزائی کی وجہ سے ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل کتاب "دکن کی عہد ساز شخصیت” کے نام سے پہلی جلد شائع ہو کر منظر عام پر آئی جس کی خوب پزیرائی کی گئی،

حضرت انصاری صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے، ملک کی بااثر شخصیات میں آپ کا شمار ہوتا رہا، آپ علم دوست، اور ادبی ذوق رکھتے تھے اسی مناسبت سے آپ دو مرتبہ تلنگانہ (آندھرا پردیش) کے اردو اکیڈمی کے کامیاب صدر، منتخب ہوئے اور اردو ادب کو پروان چڑھایا، اردو داں طبقے کی بھر پور حوصلہ افزائی فرمائی جو پورے ملک کے لیے مثالی کارنامہ آپ کا ہے، آپ متعدد مرتبہ حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی غسلِ بیت اللہ میں تیرا (۱۳)مرتبہ شریک رہے، ایک مرتبہ غسلِ کعبہ کا واقع بیان کرتے ہوئے کہا کہ، جب بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے تو تمام صاف صفائی کے اوزار موجود تھے ، لیکن عقیدت کی بناء میں نے اپنے جیب سے اپنا رومال سے صاف کیا اور کوئی نہ دیکھے اس انداز سے میں نے اپنے جیب میں واپس رکھ لیا،

نبی رحمت صلی الله عليه وسلم سے آپ کی عقیدت و محبت کا یہ عالم تھا جب بھی دینی جلسوں سے خطاب کرنے کا موقع ملتا بڑے شوق سے سیرت بیانی کرتے، اور جزبہ عشق میں ڈوب کر نعتیہ اشعار سناتے تو بےساختہ آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے تھے،

آغازِ جامعہ ہی سے پُر کیف درسِ ختمِ بخاری کا اہتمام کیا جاتا رہا،، جو نہایت متبرک اور مقبول ترین پروگرام ہوتا ، اس اجلاس میں چوٹی کے علماء کرام سے آخری درس دینے کا اہتمام کیا جاتارہا، جس میں جامعہ کی روداد اور سالانہ کارکردگی حضرت انصاری پیش فرماتے ، اجلاس میں مہمانانِ خصوصی کے علاوہ ریاست کے اکابر علماء کرام و نظماءِ مدارس کا بڑا جمِ غفیر ہوتا، خود انصاری صاحب ان تمام مہمانوں کی بہترین انداز میں خاطر مدارات فرماتے،

راقمُ الحروف کے ساتھ دوران تعلیم اور تکمیلِ درسیات پر بڑی کرم فرمائی ساتھ رہی بلکہ آخری دم تک ذرہ نوازی ہوتی رہی، احوال پوچھتے، ہمت دیتے، جب کبھی ملاقات کے لئے جانا ہوتا تو بڑی اپنائیت سے ملتے اور کچھ دیر اپنے ساتھ رکھتے،

آخری دنوں میں بھی حضرت انصاری صاحب فون کرکے خیریت دریافت فرماتے تھے یا فرزند ارجمند (نواسہ امیرِ ملت) مفتی عظیم الدین جنید انصاری حسامی سے ربط کے لئے کہتے اور احوال دریافت کرتے، فون کی فرمائش ہوتی، لاک ڈاؤن میں جب کہ تمام مدارس اور اسکولس بند تھے، مدرسہ عربیہ کاشف العلوم کاماریڈی میں بیرونی ریاست کے قریب سو طلبہ موجود تھے، انصاری صاحب بار بار حالات دریافت فرماتے تھے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے،

ہائے” وہ جو بیچتے تھے دوائے دل”

 

انصاری صاحب کو کبھی ایسا موقع نہیں ملا کہ گھر میں ولادت کا مرحلہ ہے اور وہ اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ ہوں، کبھی ایسا نہیں ہوا، بلکہ آپ وقت کے تقاضوں پر بیرونِ ملک اسفار میں تھے ، اپنے مشن کو پورا کرنے کا عزم کیا تو "بفضل اللہ” اس کو پورا کرکے ہی چین کی سانس لی،

جامعہ کی فکر آخری سانس تک دامن گیر رہی، مرض الوفات میں بھی جامعہ کو نہیں بھولا، حتی کہ طلبہ کے بارے میں انتظامیہ سے بار بار دریافت فرماتے طلبہ آج کیا کھائے ؟ طلبہ کیسے ہیں؟

آاااہ اب کہاں ڈھونڈیں گے ہم

انصاری صاحب جو ایک اولولعزم شخصیت تھے، جو اپنے ارادوں کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچاتے اطمینان سے نہیں بیٹھتے تھے، آپ کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح چندہی منٹوں میں شوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے کونے کونے اور دیگر بیرونِ ممالک تک پہنچ گئی

*انا للہ وانا الیہ راجعون*

قدردانوں کی کمر ٹوٹ گئی ایک بڑی تعداد تلاوتِ قرآن اور دعائے مغفرت میں مشغول ہوگئی،

آخری دیدار کے لیے، جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد لایا گیا، تو علماء اور عوام کا ایک عظیم اجتماع بپا ہوگیا، سب پر خاموش طاری تھی، مردِ مجاہد بڑے آرام سے لیٹے ہوئے تھا، لوگ آنسو بہاتے اور ایک دوسرے کو دلاسا دیتے جارہے تھے،

حضرت رحیم الدین انصاری صاحب کی یادیں مدتوں رہیں گئی۔

الله تعالٰی سے دعا ہے کہ حضرت رحیم الدین انصاری کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مادرِعلمی جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد کو سرسبز و شاداب رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

متعلقہ خبریں

Back to top button