مضامین

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے 

 

از۔محمدقمرانجم قادری فیضی 

چیف ایڈیٹر:ماہنامہ جام میر بلگرام شریف

ہندوستان 15 اگست 1947ء/ کو انگریزوں کی غلامی کے چنگل سے آزادہوا، اس آزادی کے حصول کی خاطر معاشرے کے سبھی طبقوں نے اپنا اہم کردار پوری ایمانداری، زمہ داری اور دیانت داری کے ساتھ اداکیا،آزادی کی اس تحریک میں اپنے ہم وطن کے ساتھ مل کر مسلمانان ہند اور ان کی قیادت نے بھی اپنی قومی فرائض کو بخوبی و احسن طریقے سے انجام دیا، اور حصول آزادی کے اس خار دار سفر میں کسی بھی تکلیف اور قربانی سے دریغ نہیں کیا، آزادی حاصل ہونے کے بعد ملک کی قیادت نے ایک ایسے قانون کی تیاری کا آغاز کیا کہ جس کی رو سے تمام ہندوستانی شہری، چاہے ان کا تعلق اکثریتی طبقے سے ہو یا اقلیتی طبقے سے سب کو مساوی حقوق دیئے جائیں گے، اور ملک میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے گا جس کی بنیاد ، محبت، اخوت، بھائی چارگی، مساوات، اور جمہوریت، سیکولرزم نیز برابری کے احساس پر رکھی جائیں گی، ہر طبقے کی عزت وآبرو، جان ومال، عقائد. اخلاقیات اقتصادیات تہذیب وتمدن اور تاریخی اساس کو مکمل تحفظ ہی نہ فراہم کیا جائے گا بلکہ واضح طور پر ضمانتوں کے ساتھ ان کو مزید ترقی کرنے پھلنے پھولنے کے مواقعوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے بھی آئینی تحفظات سے لیس کئے جائیں گے، چنانچہ بلکل ایسا ہی ایک آئین تیار کیا گیا جوکہ 26 جنوری 1950ء/کو نافذ العمل بھی ہوگیا۔

 

 

مسلمانان ہند کو اس بات سے مکمل اطمینان حاصل تھا کہ آئین ہند نے ہندوستان کے دوسرے شہریوں تمام طبقات کی طرح ان کو بھی مساوی دیئے اور ضروری آئینی تحفظات بھی فراہم کئے کہ جن کی رو سے ان کو مکمل طور سے مذہبی آزادی حاصل ہوئی، مسلم پرسنل لاء کے معاملے میں عدم مداخلت کی واضح ضمانتیں دی گئیں اور اپنے تعلیمی سماجی ثقافتی ادارے قائم کرنے کے لئے بھی ضروری تحفظات ومراعات کو آئین ہند کا حصہ بنایاگیا۔

 

 

وقف اور حج معاملات کے سلسلے میں بھی وقف ایکٹ اور مرکزی وصوبائی سطح پر حج کمیٹیاں قائم کرکے مسلمانان ہند کے مذہبی جذبات کا قابل تعریف احترام کیاگیا ،الغرض زندگی کے ہر شعبے میں ہی تحفظات کا مکمل جال پھیلایا گیا، یہ تمام تر صورت حال حوصلہ افزا بھی اور خوش آئند بھی، مگر یہ تصویر کاپہلارخ ہے۔

 

 

دوسری رخ کو ایمانداری زمہ داری،کے ساتھ دیکھیں، پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں،یہ بھی ایک ناقابل تردید بات ہے کہ کسی بھی ملک کا آئین کتنا ہی مکمل ومفصل اور جامع کیوں نہ ہوجب تک قانون ساز ادارے انتظامیہ، عدلیہ وقومی مزاج اسکے ساتھ پوری طرح سے ہم آہنگ نہ ہوں تو ان مقاصد کا حصول مکمل نہیں ہوپاتا جن کی پاسبانی ترجمانی و پاسداری کی ضمانت اس میں دی جاتی ہے۔

 

 

