مضامین

اللہ کے احکام رسولؐ کے فرامین کے آگے پیش قدمی نہ کرو

الٰہی و نبویؐ تعلیمات کے تابع بن کر رہنا اہل ایمان کی شان ہے

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر صحافی و کالم نگار۔ حیدرآباد
فون نمبر: 9849099228
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
سورۃ الحجرات کی آیت کی ترجمانی:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مومن تو فقط احکام الٰہی کا پابند ہوتا ہے، ایمان کے شرائط میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایمان والے پورے طور پر اسلام میں داخل ہوجائیں۔ اس شخص کا ایمان ادھورا یا نامکمل ہے کہ وہ کچھ باتوں پر عمل کرے اور کچھ اعمال سے دور ہوجائے یا چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی تربیت کا سامان کرتے ہوئے حسب موقع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک و مطہرہ پر اپنے احکامات کو نازل فرماتا رہا جنہوں نے نبیؐ کے دست حق پر ایمان قبول کرلیا اور یہ وہ احکامات ہیں ہر شخص کے لئے جو اپنے کو مسلمان کہتا ہو یا ابھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا ہو۔
لہٰذا آیت مذکورہ بالا میں مسلمانوں، ایمان والوں کو تعلیم دی جارہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے آگے نہ بڑھو اور ایک اہم نصیحت و یاددہانی یہ کروائی جارہی ہے کہ اللہ سے ڈرو، بیشک وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
یعنی اہل ایمان پر لازم ہے کہ اللہ و رسولؐ کے آگے مطلق ذرہ بھر بھی اور قطعی طور پر قولی و عملی کسی بھی طرح کی تقدیم واقع نہ ہو، نہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالو جو الٰہی و نبویؐ تعلیمات کے خلاف ہو اور نہ ہی کسی بھی عمل میں چاہے یہ دنیوی کامیابی سے تعلق رکھتا ہو یا اخروی کامرانی و سرخروئی سے متعلق ہو، کسی بھی معاملہ میں اپنی من چاہی نہ چلے بلکہ ہر موقع پر رب تعالیٰ کی مرضی فرمان نبویؐ کے تابع زندگی چلے۔
اور یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسلمان احکام الٰہی کا پابند ہوتا ہے۔ لہٰذا دین کے احکامات اور اس کے متعلقات و حکمت عملیاں اور اس کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے سے کوئی کام نہ کریں، بلکہ شریعت اسلامی کیا حکم دیتی ہے اس پر عمل اہل ایمان غور کریں اور عامل رہیں۔ اگر کوئی شخص اس کے برخلاف کام کرتا ہے، وہ اول تو اللہ تبارک و تعالیٰ کا احترام اور اس کی نیازمندی سے محروم ہوتا ہے، دوسری جانب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمائے گئے رسولؐ کے احترام سے اس کی زندگی خالی ہوجاتی ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو نبیؐ کی پیروی لازمی ہے۔ اس آیت کریمہ کا جو شان نزول ہے اس پر بھی ہماری نگاہ ہونی چاہیے، کیونکہ قرآن کے اسباق کو سمجھنے میں یہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔
 اس طرح قارئین کی خدمت میں مختلف تفاسیر سے اس کے شان نزول پیش کیے جاتے ہیں، بعض وقت کسی آیت کا یا کچھ آیت کا شان نزول ایک ہی ہوتا ہے اور بعض وقت کئی واقعات سبب نزول بن جاتے ہیں۔
چند شخصوں نے عید الاضحی کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، بعضے لوگ رمضان سے ایک روز پہلے روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے تقدم نہ کرو (از مولوی محمد نعیم الدین صاحب صدر الافاضل مرادآبادیؒ۔ کنزالایمان: 45)
