جنرل نیوز

وطن سے محبت – اسلامی نقطۂ نظر سے

 

 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 

ہندوستانی مسلمانوں پر جو بہت سے الزامات عائد کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انھیں اپنے وطن سے محبت نہیں ہے ۔ وہ یہاں کی دھرتی سے کوئی لگاؤ نہیں رکھتے ۔ اپنے ہم وطنوں سے رشتہ جوڑنے کے بجاۓ وہ عرب کے لوگوں سے اپنا انتساب کرنے پر فخر کرتے ہیں ۔ اہل وطن کی خدمت کا ان میں کوئی جذبہ نہیں پایا جاتا _ طرفہ تماشا یہ کہ یہ الزامات ان لوگوں کی جانب سے لگائے جاتے ہیں جن کی بارہا وطن سے غداری کے پختہ شواہد موجود ہیں ، جنھوں نے اپنے مفادات کو ہمیشہ وطن کے مفادات پر ترجیح دی ہے ، جو بےشمار گھوٹالوں میں ملوّث رہے ہیں اور جن کے متعدد اسکینڈلس کی تصویریں کیمرہ کی آنکھ نے محفوظ کرلی ہیں ۔ اور ان الزامات کا نشانہ ان لوگوں کو بنایا جاتا ہے جن کی وطن سے محبت کے انمٹ نقوش یہاں کی دھرتی کے چپّے چپّے پر موجود ہیں ، جن کی ملک سے وفاداری ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے ، جن کے فنِ تعمیر کے شاہ کار نمونوں کے بغیر ملک کی تمدّنی تاریخ ادھوری ہے اور جن کی آزادئ وطن کے لیے بے مثال قربانیوں پر ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں ۔

 

اس وقت جوابی الزام کے طور پر الزام لگانے والوں کی غداریوں کوطشت از بام کرنے کی ضرورت ہے ، نہ مسلمانوں کی وفاداری اور وطن سے محبت و خدمت کے تاریخی شواہد پیش کرنے کا موقع ۔ اس وقت اس موضوع پر کچھ اظہارِ خیال کرنا مقصود ہے کہ وطن سے محبت کو اسلام کس نظر سے دیکھتا ہے؟ اور اہل وطن کی خدمت اور خیر خواہی کو اس کے نزدیک کیا مقام حاصل ہے؟

 

*وطن سے محبت فطری ہے _*

 

ہر انسان کے دل میں فطری طور پر اپنے وطن سے محبت پائی جاتی ہے ۔ وہیں وہ پیدا ہوتا ہے ، اپنی عمر کے مختلف مراحل طے کرتا ہے ، وہاں اس کے ماں باپ ، اہلِ خاندان ، دوست احباب ہوتے ہیں ، وہاں سے اس کی زندگی کی خوش گوار یادیں وابستہ ہوتی ہیں ، اس کے گلی کوچے ، کھیت کھلیان ، میدان ، بازار ، اس کے کھیل کود ، شرارتوں کے امین ہوتے ہیں ۔ اسے وطن کی ایک ایک چیز سے لگاؤ اور اپنائیت ہوتی ہے ۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ ہر چیز اس کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے ۔ اسلام اس محبت کی قدر کرتا ہے اور اس کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگاتا ، اس لیے کہ وطن سے محبت فطری اور ہر انسان کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوۓ ہے اور اسلام دینِ فطرت ہے ۔ اسی فطری محبت کی وجہ سے کوئی شخص بہ رضا ورغبت وطن سے جدائی گوارا نہیں کرتا ۔ ملازمت ، کاروباری مصروفیات یا دیگر دنیاوی اور دینی مقاصد ہوتے ہیں ، جن کی وجہ سے انسان دل پر جبر کرکے وطن سے دوری اختیار کرتا ہے ، لیکن اس کے دل میں اس کی محبت ہر وقت تازہ رہتی ہے ۔ اس کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ کاش اس کے پَر لگ جائیں اور وہ اڑ کر اپنے وطن جا پہنچے ۔

غربت میں ہوں اگر ہم ، رہتا ہے دل وطن میں

سمجھو وہیں ہمیں بھی ، دل ہو جہاں ہمارا

 

مشرکینِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کا مکہ میں جینا دوبھر کر دیا تو اذنِ الٰہی سے مدینہ ہجرت ہوئی ۔ مکہ چھوڑتے وقت اصحابِ رسول کے دلوں کی کیا کیفیت رہی ہوگی ، اس کا ہم سب بہ خوبی اندازہ کرسکتے ہیں _ رسول اللہ ﷺ کی اندرونی کیفیات بھی ان سے کچھ مختلف نہ تھیں ۔ روایات میں آتا ہے کہ مکہ سے نکلتے وقت آپ حزورہ (مکہ کا ایک بازار) کے مقام پر کھڑے ہوۓ اور انتہائی رقّت آمیز لہجے میں فرمایا :

ما أطيبك من بلدٍ و أحبّك إلىّ و لولا أن قومي أخرجوني منك ما سكنت غيرك (ترمذی : 3925 ، ابن ماجہ : 3108)

”تو سب سے زیادہ پاکیزہ شہر ہے اور مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ اگر میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں کبھی تجھے چھوڑ کر کہیں اور نہ جاتا ۔”

 

*گھر سے بےگھر کرنا جرم ہے _*

 

اسلام کی نظر میں کسی کو اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور کرنا اور گھر سے بےگھر کرنا جائز نہیں ۔ قرآن کریم بنی اسرائیل کو اس میثاقِ الٰہی کی یاد دلاتا ہے جس میں ایک دوسرے کا خون بہانا اور ایک دوسرے کو گھر سے بےگھر کرنا جرم قرار دیا گیا تھا ۔ ساتھ ہی یہ بھی صراحت کرتا ہے کہ انھوں نے اس میثاق کی خلاف ورزی کی اور حقیر دنیاوی مفادات کے لیے اپنے بھائیوں کی جان کے در پے ہوۓ اور انھیں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا :

وإذ أخذنا ميثاقكم لا تسفكون دماءكم ولا تخرجون أنفسكم من دياركم ثم أقررتم و انتم تشاهدون ، ثم انتم هؤلاء تقتلون انفسكم وتخرجون فريقا منكم من ديارهم تظهرون عليهم بالإثم والعدوان وان يأتوكم أسرى تفادوهم وهو محرّم عليكم اخراجهم (البقرۃ: 84 – 85)

” پھر ذرا یاد کرو ، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بےگھر کرنا _ تم نے اس کا اقرار کیا تھا ، تم خود اس پر گواہ ہو _ مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو ، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بےخانماں کر دیتے ہو ، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتّھے بندیاں کرتے ہو اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوۓ تمھارے پاس آتے ہیں تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو ، حالاں کہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا ۔ ‘‘

 

اسلام اس فعل کو اتنا شنیع اور قابلِ نفریں قرار دیتا ہے کہ جو لوگ اس کا ارتکاب کریں ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت دیتا اور ان سے گہرے دوستانہ تعلقات رکھنے سے روکتا ہے : أذن للذين يُقاتَلون بأنهم ظُلموا وإن الله على نصرهم لقدير ، الذين أخرِجُوا من ديارهم بغير حق الا أن يقولوا ربنا الله (الج:39 – 40)

"اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے ، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے : ہمارا رب اللہ ہے ۔”

لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين و لم يخرجوكم من دیاركم أن تبروّهم وتقسطوا إليهم ، إن الله يحب المقسطين ، إنما ينهاكم الله عن الذين قاتلوكم في الدين و اخرجوکم من دياركم و ظاهروا على إخراجكم أن تولّوهم ، ومن يتولّهم فأولئك هم الظالمون (الممتحنۃ : 8-9)

’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے ، اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے ۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں ۔”

 

یہاں اسلام کے فلسفۂ قتال و جہاد کی تفصیل کا موقع نہیں ہے ۔ بس اتنی وضاحت کافی ہے کہ ان آیات میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ محض دین کی بنیاد پر تمھیں ظلم وستم کا نشانہ بنا رہے ہیں اور جنھوں نے تمھیں بے خانماں کیا ہے ان سے تم بھی جنگ کر سکتے ہو ۔ ان سے دوستانہ تعلقات نہ رکھو ۔ اس لیے کہ وہ تمھارے دشمن ہیں ۔ البتہ جو لوگ ان کاموں میں شریک نہ رہے ہوں ان سے خوش گوار ساجی تعلقات رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ خواہ وہ کسی مذہب والے کیوں نہ ہوں ۔

 

*ایمان کی حفاظت وطن سے محبت پر مقدم*

 