جمہوریت ومسلمانان ہند جمہوری نظام کا مزاج کچھ اس طرح کا ہوتاہے کہ اس میں تعداد وشمار کی بنیاد پر سارے فیصلے کئے جاتے ہیں ،اور اس میں وہ گروپ زیادہ حاوی رہتاہے جس طرف ان اعداد وشمار کا جھکاؤ ہوتاہے، دوسرے لفظوں میں اکثریت معاملات اور فیصلہ سازی کے عمل پر حاوی ہوجاتی ہیں، اور اقلیتی طبقہ اسکے رحم وکرم پر جیتا اور مرتاہے، بعض اوقات یہ امکان بھی لگا رہتاہے کہ مسلمانان ہند کیوں کہ یہ ایک اقلیتی طبقہ ہے لہذا وہ بھی اس میں احاطہ کئے ہوئے ہے، ایسی صورت حال میں اسکے حقوق کی بازیابی کے لئے اور حصول کا دارومدار اسکے اکثریتی طبقے کے ساتھ تعلقات پر کہیں زیادہ ہے آئین اور آئینی تحفطات کے بہ نسبت، اکثریت ومسلمانان ہند عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ تعلقات کشیدہ نہیں ہیں مگر اس حقیقت سے انکار کرنا حقائق سے پِھرنے کے مترادف ہوگا کہ اکثریت اور مسلمانان ہند کے تعلقات میں بہت کچھ کڑواہٹ بھی ہے ایک دوسرے کی طرف کچھ شکوک وشبہات بھی ہیں اور اکثریتی طبقہ میں کچھ ایسے شرپسند عناصر موجود ہیں جو کہ آئے دن نت نئے انداز میں ملک کے اندر منافرت کے عروج کا باعث بنتے نظر آتے ہیں، جس سے کڑواہٹ میں مزید اضافہ ہوتا رہا ہے،

 

 

ہندومسلم فسادات، مسلم پرسنل لاء بورڈ، بابری مسجد منہدم، اور پھر بھومی پوجن، دہلی فسادات، اور ابھی جلد نوح، ہریانہ، منی پور فسادات، اردوزبان کا مسئلہ نیز اسکو نئی تعلیمی پالیسی سے الگ کرنا،، تاریخی حادثات کو توڑ مروڑ کر پیش کیاجانا اسلام کی منفی اور جارحانہ متشددانہ تصویر پیش کرنا، عام مسلمانوں کے بارے میں شکوک وشبہات اور دہشت گردانہ پر مبنی صرف نہیں رائے رکھنا بلکہ ان کو جاننا،کوروناوائرس کو ہندوستان میں پھیلانے کا ذمہ دار خاص ایک طبقے کو تسلیم کرنا، مسلمانوں کو دوئم درجے کی شہریت تسلیم کرنا، مسلم معاشرے کو ہندوستانی معاشرے سے الگ تھلگ کرنا، اور ان کو پاکستان بھیجنا،شان رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخیاں کرنا، اور ابھی جلد ہی ایک اور قانون آیاہے کہ جس کے پاس دو سے زیادہ بچے ہوں گے اس کو حکومت کی طرف سے ملنے والے تمام مراعات، فوائد، اور اسکیموں سے دور کردیاجائے گا، اور اسی طرح کی دیگرچیزوں کی غلط تصویر پیش کرنا، اور عام کرنا، کچھ ایسے معاملات ہیں جن کو فرقہ پرست طاقتیں جماعتیں وقتاً فوقتاً ہَوا دیتے رہتے ہیں، جسکے اثر سے بعض دفعہ ہمارے ذمہ داران ارباب حکومت افسران، ملازم بھی محفوظ نہیں رہ پاتے اور یہ زہر پھیلتا ہی جا رہا ہے

 

 

