مضامین

سائنسدان چاند کی مٹی میں پودوں کو اگانے میں کامیا ب

محمد احمد خان ایم یس سی،بی یڈ۔ حیدرآباد

٭ اپالو مشن 11، 12 اور 17 میں خلابازوں کے ذریعے چاند کی مٹی کو زمین پر لایا گیا۔
٭ سائنسدانوں کے پاس تجربے کے لیے 12 گرام – صرف چند چائے کے چمچ – چاند کی مٹی تھی۔
٭ مستقبل میں چاند کو ایک مرکز یا لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا جائے گا
٭ مستقبل میں چاند پر خوراک اور آکسیجن پیدا کرنے کی جانب ایک اہم قدم

پہلی بار، زمین پر سائنسدانوں نے چاند کی سرزمین پر پودے اگائے ہیں، جو مستقبل کے خلائی مشنوں کے دوران چاند پر خوراک اور آکسیجن پیدا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اپالو مشن 11، 12 اور 17 میں خلابازوں کے ذریعے مٹی کو زمین پر واپس لایا گیاتھا۔ پودوں کو اگانے کے تجربے کے لیے ان کے پاس صرف 12 گرام — یا چند چائے کے چمچ — چاند کی مٹی تھی۔ فلوریڈا یونیورسٹی (یو ایف) کے امریکی محققین نے دکھایا کہ پودے چاند کی مٹی میں کامیابی کے ساتھ نمو پا سکتے ہیں اور بڑھ سکتے ہیں۔

جرنل کمیونیکیشنز بائیولوجی میں شائع ہونے والی ان کی تحقیق میں یہ بھی چھان بین کی گئی کہ پودے چاند کی مٹی، جسے قمری ریگولتھ(خاک) بھی کہا جاتا ہے، جو کہ زمین پر پائی جانے والی مٹی سے بہت مختلف ہے۔پر تحقیق کی گی

محققین نے ایک سادہ تجربہ ڈیزائن کیا: 1.چاند کی مٹی میں بیج لگائیں
2. پانی، غذائی اجزاء اور روشنی ڈالیں، اور 3. نتائج کو ریکارڈ کریں۔

محققین نے پلاسٹک کی پلیٹوں میں انگوٹھے کے سائز کے کنوئیں بناے جو عام طور پر خلیوں کی نشو نما کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جو ایک برتن کی طرح کام کرتا ہے۔ ہر ایک ”برتن” کو تقریبا ایک گرام چاند کی مٹی سے بھر دیا، پھر سائنسدانوں نے مٹی کو غذائیت کے محلول سے نم کیا اور عربیڈوپسس پلانٹ کے چند بیج شامل کیے یا بوے گےء اس طرح ایک چھوٹے قمری باغ کو تیار کیا گیا۔ Arabidopsis کے بیج اکثر تحقیق میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں کیونکہ اس کے جینیاتی کوڈ کا مکمل نقشہ بنایا گیا ہے۔

عربیڈوپسس، تھالیانا، یوریشیا اور افریقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ سرسوں، رائی اور دیگر سبزیوں جیسے بروکولی، پھول گوبھی اور بروسلز کا رشتے دار ہے۔یہ سائنسدانوں کے لئے بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ اپنے چھوٹے سائز اور نشونما میں آسانی کی وجہ سے دنیا کے سب سے زیادہ زیر مطالعہ پودوں میں سے ایک ہے۔ جو پودوں کی حیاتیات کے تمام شعبوں میں تحقیق کے لیے ایک نمونہ حیات کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح سائنسدان پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ اس کے جین کیسا دیکھتے ہیں۔ اور مختلف حالات میں کس طرح برتاؤ کرتے ہیں یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ خلاء میں کس طرح بڑھتا ہے۔

عربیڈوپسس کو چاند کی مٹی (Regolith) میں اگانے کے لیے پہلے سے تیار شدہ نمونوں میں پانی اور بیچ شامل کیا پھر انہوں نے ٹرے کو صاف کمرے میں ٹریریم خانوں میں ڈال دیا۔ اور روزانہ ایک غذایئت کے محلول سے اس کو نم کیا۔ دو دن کے بعد محققین نے پایا کہ چاند کی مٹی میں لگائے گئے تقریبا تمام بیج نمو پا چکے تھے اور اگنے کے قابل تھے۔

ایک دوسرے کنٹرول گروپ کی جانب سے JSC-1A (ایک زمینی مادہ جو چاند کی حقیقی مٹی کی نقل کرتا ہے مثلا آتش فشاں کی راکھ) میں عربیڈوپسس کے بیج بوئے گئے JSC-1A نے مریخ کی مٹی اور سخت حالات پر مبنی زمینی مٹی کے تقابل کے طور پر بھی نقل کیا ہے۔

پال یونیورسٹی میں باغبانی کی سائنس ریسرچ پروفیسر آئینا لیزا نے کہا کہ
”ہم حیران رہ گئیکہ تمام بیج نمو پا چکے تھے۔ ہم نے اس کی پیشن گوئی نہیں کی تھی۔ چاند کی مٹی پودوں کے نمو میں شامل ہارمونز اور سگنلز میں رکاوٹ نہیں ڈالتی ہے۔