وطن کی اہمیت تسلیم کرنے اور حبِّ وطن کے جذبے کی قدر کرنے کے ساتھ اسلام ایک دوسری حقیقت کو بھی ملحوظ رکھتا ہے ۔ وہ ایمان کی حفاظت کو اس سے اہم قرار دیتا ہے ۔ اگر کبھی ایسے حالات پیش آجائیں کہ وطن میں رہ کر ایمان پر قائم رہ پانا ممکن نہ ہو تو ایسے موقع پر وہ وطن کی محبت قربان کر دینے کا حکم دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے ۔ ایسے مظلومین کہیں اور جابسیں ، لیکن اپنے ایمان کا سودا نہ کریں ۔ ایسے لوگوں کے لیے وہ اس دنیا میں بھی اچھے بدلے کا وعدہ کرتا ہے اور دوسری دنیا میں بھی اللہ تعالی کے اجر و انعام کی بشارت دیتا ہے ۔ اس موضوع پر قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں ۔ چند آیات ملاحظہ ہوں : فالذين هاجروا وأخرجوا من ديارهم و أوذوا في سبيلي و قاتلوا و قُتِلوا لأكفّرنّ عنهم سئياتهم ولأدخلّنهم جناتٍ تجري من تحتها الأنهار ثواباً من عند الله والله عندها حسن الثواب ( آل عمران: 195)

” لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے ، ان کے سب قصور میں معاف کردوں گا اور انھیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ یہ ان کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے ۔”

والذين هاجروا في الله من بعد ما ظُلِموا لنبوئنّهم في الدنيا حسنة ولأجر الأخرة أكبر (النحل:110)

” بہ خلاف اس کے جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب ( ایمان لانے کی وجہ سے ) وہ ستاۓ گئے تو انھوں نے گھربار چھوڑ دیے ، ہجرت کی ، راہِ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبر سے کام لیا ، ان کے لیے یقیناً تیرا رب غفور رحیم ہے ۔”

 

جن لوگوں کے لیے وطن کی محبت زنجیرِ پا بنی رہے اور وہ کسی صورت میں وہاں سے نکلنے پر آمادہ نہ ہوں ، خواہ ان کا دین وایمان باقی رہے یا نہ رہے اور انھیں دینی شعائر و فرائض پر عمل کے مواقع حاصل رہیں یا نہ رہیں ، قرآن ان کے لیے زبردست وعید سنا تا ہے :

إن الذين توفّاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم قالوا کنّا مستضعفين في الأرض ، قالوا ألم تكن أرض الله واسعةً فتهاجروا فيها فأولئک مأواهم جهنم و ساءت مصيراً (النساء:97)

” جولوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کم زور و مجبور تھے ۔ فرشتوں نے کہا : کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے ۔”

 

اس سلسلے میں قرآن اصحابِ کہف کا نمونہ پیش کرتا ہے ، جنھوں نے وقت کی ظالم حکومت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور جب انھیں اس کے ماتحت اپنے عقیدۂ برحق پر عمل کے راستے مسدود نظر آۓ تو انھوں نے وطن پر غربت کو اور آبادی پر ویرانے کو ترجیح دی اور اپنے گھر اور خاندان کو خیر باد کہہ کر غار میں پناہ گزیں ہوئے ۔ صحابۂ کرام بھی ہمارے لیے نمونہ ہیں ، جنھوں نے محض ایمان کی خاطر اپنا وطن چھوڑا اور پہلے حبشہ ، پھر مدینہ ہجرت کی ۔

 

*وطنِ ثانی سے محبت*

 

دین و ایمان کے تقاضے سے اگر اہلِ ایمان کو ترکِ وطن پر مجبور ہوکر کسی دوسری جگہ پناہ لینی پڑے تو اسلام اس وطنِ ثانی سے بھی محبت کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب مدینہ ہجرت کی تو وہ بھی انھیں اتنا ہی محبوب ہو گیا جتنا مکہ تھا اور اس کی بھی ایک ایک چیز ان کے دلوں میں رچ بس گئی ۔ صحابۂ کرام جب مدینہ پہنچے تو انھیں ابتدا میں وہاں کی آب و ہوا راس نہیں آئی ۔ متعدد صحابہ مثلاً حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما بیمار پڑ گئے ۔ حضرت بلال نے بعض سردارانِ قریش کا نام لے کر بد دعا کی کہ اے اللہ ! تو انھیں اپنی رحمت سے دوٗر کر دے ، جس طرح انھوں نے ہمیں وطن سے نکال کر اس وبا زدہ علاقہ میں آنے پر مجبور کر دیا ۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع پہنچی تو آپ نے یہ دعا فرمائی :

