مضامین

یادوں کے چراغ۔مولانا حسین احمد قاسمی ؒ 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ پریم جیور دربھنگہ کے بانی وناظم مدرسہ عارفیہ سنگرام مدھوبنی کے سابق صدر مدرس بھیرو پٹی سمستی پور اور کٹکی مسجد دربھنگہ کے سابق امام ، مولانا حافظ حسین احمد قاسمی کا 3؍ مئی 2021ء مطابق 19؍ رمضان 1442ھ بروز اتوار بوقت پانچ بجے شام دربھنگہ میڈیکل کالج اینڈ ہوسپیٹل (DMCH)میں انتقال ہو گیا ، وہ برسوں سے شوگر کے مریض تھے دو سال قبل کڈنی نے کام کرنا بند کر دیا تھا، ڈائیلاسس پر زندگی چلتی رہی ، چھ ماہ تک یہ عمل جا ری رہا ، پھر انتقال سے چار روز قبل کورونا میں مبتلا ہو گیے، اور بظاہر یہی مرض الموت ثابت ہوا، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز عشا ان کے قائم کردہ مدرسہ میں مولانا امداد احمد قاسمی نے پڑھائی اور مقامی آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو صاحب زادے حافظ ومولوی معتصم باللہ، حافظ محمد انس اور چار لڑکیاں ہیں، جن میں سے دو مولانا رحمت اللہ ندوی عارفی اور مولانا عادل فریدی قاسمی کے نکاح میں ہیں، مولانا رحمت اللہ ندوی سمستی پور میں بورڈ کے مدرسہ شمس العلوم کاشی پور میں استاذ ہیں اور مولانا عادل فریدی کی خدمات امارت شرعیہ کو حاصل ہیں، والدہ کا انتقال مولانا کے گذرنے کے صرف انتیس دن (13؍ 5؍ 2021) بعد ہوا،اہلیہ ایک سال نو ماہ پہلے ان کی زندگی میں رخت سفر باندھ چکی تھیں، مولانا امداد احمد قاسمی کو وہ روحانی بھائی تسلیم کرتے تھے، وہ بقید حیات ہیں اور مولانا کے گھر کے ایک فرد ہی کی طرح ان کا تعامل ہے، وہ مولانا مرحوم کے ابتدائی استاذ جناب مولوی مشتاق صاحب کے صاحب زادہ ہیں، مولوی مشتاق صاحب رشید پور کے رہنے والے تھے، پوری زندگی مولانا مرحوم کے دروازہ پر ہی بنیادی دینی تعلیم دیتے رہے، استاذ ، زادے کی حیثیت سے مولانا کے نزدیک ان کی بڑی قدر تھی، اور مولانا امداد احمد صاحب ان کے انتقال کے بعد بھی اس ربط وتعلق کو نبھا رہے ہیں۔

مولانا حسین احمد قاسمی بن ماسٹر ظہور الحسن (ولادت 18؍ جنوری 1933- وفات 5؍ اکتوبر 1999) بن محمدنذیر (م 1934) بن محمد مہدی حسین بن اخیار علی بن امام علی کی ولادت 1964ء میں لہیریا سرائے دربھنگہ سے پورب پریم جیور گاؤں میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال حیا گھاٹ ضلع دربھنگہ تھی، ان کے نانا چودھری صغیر احمد بن چودھری سراج الدین تھے۔

مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب میں جوان کے دروازہ پر ہی چلا کرتا تھا مولوی مشتاق احمد صاحب رشید پوری سے حاصل کی ، حفظ قرآن بھی انہیں سے کیا، پہلا دور مدرسہ امدادیہ میں مکمل کرنے کے بعد مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ چلے گیے اور قاری یار محمد کی درسگاہ سے حفظ قرآن کا دور مکمل کیا ، ان کی یاد داشت بہت مضبوط تھی اور علاقہ کے ا چھے حفاظ میں آپ کا شمار ہوتا تھا، عربی دوم تک مدرسہ رحمانیہ میں پڑھنے کے بعد عربی چہارم تک مدرسہ اتحاد المسلمین باگھا کسما ر موجودہ ضلع مدھوبنی میں تعلیم پائی، یہ مدرسہ بورڈ سے منسلک ہے، اس لیے فوقانیہ کا امتحان دیا اور اچھے نمبرات سے کامیاب ہوئے، عربی پنجم وششم کی تعلیم مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ سے حاصل کیا، نیز عربی ہفتم میں دار العلوم دیو بند میں داخل ہو کر یہیں سے 1987ء میں سند فراغ حاصل کیا، ماہرین علم وفن کی صحبت نے آپ کے اندر صلاحیت اور صالحیت اور تمام تعلیمی اداروں میں نامور اساتذہ سے کسب فیض نے ان کے اندر خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا، ان کا شمار اپنے علاقہ کے زمینی علماء میں ہوتا تھا، جن کے اثرات عام اور فیوض تام تھے، اصلاح معاشرہ اور تعلیم کی ترویج واشاعت کو انہوں نے اپنا مشن بنایا اور پوری زندگی اس میں لگادی ، فراغت کے قبل ہی 1985میں سلیمان پور، اجیار پور موجودہ ضلع سمستی پور کے ذی حیثیت اور زمیندار خاندان میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے، آپ کے سسر میر شفیع کریم (ولادت 1926-وفات 13نومبر2013) بن عنایت کریم تھے، جن کی تیسری لڑکی رضیہ شاہین (م2اگست 2019مطابق یکم ذی الحجہ 1441ھ) آپ کے نکاح میں آئیں وہ مولانا مرحوم کے تعلیمی کاموں میں بڑی معاون تھیں، خود بھی اور اد واذکار ، تلاوت قرآن کا اہتمام تھا، اور مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ میں قیام پذیر مہمانان رسول کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتی تھیں، مولانا کی گرتی صحت پر ان کی وفات کا غیر معمولی اثر پڑا، اور کہنا چاہیے کہ گھریلو اعتبار سے مولانا کے دست وبازو ٹوٹ گیے۔

