مضامین

میں کھٹکتا ہوں دل شیطاں میں کانٹے کی طرح

مدارس پر شک کرنے والوں کو مدارس کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے


ڈاکٹر سراج الدین ندویؔؔ
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور
9897334419
آج میں تمہیں کھٹکتا ہوں،کل تک میں تمہاری آنکھ کا تارا تھا۔جن مہاپرشوں پر تم فخر کرتے ہووہ میرے آنگن میں پڑھ لکھ کر بڑے بنے تھے،ان میں چاہے راجا رام موہن رائے ہوں یا مدن موہن مالویہ ہوں،یا مہاتما گاندھی،میں نے ہی انھیں آدرش وادی بنایا تھا،آج بھی اپنے بزرگوں سے پوچھ لو ابھی تو ان میں سے کچھ زندہ ہیں،جنھوں نے مجھے آزادی کی شام تک دیکھاتھا۔آج تمہیں میرے نام سے ہی نفرت ہوگئی ہے۔حالانکہ میرانام مدرسہ ہے تواس میں کیا برائی ہے،میں عربی زبان کا لفظ ہوں،اردو میں بھی میرا یہی نام ہے،فارسی والے درس گاہ کہہ دیتے ہیں،جسے تم ہندی میں پاٹھ شالا اور انگریزی میں اسکول کہتے ہو،میں وہی تو ہوں۔لیکن اب تمہیں اردو نام والوں سے خدا واسطے کا بیر ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔تم شہروں کے نام بدل رہے ہو،چوراہوں کے نام بدل رہے ہو،کچھ دن اور رہے تو انسانوں کے نام بھی بدلوگے،عبداللہ کو ایشور داس کردو گے؟تم نام بدلنے کے علاوہ کربھی کیا کرسکتے ہو؟میں وہی مدرسہ ہوں جس نے انگریزوں کے خلاف پہلی آواز اٹھائی تھی،وہ میرے ہی جیالے تھے جنھوں نے پھانسی کے پھندوں کو خوشی خوشی چوما،سینوں پر گولیاں کھائیں،کالے پانی کی سزا بھگتی۔ذرا اپنے ملک کی آزادی کی تحریک اٹھا کر دیکھ لو،پھر تمہیں سمجھ میں آجائے گا کہ میں نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔مجھ پر انگریزوں نے بھی توپ کے گولے برسائے تھے،وہ غیر تھے،وہ دشمن تھے،ان سے مجھے کوئی شکوہ نہیں تھا۔لیکن تم تو اپنے ہوکر بلڈوزر چلا رہے ہو۔صرف اس لیے کہ میں مدرسہ ہوں۔
تم مجھ پر شک کرتے ہو کہ میں اپنے بچوں کو دہشت گردی اور نفرت کی تعلیم دیتا ہوں۔کاش تم میری زبان سمجھتے تو کبھی بدگمان نہ ہوتے۔تمہیں معلوم ہے میرے یہاں ہر آنے والے کی زبان پر سب سے زیادہ کونسا جملہ رہتا ہے۔وہ جملہ ”السلام علیکم“ ہے۔آج کل تم اس جملے پر بھی ناک بھوں چڑھانے لگے ہو۔اس کا مطلب ہے،تم سلامت رہو،خوش رہو،خدا تم پر اپنی رحمتیں نازل کرے،میرادین اسلام ہے،جس کا مادہ ہی س ل م ہے،جس کا مطلب ہی سراپا سلامتی ہے۔۔جس جگہ تعلیم کا آغاز ہی سلامتی کی دعا سے ہوتا ہو،جہاں ابتدا رحمان و رحیم کے نام سے ہوتی ہو،وہاں تم سوچتے ہو فتنہ و فساد کی تعلیم دی جاتی ہے۔کبھی تمہیں توفیق ہوئی ہے کہ تم میرا نصاب تعلیم دیکھتے۔جس نے بھی دیکھا ہے یہی گواہی دی ہے کہ مدرسے میں کوئی دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی،میرا دعویٰ ہے کہ تم بھی تحقیق کرلو،تم بھی اسی نتیجے پر پہنچو گے،لیکن یہ تحقیق عداوت اور تعصب پر مبنی نہ ہو۔