بدقسمتی سے یہ منافرت کا زہر اِس وقت اپنے پورے شباب پر ہے، آزادی کے بعد تقسیم ہند کو لے کر اور بعد میں اسکے اثرات کو لے کر اور پھر مذکور کئے گئے مسائل ونکات کو لے کر یہ کڑواہٹ متعصبانہ رویوں کو جنم بھی دیتی رہی ہے اور بڑھاوابھی، اس طرح کے رویوں کو پروان چڑھانے میں جہاں ہندوفرقہ پرست عناصر شامل ہے وہیں مسلمانان ہند ایسے رویوں کو پروان چڑھانے میں کوئی رول دخل ادا نہیں کرتا، ہاں کچھ ہمارے سماج میں بھی ایسے عناصر پائے جاتے ہیں. جو کہ چند ناقابل معافی، نادانیاں اور غلطیاں جوش وجذبے میں غرق ہوکر کر گزرتے ہیں جس کی بنیاد پر ایک طرف تو اکثریتی فرقہ پرستی کا بڑھاوا ملتاہے اور دوسری جانب بڑھتی ہوئی اکثریتی فرقہ پرستی کو ضروری غذا اور مواد بھی مل جاتاہے لہذا اس کڑواہٹ اور آلودگی کے افیکٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانان ہند اور ان کی لولی لنگڑی قیادت کو اپنے فیصلے کرنے پڑیں گے، ایسا قومِ مسلم کی بھلائی کے لئے ضروری تو ہے ہی مجموعی قومی مفاد کا تقاضہ بھی یہی ہے

 

 

قارئین کرام – یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانان ہند کے پاس بظاہر قائدین کی کمی ہے اور نہ ہی تنظیموں، کمیٹیوں، رفاہی فلاح وبہبود اداروں کی کمی ہے اور نہ ہی ایسی شخصیات کی جن کا موضوعِ بحث ملت اسلامیہ کی بد سے بد تر ہوتی ہوئی صورت حال، اور نہ ہی ایسے حضرات کی کمی ہے جو کہ اس خطرناک اور افسوسناک صورت حال کے سدباب کے لئے آرزومند ہیں، تاہم ان سب کے باجود بھی آج مسلم معاشرے کی گروپ بندی، آپسی منافرت، ذہنی انتشار، آپسی مسلکی اختلافات، نفسیاتی اضطراب، مزید انکے علاوہ بھی ایسے ہی دیگر امراض و لعنتوں میں مبتلا بھی ہے اور ان کا شکار بھی ہے میں یہاں مسلم قائدین ورہنما، تنظیموں، جماعتوں کا احتساب، کرنے یا ان پر تنقید کرنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس غرض سے ان کو اپنا موضوع بحث بنا رہا ہوں کہ کہ میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے آگے بڑھنا پسند کروں گا

 

 

جب یہ تمام جماعتیں یہ تمام تنظیمیں، کمیٹیاں، اپنے اپنے پروگراموں کو اپنی حیثیت کے مطابق چلا رہے ہیں مگر قومی ملی مسائل، اجتماعیت، ومشاورت دونوں کا تقاضہ کرتاہے، مگر افسوس صدافسوس! آج اس امر کا ایسا کوئی نظام آج تک ہمارے مابین موجود نہیں ہے اسی وجہ سے ہم ایک ایسے معاشرے کی شکل میں اُبھر رہے ہیں جو کہ سب سے زیادہ اجتماعیت، اتفاق رائے، باہمی مشورے، افہام وتفہیم کا درس، دینے والا تو ہے مگر اس پر عمل کرنے والا یا کروانے والا کوئی نہیں ،مسلم معاشرہ صرف ایک ووٹ بینک بن کر رہ گیا ہے جنکے مزاج کی شکل کچھ اس طرح کی ہے وہ کسی ایک جذباتی مسئلے کو لےکر ایک فریق سے ناراض، اور دوسرے سے بغیر کسی واضح مثبت پہل کے ہی اپنے آپ کو اس کے ہاتھوں میں محض اس کے مفاد کے لئے استعمال ہونے کے لئے چھوڑ دیتاہے،

 

 

یہی وجہ ہے کہ دوسرے فریق سے اسی مایوسی کا تجربہ ہوتاہے جوکہ پہلے سے ہوا تھا، اب صورت حال یہاں آ پہنچتی ہے کہ محض انتشار ہی انتشار ہے، غلط فہمیاں ہی غلط فہمیاں ہیں اور ہم ایک ایسے معاشرہ کی شکل اختیار کرچکے ہیں کہ جس میں کوئی ایسا نظام مشاورت نہیں جو کہ ملی مسائل اور قومی مفادات کی ترجمانی وپاسبانی کے فرائض کو بہترین طریقے سے انجام دے سکے، اور قوم میں مشروط حمایت و مخالفت کا شعور پیداکرسکے،

متعلقہ خبریں

Back to top button