مضامین

14 اینکرس پر پابندی

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

انڈیا الائنس نے چودہ اینکروں پر جو پابندی لگائی ہے اس پر ہنگامہ بپا ہے، دو فریق ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ صحیح ہوا اور دوسرا کہتا ہے کہ یہ میڈیا پر حملہ ہے۔ میرا سوال کچھ الگ ہے۔ ہندوستان میں دیگر اداروں اور شعبوں کی طرح میڈیا پر بھی ہرہمن جو صرف ساڑھے چار فیصد ہے ان کا قبضہ ہے۔ جس طرح یہودی لابی کا پوری امریکہ میں قبضہ ہے اسی طرح ہندوستان میں بھی برہمنوں کی لابی کاقبضہ ہے۔ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی کوئی سیاسی پارٹی ہو، کوئی بھی شعبہ حیات ہو، کوئی بھی فیصلہ کرنے والی ایجنسی ہو اس میں برہمن ہی اونچے عہدوں پر نظر آتے ہیں۔ اگر اس تناظر میں اس قضیہ پر غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ برہمن نے ہی برہمن کے پروگراموں میں نہ جانے کا فیصلہ لیا ہے۔

 

 

اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اقتدار کے راستے میں کوئی آجائے تو خواہ وہ اپنا ہی کیوں نہ ہو اس پر قابو پانا بہت ضروری ہوجاتا ہے جس کی بہت ساری مثالیں آپ کو تاریخ میں مل جائیں گی۔ تو کیا ان چند اینکروں کے بائیکاٹ سے ہمارے ملک کا زہریلا موسم بدلنے لگے گا۔ میرے خیال سے نہیں۔اس مسئلہ کا دیرپا حل صرف یہ ہے کہ میڈیا میں جب تک پچھڑی ذات کے لوگوں اور اقلیتوں کے افراد اپنا پیر نہیں جمائیں گے اس وقت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ہندوستان میں مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے، مسلمانوں سے زیادہ سنگین مسئلہ نیچی ذات والوں کا ہے۔

 

 

ان کے مسائل، ان پر ظلم وستم، سماج کے اندر ان کے ساتھ برقرار بھید بھاو اور پھر حکومت کے اندر ان کی نام کی حصہ داری، حکومت کے شعبوں میں ان کے افراد کو جگہ نہ دینے کی سازش، ریزویشن کے باوجود نوکریوں میں ان کے ساتھ ناانصافی یہ سب اس وقت تک دور نہیں ہوسکتا جب تک میڈیا میں ان کی ذات کے لوگ ایک بڑی تعداد میں اپنا وجود تسلیم نہ کرالیں، یہ بات ان کے دانشور ہر پلیٹ فارم پر کرتے رہتے ہیں۔

 

جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو چودہ کروڑ ہونے کے باوجود ان کے پاس چودہ جرنلسٹ بھی نیشنل پیمانہ کے نہیں ہیں جو میڈیا میں اپنا مقام رکھتے ہوں۔ اردو کے اخبارات کوئی خریدنے والا نہیں۔ انگریزی اور ہندی صحافت میں کوئی وجود نہیں۔ مسلمانوں کا اپنا چینل ہو، اس پر بھی خوب بات کی جاتی ہے، چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ چینل بعض اسباب کی بناء پر کھولنا اور چلانا ممکن نہیں، تو کیا صحافت میں اپنے بچوں کو بھیجنے کی باقاعدہ کوشش کرنا، اس کے لئے ان کی تیاری کرانا، اس کے لئے کوچنگ سنٹرس کا انتظام اور، اس کے لئے باقاعدہ ایک مہم چلانا،

 

 

کیا اس سے بھی دوسری قومیں ہمیں روکتی ہیں؟ کچھ لوگوں کو یہ بات بری لگے گی کہ جب سے ٹیلی ویزن کا دور آیا ہے، ہم لوگ تو پچاس سال تک اس میں الجھے رہے کہ فوٹو اور ویڈیو جائز ہے یا نہیں۔ جس قوم میں اس پر بحث ہو کہ ٹیلی ویزین دیکھنا اور اس میں کام کرنا جائز ہے یا نہیں اس قوم سے کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے نوجوان ٹیلی ویزن کے اسکرین پر نظر آئیں۔

 

اب جب کہ وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے، ہماری قوم کی تباہی اور ہمارے ملک کو برباد کرنے میں ٹیلی ویزن نے ایک طوفان برپا کررکھا ہے تو اب ہمیں سمجھ میں آنے لگا ہے کہ میڈیا کی اہمیت کیا ہے؟ اس کی اہمیت جب ہمیں پچاس سال پہلے سمجھنی تھی اس وقت ہم اسکے جواز وعدم جواز کی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔ اسی کو کہتے ہیں: لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔

 

خاص بات یہ ہے کہ میڈیا کی اہمیت، میڈیا میں اپنے نوجوانوں کو تیارکرنے کی ضرورت سے ہماری قوم ابھی بھی ناآشنا معلوم ہوتی ہے۔

 

چودہ اینکروں کے بائیکاٹ پر خوش ہونے کے بجائے ہمیں طویل المیعاد حل کی طرف اپنی وجہ مرکوز کرنے کی اشد

متعلقہ خبریں

Back to top button