سورۃ الحجرات میں کل 18 آیات آئی ہیں، ان میں پانچ آیات کا تعلق راست طور پر مسلمانوں کا نام لے کر ’’یاایہا الذین آمنوا‘‘ بہت ہی اہم ہدایات دی گئی ہیں، گویا کہ پوری سورہ میں پائو حصہ پر اہل ایمان کا بار بار نام لے کر ان کی تربیت کا سامان کیا گیا، کیونکہ یہ سورہ مدنی ہے اور اس وقت اسلام کو دن بہ دن فروغ حاصل ہورہا تھا اور لوگ بڑی تیزی کے ساتھ اسلام میں داخل ہورہے تھے، ایسے موقع پر ان نئے نئے مسلمانوں کی تربیت کے پیش نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پوری سورہ میں آداب اسلامی کے حصول کا بہترین سامان فرمادیا جو رہتی دنیا تک پوری نوع انسانی کے لئے بالعموم اور خاص طور پر اہل ایمان کے لئے تو اس میں ایسے لاقیمت خزانے رکھ دئیے گئے ہیں، جسے حاصل کرکے دنیا کا امن و سکون اور آخرت کی شادمانیاں خوشیاں و رنگ برنگی ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی حاصل کرسکتا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نور اللہ مرقدہ نے سورۃ الحجرات کے نزول کے بارے میں بہت ہی دلنشین انداز میں بات رکھی ہے، وہ یوں رقم طراز ہوئے۔
(۱)خطاب اگرچہ عام مسلمانوں سے ہے لیکن جن لوگوں کا رویہ اس سورہ میں زیر بحث آیا ہے وہ جیسا کہ آگے کی آیات سے بالتدریج واضح ہوتا جائے گا، اطراف مدینہ کے بدوی قبائل کے وہ لوگ ہیں جو اسلام کی ابھرتی طاقت سے متاثر ہوکر مسلمانوں میں شامل تو ہوگئے تھے لیکن ابھی ایمان ان کے دلوں میں اچھی طرح رچا بسا نہیں تھا۔
(۲) یہ امر واضح رہے کہ یہاں ممانعت اللہ کے رسولؐ کے سامنے اپنی رائے پیش کرنے میں پہل کرنے یا اپنی رائے کو اللہ اور رسولؐ کے حکم پر مقدم کرنے کی ہے، نہ کہ رسولؐ کے سامنے مجرد اپنی کوئی رائے پیش کرنے کی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم امور مصلحت میں صحابہؓ سے ان کی رائیں معلوم بھی فرماتے اور صحابہؓ اپنی رائے پیش بھی کرتے۔ اسی طرح صحابہؓ بعض اوقات عام امور مصلحت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بھی عرض کرتے کہ اگر حضورؐ کا فلاں اقدام وحی الٰہی پر مبنی نہ ہو تو اس میں فلاں تدبیر زیادہ قرین مصلحت رہے گی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات ان کی رائیں قبول بھی فرما لیتے۔ (تدبر قرآن جلد 7، صفحہ 486 تا 487 سے اقتباسات)
{حاصل کلام:}
اس آیت کریمہ میں ان مسلمانوں کو تعلیم دی جارہی ہے جو ابھی آپؐ سے پوری طرح فیض یاب نہیں ہوسکے تھے۔ اب ان کو تربیت کی جارہے کہ دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی عام آدمی نہیں ہیں، یا مجرد ایک دنیا کے کسی قائد کی طرح ہیں، خبردار ہوجائو اور اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو اپنے آپ کو بہت مدبر خیال کرکے بغیر اس کے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کسی معاملہ میں اس کی رائے دریافت کریں، حضورؐ کو اپنی رائے سے متاثر کرنے اور اپنی بات کو نبی کی بات پر مقدم کرنے کی کوشش ہرگز نہ کرنا، کیونکہ اللہ پر ایمان لانے کا یہ اولین اور بنیادی لازمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی و رہنما تسلیم کرنے کے بعد ایک مسلمان کا یہ سچا عقیدہ ہونا ہی ہے کہ جو کچھ بھی اپنی ذاتی رائے ہو وہ سب چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر مقدم نہیں ہوسکتے، حقیقت یہ ہے کہ جب آدمی یہ اعلان کردے کہ میں مسلمان ہوں تو اس پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ اپنی خواہش اس کی مرضی اور مصلحت سب کچھ خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول کریم کے حکم پر بغیر کسی تامل قربان کردے۔ علامہ اقبالؒ نے بہت خوب کہا ہے کہ جو محمدؐ کی اطاعت کرے گا وہ اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں لکھے گے، شرط یہ لگائی کہ محمدؐ سے وفا کی جائے، آپ کے حکم کو مانا جائے اور اپنی تمام مرضیات کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے تابع فرمان بنا دے۔
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
٭٭٭

متعلقہ خبریں

Back to top button