اللهم حبّب إلينا المدينة کحبّنا مكة أو أشد (بخاری : 3925 ،مسلم : 1372)

” اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی ویسی ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ کی ہے! ، بلکہ اس سے زیادہ ۔“

 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ غزوۂ خیبر کی تفصیلات بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ فتح یاب ہوکر واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو جوں ہی جبل احد پر نظر پڑی ، رسول اللہﷺ نے فرمایا :

هذا جبل يحبّنا و نحبّہ (بخاری : 2889)

’’ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمیں بھی اس سے محبت ہے ۔‘‘

 

اسی طرح حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ غزوۂ تبوک کا حال بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ صحابہ کے ساتھ اس غزوہ سے مدینہ واپس ہوئے تو احد کے قریب پہنچ کر فرمایا :

هذہ طابة و هذا أحد يحبّنا ونحبّه (بخاری : 4422 : مسلم: 1392)

” یہ پا کیزہ شہر ہے اور یہ احد ہے ، اسے ہم سے محبت ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔”

 

آں حضرت ﷺ نے متعدد مواقع پر مدینہ اور اہلِ مدینہ کے لیے دعا کی :

اللهم اجعل بالمدينة ضعفی ما بمكة من البركة (بخاری : 1885، مسلم : 1369)

”اے اللہ ! مکہ میں جتنی برکت ہے اس کی دوگنی برکت مدینہ میں کر دے ۔“ اللهم بارك لنا في مدينتنا و في ثمارنا و في مُدّنا و في صاعنا بركةً مع برکۃٍ ( مسلم : 1373)

’’اے اللہ ! برکت دے ہمارے اس شہر میں ، ہمارے پھلوں میں ، ہمارے مد اور صاع ( پیمانے) میں دوگنی برکت ۔‘‘

 

آپ کو انصارِ مدینہ سے کتنی محبت اور کتنا تعلقِ خاطر تھا اس کا اندازہ غزوۂ حنین کے موقع پر آپ کے ایک خطبے سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ اس غزوہ میں جو کچھ مالِ غنیمت ملا اس میں سے آپ نے سردارانِ قریش اور مؤلفۃ القلوب کو خوب فیاضی کے ساتھ عطا کیا ، مگر انصار کا بہت معمولی حصہ لگایا ۔ اس پر انصار کے کچھ نوجوانوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں ۔ انھیں محسوس ہوا کہ انھیں ان کے حق سے کم دیا گیا ہے ۔ آں حضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے انہیں ایک احاطہ میں جمع کیا اور ان کے سامنے ایک بلیغ اور مؤثر خطبہ دیا ۔ آپ نے پہلے ان کے احسانات گناۓ ، پھر اس حکمت کو بیان کیا جس کی بنا پر آپ نے اس انداز سے مالِ غنیمت کی تقسیم فرمائی تھی ۔ آخر میں انتہائی مؤثّر اور رقّت آمیز لہجے میں انصار سے اپنی شدید محبت کا اظہار فرمایا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا: أترضون أن يذهب الناس بالشاة و البعير و تذهبون بالنبي ﷺ إلى رحالكم . لولا الهجرة لكنت إمرأ من الأنصار ، ولو سلك الناس وادياً و شعباً لسلكت وادي الأنصار و شعبها . الأنصار شعار و الناس دثار (بخاری : 4330)

” کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اپنے ساتھ بھیڑ بکریاں لے جائیں اور تم اپنے ساتھ اللہ کے نبی کو اپنے خیموں میں لے جاؤ ۔ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا ۔ اگر لوگ کسی ایک راستے اور وادی میں چلتے اور انصار کسی دوسرے راستے اور وادی میں چلتے تو میں انصار ہی کے راستے اور وادی میں چلتا ۔ انصار تو ‘شعار’ ( اندرونی کپڑا ، جو جسم سے متصل ہوتا ہے ) ہیں اور دوسرے لوگ ‘دثار’ ( اوپری کپڑا ، جو جسم سے مس نہیں ہوتا ) ۔‘‘

راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر تمام انصار بے ساختہ رو پڑے ، یہاں تک کہ ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں اور وہ پکار اٹھے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر راضی ہیں (سیرت ابن هشام)

 

*اہلِ وطن کی خیر خواہی*

 