دار العلوم سے فراغت کے بعد امامت سے منسلک ہوئے، دو سال تک بھیرو پٹی (سمستی پور) اور تین سال دربھنگہ شہر کی کٹکی بازار واقع جامع مسجد میں دینی خدمات پیش کیں، تعلیمی معیار کو بڑھانے کے لیے عصری علوم کا رخ کیا اور متھلا یونیورسیٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔

تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ عارفیہ سنگرام مدھوبنی سے کیا، صدر مدرس کی حیثیت سے اپنے پانچ سالہ قیام میں مدرسہ کے تعلیمی معیار کو بلند کیا، اور انتظامی اعتبار سے مدرسہ کو استحکام بخشا، ان کا درس طلبہ میں مقبول تھا اور مہمان رسول پر ان کی شفقت مثالی تھی، اپنی سادگی ، تقویٰ شعاری، خلوص وللہیت اور کام کی لگن کی وجہ سے وہ عوام وخواص کے منظور نظر رہے، مدرسہ کی مالیات کو مضبوط کیا اور مدرسہ عارفیہ کی مغربی عمارت کو دو منزلہ کرایا، 1999میں انہوں نے اکابر کے مشورے سے پریم جیور میں مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی، اپنی زمین مدرسہ کو دیا، اور جلد ہی اپنی محنت سے انگریزی سے مرعوب لوگوں کے درمیان دینی تعلیم کا مزاج بنانے میں کامیاب ہوئے، شہری حلقوں سے طلبہ کا رجوع مولانا کے مدرسہ کی طرف ہونے لگا، یہ اپنے میں بڑی بات تھی، مولانا خود تو لگے ہی رہتے ، مولانا کی اہلیہ بھی اس کام میں ان کی بڑی ممد ومعاون رہیں، جس کی وجہ سے مدرسہ کا کام تیزی سے آگے بڑھتا رہا ، مولانا نے مدرسہ کی تعمیر وترقی کی طرف توجہ دی، الحمد للہ آج مدرسہ کی عمارت اور مسجد کی تکمیل ہو چکی ہے اور مدرسہ کا نظام حسب سابق جاری ہے۔

مولانا سے میری ملاقات قدیم تھی کئی جلسوں میں ایک ساتھ شرکت ہو چکی تھی، وہ مجھ سے محبت کرتے تھے، لیکن گفت وشنید میں میرا خیال رکھتے، اس لیے میں ان سے کبھی بے تکلف نہیں ہو سکا، میری مشغولیت ان کے گاؤں اور مدرسہ میں جانے سے مانع ہوئی، مولانا رحمت اللہ ندوی عارفی کی تقریب نکاح مین شریک ہوا تھا، ان کی زندگی میں پھر دو بارہ ان کے گاؤں جانا نہیں ہوا، ان کے رفیق خاص، ہم دم وہمراز مفتی انوار احمد قاسمی ناظم مدرسہ عارفیہ سنگرام ہیں، ان کے مدرسہ کے جلسوں میں مہمان خصوصی وہی ہوا کرتے ، وہ روایتی جلسوں کے مخالف تھے، جس میں کئی کئی مقرر اور نعت خواں بلائے جاتے ہیں، وہ ایک دو مقرر کو بلا تے او رتاریخ بدلنے کے پہلے جلسہ ختم کر دیتے، ہر سال اس موقع سے دس بارہ حفاظ کی دستار بندی بھی ہوا کرتی۔ امسال گیارہ مارچ کو پہلا موقع تھا کہ ان کے مدرسہ کے جلسہ میں حاضری کی سعادت پائی، مدرسہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ایک شخص کتنا بڑا کام کر گیا، اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے ۔ آمین

 

متعلقہ خبریں

Back to top button