میرے طلبہ کی سادگی،ان کی محنت اور جفا کشی دیکھوگے تو دنگ رہ جاؤگے۔تم حیرت کرتے ہو کہ میں پانچ ہزار اور چھ ہزار بچوں کو تینوں وقت کس طرح کھلاتا ہوں،کھلانے والی ذات اللہ کی ہے۔میری پرشکوہ عمارت دیکھ کر تمہاری آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں،میرا خرچ دیکھ کر تم پاگل ہوجاتے ہواور سوچتے ہو کہ سرکار کی مدد کے بغیر یہ بڑا نظام تعلیم کیسے چل رہا ہے؟ارے میاں،میرے چاہنے اور ماننے والے اپنی خون پسینے کی کمائی لگاتے ہیں۔ہر سال زکاۃ کا بڑا حصہ مجھے دیتے ہیں،بے چارے اساتذہ کم تنخواہوں پر کام کرتے ہیں،اپنی تنخواہوں اور بچوں کی کفالت کے لیے رمضان میں گھر گھر جاکر چندہ کرتے ہیں۔تمہیں ان پر ترس نہیں آتا،تم تو ان کا مذاق بناتے ہو،موقع مل جائے تو لنچنگ کرتے ہو۔میرے بچے دال روٹی پر بھی الحمد للہ کہتے ہیں۔کہیں کہیں تو میں ان کو ناشتہ بھی نہیں دیتا،بے چارے بھوکے ہی پڑھتے ہیں،کہیں کہیں میں ان کی پلیٹ میں صرف دوروٹی اور دوبوٹی ڈال دیتا ہوں،لیکن وہ کبھی شکایت نہیں کرتے۔
تمہیں شک ہے کہ میں نمبر دو کے پیسوں سے چلتا ہوں۔آؤ آکر دیکھ لو،میرے پاس ساری رسیدیں ہیں،جس سے پیسہ لیا ہے اس کا نام اور پتا بھی ہے،جہاں میں نے خر چ کیا ہے اس کے بل بھی میرے پاس ہیں۔ہاں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ میں نے زمانے کے ساتھ خود کو پوری طرح اپ ڈیٹ نہیں کیا ہے۔لیکن مجھے تم نے اتنی مہلت ہی کب دی ہے،میرے چلانے والے ہر سال کسی نہ کسی مسئلہ میں الجھائے جا تے رہے،کبھی فسادات ہوتے رہے،کبھی قدرتی آفات نے آگھیرا،پچھلے چالیس سال سے تو تم نے ہی ناک میں دم کررکھا ہے۔پہلے رام مندر بنام بابری مسجد کا جھگڑا پھیلایا،پھر طلاق کا ایشو کھڑا کردیا،کبھی بھینس کے گوشت کو بھی گائے کا قرار دے کر ماردیا۔کبھی ماب لنچنگ کرنے لگے،ارے تم ذرا مجھے ہوش تو لینے دیتے،پھر دیکھتے کہ میں خود کو کس طرح اپ ڈیٹ کرتا ہوں،اس کے باوجود اکثر جگہ پر میری کمیٹیاں رجسٹر ڈ ہوچکی ہیں۔سرکار سے منظوری بھی لے لی ہے۔حسابات بھی آڈٹ ہونے لگے ہیں۔
سرکار کو کیا حق ہے کہ میری جانچ کرائے،میں آئین کی دفعہ 29اور30کے تحت قائم ہوں۔مجھے اپنے ماننے والوں کی تعلیم کا حق حاصل ہے،میرا تعلق اقلیت سے ہے،مجھے آئین سازوں نے آئینی تحفظ فراہم کیا ہے۔اس میں صاف صاف لکھا ہے کہ اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں۔پھر تمہیں کیا حق ہے کہ میرا سروے کرو۔اگر تمہاری نیت ٹھیک ہے تو پھر سب کا سروے کرو۔میرے علاوہ اور بھی اقلیتیں ہیں جو اپنے ادارے چلاتی ہیں۔خود اکثریت بھی سرکار کے متوازی اپنا تعلیمی نظام چلاتی ہے۔اکثریت کی پاٹھ شالاؤں میں جنھیں تم ودھیا کے مندر کہتے ہو،تاریخ کو توڑ مروڑ کر پڑھایا جاتا ہے۔میں نے سنا ہے کہ وہاں تو ہتھیار چلانا بھی سکھایا جاتا ہے۔