وطن سے محبت کا اوّلین اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ اہلِ وطن کی خیر خواہی کی جائے ، ان کے دکھ درد میں شریک رہا جائے ، ان کے کام آیا جائے اور ان کی خدمت کی جائے ۔ ان کی سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہوگی کہ ان تک اللہ کا پیغام پہنچایا جائے اور انھیں شرک وکفر کے برے انجام سے ڈرایا جاۓ ۔ انبیائے کرام اپنی قوموں سے جس محبت اور دل سوزی کے ساتھ خطاب کرتے تھے اس کے نمونے قرآن کریم میں جا بجا پیش کیے گئے ہیں ۔ سورۂ اعراف کی چند آیات ملاحظہ ہوں ۔

حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا : يا قوم ليس بی ضلالة ولكنى رسول من رب العالمين ، أبلّغكم رسالات ربي و انصح لكم و أعلم من الله ما لا تعلمون (الاعراف:61-62)

”اے برادران قوم ! میں کسی گم راہی میں نہیں پڑا ہوں ، بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں ، تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں ، تمھارا خیر خواہ ہوں ۔‘‘

حضرت ہود علیہ السلام نے یوں خطاب کیا :

يا قوم ليس بي سفاهة و لكن رسول من رب العالمين ، أبلّغكم رسالات ربي و أنا لكم ناصح امین (الاعراف: 47-48)

’’اے برادران قوم ! میں بے عقلی میں مبتلا نہیں ہوں ، بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں _ تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمھارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘

حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں :

يا قوم لقد أبلغتكم رسالة ربي ونصحت لكم ولكن لا تحبون الناصحين (الاعراف:79)

”اے میری قوم ! میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچادیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی ، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیرخواہ پسند ہی نہیں ہیں ۔“

حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کی روٗگردانی پر یوں اظہارِ افسوس کیا :

يا قوم لقد ابلغتكم رسالات ربي ونصحت لكم فكيف آسی علی قوم كافرين (الاعراف: 93)

’’اے برادرانِ قوم! میں نے اپنے رب کے پیغامات تمھیں پہنچادیے اور تمھاری خیرخواہی کا حق ادا کر دیا ۔ اب میں اس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول ہی سے انکار کرتی ہے ۔”

 

اہل وطن کی خیر خواہی کا دوسرا نمونہ قرآن ہمارے سامنے آلِ فرعون کے مردِ مومن کا پیش کرتا ہے ۔ فرعون کے دربار میں جب حضرت موسی علیہ السلام کے خلاف سازش کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں تو مردِ مومن کا جذبۂ خیر خواہی جوش مارنے لگتا ہے ۔ وہ اس وقت تک اپنا ایمان چھپاۓ ہوۓ تھا ۔ اس موقع پر اس کا اظہار کرکے وہ اپنی قوم سے خطاب کرتا ہے ، انھیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہے ، راہِ حق اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے ، دنیا کی بے ثباتی واضح کرتا ہے اور ان کی بداعمالیوں پر انھیں خبردار کرتا ہے ۔ اس کے جملے جملے سے اپنی قوم کی حقیقی محبت اور نصح و خیر خواہی عیاں ہے :

ياقوم لكم الملك اليوم ظاهرين في الأرض فمن ينصرنا من بأس الله إن

جاءنا (المومن:29)

’’اے میری قوم کے لوگو ! آج تمھیں بادشاہی حاصل ہے اور زمین میں تم غالب ہو ، لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو پھر کون ہے جو ہماری مدد کر سکے گا ۔ ‘‘

ياقوم انی اخاف عليكم مثل يوم الأحزاب (المؤمن :30)

” اے میری قوم کے لوگو ! مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی وہ دن نہ آ جائے جو اس سے پہلے بہت سے جتھوں پر آچکا ہے ۔”

ياقوم اني اخاف عليكم يوم التناد (المؤمن :32)

’’اے میری قوم ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر فریاد و فغاں کا دن نہ آ جاۓ ۔‘‘ ياقومِ اتبعونِ أهدكم سبيل الرشاد (المومن: 38)

”اے میری قوم کے لوگو ! میری بات مانو ، میں تمھیں بیچ راستہ بتاتا ہوں ۔‘‘

ياقوم انِما هذه الحياة الدنيا متاع و انَّ الآخرة هي دار القرار (المؤمن:39)

”اے میری قوم ! یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے ، ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے ۔”

و يا قوم مالي أدعوكم إلى النجاة و تدعونني إلى النار (المؤمن :41)

’’اے میری قوم ! آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو ۔”

 

*وطن کی خدمت*

 