پال نے مزید کہا کہ چاند کی مٹی میں نمو پانے والے پودوں نے یہ ثابت کرنے میں مددکی کہ چاند کی مٹی کے نمونوں میں پیتھوجینز یا دیگر نامعلوم اجزاء موجود نہیں تھے جو زمینی زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ لیکن پودے صرف قمری ریگولیتھ(خاک) میں نمو پاگئے اور حقیقت میں پہلے کبھی چاند کی مٹی میں پودے نہیں اگائے گئے تھے۔

چاند کی مٹی کے نمونوں میں اگنے والے اور کنٹرول گروپ کے اگنے والے پودے ایک جیسے نظر آرہے تھے۔ چھٹے دن کے بعد تاہم یہ واضح تھا کہ پودے جو چاند کی مٹی میں نمو پائے تھے وہ اتنے مضبوط نہیں تھے۔ دونوں نمونوں میں پودے مختلف طریقے سے بڑھ رہے تھے۔ چاند کی مٹی کے نمونوں میں جڑیں اور کچھ کے پتے کٹے ہوئے تھے اور سرخی مائل رنگت کے تھے۔پودے چھوٹے تھے اور آہستہ آہستہ بڑھ رہے تھے۔ آتش فشاں کی راکھ میں بڑھنے والے پودے سائز میں وسیع تھے۔

پال نے کہا کہ تمام تحقیقی ثبوت سے یہ پتا چلتا ہے کہ پودے چاند کی مٹی کے کیمیائی اور ساختی میک اپ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ بات انہیں پودوں کے جینیاتی سطح پر معلوم ہوئی۔ایسا پودے عام طور پر سخت ماحول میں زیادہ نمک یا دھاتوں سے پر مٹی سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

بیس دن کے بعد پودوں پر پھول آنے سے ٹھیک پہلے ٹیم نے پودوں کی کٹائی کی اور RNA کا مطالعہ کیا۔ حیاتیاتی نظام میں جینس کو متعدد مراحل میں ڈیکوڈ کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے جینز یا ڈی این اے، RNA میں نقل کیے جاتے ہیں پھر RNA کو پروٹین کی ترتیب میں ترجمہ کیا جاتا ہے۔ یہ پروٹین ایک جاندار میں بہت سے حیاتیاتی عمل کو انجام دینے کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ RNA کو ترتیب دینے سے جین کے نمونوں کا انکشاف ہوا جن کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پودے چاند کی مٹی کے ماحول کو تناؤ میں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بالآخر ہم جین کے اظہار کے اعداد و شمار کو اس بات کی نشاندہی کرنے میں مدد کے لئے استعمال کرنا چاہیں گے کہ ہم کس طرح تناؤ کے رد عمل کو اس سطح تک بہتر بنا سکتے ہیں جہاں پودے خاص کر فصلیں ان کی صحت پر بہت کم اثر کے ساتھ چاند کی مٹی میں اگنے کے قابل ہوں۔

سائنسدانوں کے مطابق چاند کے جنوبی قطب پر وافر مقدار میں پانی موجود ہے۔ اس لیے مزید تحقیق کے لیے جنوبی قطب پر روبوٹک گاڑیوں کو بھیجا جا رہا ہے۔ مستقبل میں روبوٹ کے ذریعے چاند پر پودوں کو اگانے کا تجربہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جس سے خلائی تحقیق میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔ یہ تحقیق نہ صرف چاند پر رہائش گاہوں میں پودے اگانے میں معاون ہو گی بلکہ یہ خلابازوں کے چاند پر قیام میں بھی مدد کرے گی اور چاند پر اگلے انسانوں کی طرف سے اس تحقیق کو وسعت دینے کا راستہ فراہم ہوگا۔

یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب ناسا کا آرٹیمس پروگرام انسانوں کو چاند پر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مطالعہ کے مصنفین میں سے ایک اور UF انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ اینڈ ایگریکلچرل سائنسز (UF/IFAS) کے پروفیسر روب فرل نے کہا، ”آرٹیمس کو خلا میں پودے اگانے کے بارے میں بہتر تفہیم کی ضرورت ہوگی۔”
”مستقبل کے، طویل خلائی مشنوں کے لیے، ہم چاند کو ایک مرکز یا لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہم پودے اگانے کے لیے پہلے سے موجود مٹی کو استعمال کرنا چاہیں گے،” فرل نے کہا۔

ہمارے اردگرد پودوں کا ہونا نہ صرف ہمارے لیے خوش آئند ہے خاص طور پر جب ہم خلاء میں نئی منزلوں کا سفر کرتے ہیں۔ بلکہ وہ ہمارے خوراک کو اضافی غذائیت فراہم کرسکتے ہیں اور مستقبل میں انسانی تحقیق کے قابل بنا سکتے ہیں۔ پودے وہ ہیں جو ہمیں متلاشی بننے کے قابل بناتے ہیں۔
Mohd Ahmed Khan, Hyderabad
M.Sc,B.Ed.
ph: 9848999241
Email ID: [email protected]

متعلقہ خبریں

Back to top button