دیکھو ایشور نے تمہیں راج گدی دی ہے تو اس کا سمان بھی کرو اور انصاف بھی کرو۔جو راجا اپنی پرجا کے ساتھ انصاف نہیں کرتا اس کا راج پاٹ جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔یہ دنیا ہے یہاں کسی کو دوام نہیں۔تم سے پہلے میرا راج تھا۔آج تمہارا ہے۔کل کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے۔تم سرکار میں ہو،تم میرے بارے میں جو جاننا چاہو جانو،لیکن مجھے ڈراؤ نہیں،ورنہ میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔میں کوئی غیر قانونی دھندا نہیں کرتا۔غریب اور معصوم بچوں کو شکشا دیتا ہوں۔شکشاکے ساتھ دکشا بھی دیتا ہوں۔میں ان میں اچھے اخلاق پیدا کرتا ہوں۔میں انھیں انسانیت کی خدمت کرنے،ملک کی سیوا کرنے،امن قائم رکھنے اور ہر حال میں انصاف پر قائم رہنے کی تعلیم دیتا ہوں۔یہ اخلاقی تربیت اب تمہارے سرکاری اسکولوں میں ختم ہوگئی ہے۔تم چاہتے ہو کہ اخلاقی تعلیم کا یہ دیا میرے یہاں بھی بجھ جائے۔
میں اپنے منتظمین سے بھی کہوں گا کہ وہ سرکار کے آدیشوں سے ڈریں نہیں،ضرورت پڑے تو سپریم کورٹ تک جائیں،ہر مدرسے میں آئین کی کاپی رکھ دی جائے،سارے مدرسوں کا ریکارڈ درست کرلیا جائے۔حسابات آڈٹ کرالیے جائیں۔آپسی اختلافات کو ختم کرلیا جائے،کمیٹیاں شورائی نظام کے ساتھ کام کریں۔سب کے لیے میرے دروازے کھلے رکھے جائیں۔میرے بچوں کو زمانے سے باخبر رکھنے کے لیے جدید تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سکھائی جائے۔اساتذہ کو جدید طریقہ تعلیم کے گر سکھائے جائیں تاکہ وہ نئی نسل کو مزید بہتر انداز میں تعلیم دے سکیں۔رجسٹریشن کی ضرورت ہو تو کرالیا جائے۔ایک علاقے کے سارے مدارس مل کر ایک قانونی کمیٹی بنالیں اور اچھے وکیلوں کی خدمات حاصل کرلیں۔کسی میڈیا والے کو منھ نہ لگائیں،کوئی خود کو میڈیا کا فرد بتائے تو پہلے اس کی آئی ڈی دیکھ لیں۔یہ بھی چیک کرلیں کہ اس کی آئی ڈی فرضی تو نہیں۔ہر کوئی میڈیا سے بات نہ کرے،یہ بڑے چالاک ہوتے ہیں،گھماپھراکر سوال پوچھتے ہیں،پھر بات کا بتنگڑ بناتے ہیں،آپ میڈیا کے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے مجبور نہیں ہیں۔آپ میں سے صرف ذمہ د ار شخص ہی ان کے سوالوں کا جواب دے۔بچے اور اساتذہ دور ہی رہیں تو اچھا ہے۔یاد رکھنامیری جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک ہیں،مجھے سفید آندھیاں نہیں ڈراپائیں تو ان کالی آندھیوں سے کیا ڈروں گا،میں مٹنے والا نہیں ہوں۔میرا سرچشمہ صفہ نبوی ہے،جب تک صفہ نبوی قائم کرنے والے کا نام باقی ہے تب تک مجھے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا

مضمون نگار ماہنامہ اچھا ساتھی کے مدیر،ماہر تعلیم،نصف درجن تعلیمی اداروں کے چیرمین اور سیکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button