وطن سے محبت کا ایک پہلو یہ ہے کہ وطن اور اہلِ وطن کی خدمت کی جو کچھ کوشش ہوسکتی ہو ، اس سے دریغ نہ کیا جائے ۔ اس میں تمام سماجی اور رفاہی خدمات شامل ہیں ۔ اسلام انسانوں کی خدمت پر بہت زور دیتا ہے اور اس معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق روا نہیں رکھتا ۔ احادیثِ نبوی میں اس کی تعلیم و تلقین کے لیے عمومی انداز اختیار کیا گیا ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا :

خير الناس أنفهم للناس(فیض القدیرشرح الجامع الصغير : 481/3)

’’ سب سے بہتر شخص وہ ہے جس سے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے ۔ ”

ایک دوسری حدیث میں ، جو حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، آپﷺ کا ارشاد ہے:

لا يرحم الله من لا يرحم الناس(بخاری : 7376، مسلم :2319)

” اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ نہیں کرتا ۔ ”

ہندوستان جیسے کثیر مذہبی معاشرہ میں مسلمان کن کن پہلوؤں سے وطن کی خدمت کر سکتے ہیں؟ یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے ۔ اصولی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے اور اسے خطرہ میں ڈالے بغیر وہ خدمتِ وطن کے بہت سے مواقع تلاش کر سکتے ہیں ۔ قرآن ہمارے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کا اسوہ پیش کرتا ہے ، جنھوں نے ایک غیر اسلامی ریاست میں محض خدمت کے جذبے سے ایک کلیدی منصب قبول کیا اور نہایت احسن طریقے سے ملک کا نظم ونسق چلا یا ۔

 

*وطن دوستی نہ کہ وطن پرستی*

 

اسلام وطن دوستی کا قائل ہے نہ کہ وطن پرستی کا ۔ وطن دوستی اور وطن پرستی دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ۔ وطن دوستی یہ ہے کہ انسان جس سرزمین میں رہتا ہو اس سے اور وہاں کے رہنے والوں سے محبت کرے ، ان سے خیر خواہی رکھے اور ان کی فلاح و بہبود کے کام کرے ، جب کہ وطن پرستی میں انسان کا تعلق اپنے وطن سے تمام تعلقات سے بڑھ کر ہوتا ہے ، حتی کہ اس سے وابستگی حق و ناحق کا پیمانہ بن جاتی ہے ۔ ہر وہ کام صحیح ہے جس سے ہمارے وطن کو فائدہ پہنچے اور ہمارے اہل وطن کے حقوق محفوظ ہوں ۔ رہے دوسرے خطۂ زمین میں رہنے بسنے والے انسان تو ان کے مفادات اور حقوق سے ہمیں کوئی غرض نہیں ۔ ان کی کتنی ہی پامالی کیوں نہ ہو ، ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگے گی ۔ اسلام اس تصور کے خلاف ہے ۔ اس کے بجائے وہ امتِ واحدہ کا تصور دیتا ہے ۔ اس کے نزدیک افراد کے باہمی تعلق کی اصل بنیاد مذہب ہے نہ کہ وطن ۔ تمام انسان جو ایک عقیدہ کے ماننے والے ہوں ، سب ایک خاندان کے افراد ہیں ۔ ان کی مثال ایک جسم کی کی ہے ، جس کے کسی حصے میں ایک کانٹا چبھے تو پورا جسم اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اسلام ‘انسانیت’ کا ہمہ گیر اور عالم گیر تصور پیش کرتا ہے ۔ اس کے نزدیک دنیا کے تمام انسان اللہ کے بندے ہیں اور اس رشتے سے آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے :

انا شهيد ان العباد کلّهم إخوة(أبو داود : 1508)

”میں گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘

 

مسلمانوں کو وطن سے محبت کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ۔ یہ ان کی انسانی فطرت ہے اور دین و ایمان کا تقاضا بھی ۔ وہ جہاں بھی رہے انھوں نے اپنے عمل سے اس سرزمین سے محبت کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ بھی اس پر گواہ ہے ۔ اس کے چپّے چپّے پر ان کی محبت کے نقوش مثبت ہیں ۔ انھیں کھرچنے کی جتنی بھی کوشش کر لی جائے ، مگر اس میں کام یابی ممکن نہیں ۔ ان نقوش کو دھندلا تو کیا جا سکتا ہے ، مٹایا نہیں جاسکتا ۔

*

متعلقہ خبریں

Back to top button