اسپشل اسٹوری

آسام کم عمری میں شادیوں کے خلاف کریک ڈاون۔شوہر جیلوں میں بیویاں سڑکوں پر۔فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی گراؤنڈ رپورٹ

نئی دہلی: آسام حکومت نے 2019-2020 میں کئے گئے قومی صحت سروے پر انحصار کرتے ہوئے جنوری 2023 میں کم عمری کی شادی کےخلاف چیف منسٹر ہیمانت بسوا شرما نے کریک ڈاؤن کو منظوری دی۔ نتیجتاً وزیر اعلى آسام نے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ بچوں کی شادی پر پابندی ایکٹ 2006 اور جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے ایکٹ 2012 کے تحت ،شوہر سسرال رشتہ دار رشتہ دار یا قاضی پادری میں آسام کے خلاف کیس درج کریں ۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے گوہاٹء، دھوبری، بارپیٹا، ماجولی ضلع میں متاثرہ خاندانوں کی شہادتیں درج کی گئیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے والے کلیدی نتائج اخذ کیے گئے۔

برکت علی خان اے پی سی آر تلنگانہ اسٹیٹ کے بموجب آسام پولیس نے 4004 ایف آئی آر درج کیں اور خواتین سمیت 3052 افراد 06.02.23 بھیج کو گرفتار کیا اور گرفتاری کی جگہ سے 200 کلومیٹر دور ٹرانزٹ جیل بھیج دیا۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ گرفتاریوں کا طریقہ کار سپریم کورٹ کے رہنمایانہ خطوط کی واضح خلاف ورزی ہے جو ڈی کے باسو بمقابلہ ریاست مغربی بنگال میں طے کی گئی تھی۔ پولیس زبردستی گھر میں گھس کر (1977) شوہروں، سسرالیوں، نابالغ لڑکیوں کے رشتہ داروں کو گرفتار کر لیتی ہے جن کی شادی اس وقت ہوئی تھی جب اس کی شادی کی قانونی عمر پوری نہیں ہوئی تھی

مبینہ طور پر حکومت نے آشا کارکنوں اور پنچایت سکریٹری یا گاؤں کے سکریٹری کے سربراہ کی مدد سے بچوں کی شادی میں ملوث ناموں کی فہرست تیار کی۔ آشا کارکنوں نے حاملہ خواتین کا ڈیٹا لیک کیا جس کے نتیجے میں ان کے شوہروں اور رشتہ داروں کی گرفتاری کی گئی ۔ حاملہ خواتین ان کے ذریعے طبی سہولیات حاصل کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے اہل خانہ کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا رپورٹ میں آسام میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کی کمی اور مختلف نظریات میں بٹے ہوئے سیاسی گروپوں پر مزید روشنی ڈالی گئی قانونی امداد کا فقدان اور کمزور قانونی ڈھانچہ پسمانده کمزور طبقے کو انصاف کی سیڑهی چڑھنے سے روکتا ہے

آسام کے چار اضلاع میں ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس، اے پی سی او فیکٹ فائنڈنگ کا دورہ کیا جس میں ایڈوکیٹ تمنا پنکج اور ایڈوکیٹ مبشر عنیق، ایڈوکیٹ جنید خالد اور ایڈوکیٹ مسعود  شامل تھے تاکہ آسام میں بچوں کی شادی کے خلاف کریک ڈاؤن کے سنگین حقائق کا پتہ لگایا جا سکے تاکہ متاثرہ افراد کی مدد کی جا سکے۔ اے پی سی آر عوام کے حقوق کی محافظ ہے اور اپنے آغاز سے ہی ریاستی جبر کے خلاف بھرپور او از انها رہی ہے اور قانون اور انصاف کے درمیان خلیج کو ختم کرتی رہے گی

خطیب کے کلیدی نکات

صفورا زرگر ایکٹوسٹ

ایکٹیوسٹ صفورا زرگر نے اس میٹنگ کی اینکرنگ کی اور انہوں نے آسام میں رونما ہوئے واقعات پر اظہار خیال کیا اور اے پی سی آر کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مقاصد کوبھی واضح کیا

تمنا پنکج ایڈوکیٹ

ایڈوکیٹ صاحبہ نے اپنے اس دستاویزی حقائق کی روشنی میں کہا جسے متاثرہ خاندان نے ریکارڈ کروایا تھا۔ ان کے مطابق آسام میں چائلڈ میرج تمام صورتوں میں جبری نہیں ہوا ہے ۔ بلکہ بہت سی صورتوں میں بچیوں کی خود کی رضامندی بھی شامل ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کی گرفتاری کا یہ عمل سپریم کورٹ کی ہدایات کے خلاف ہے انہوں نے اس سلسلے میں ڈی کے باسو بمقابل ریاست مغربی بنگال کی مثال پیش کی۔ اس کارروائی میں قاضی مزہبی رہنما، شوہر اور لڑکی کے رشتے دار بھی شامل ہیںانہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلی کا چائلڈ میرج کے سلسلے میں یہ اقدام اقلیتی طبقات کے ذہن و دماغ میں خوف و براس اور ڈر پیدا کرنا ہے

ایڈوکیٹ مبشر انیق

انہوں نے آسام کے موجودہ صورتحال پر کہا کہ اس وقت آسام میں سول سوسائٹی کے مضبوط جماعت کی ضرورت ہے اور عدلیہ کو حتمی کردار نبھانا چاہیے

بطور مثال :- کورٹ نے شروع شروع میں تو قیدیوں کو 24 گھنٹے کے اندر رہائی دے دی تھی لیکن اب کورٹ بھی بیل دینے سے ہچکچا رہا ہے انہوں نے آگے کہا کہ آسام پولیس نے دیر رات لوگوں کی گرفتاری کی ۔ اور ان کے ایف آئی آر کو پیز کے مطالبے کو مسترد کر دیا

ایڈوکیٹ مادھو میرا

انہوں نے حالیہ کریک ڈاؤن غربت اور چائلڈ میرج کے درمیان کے تعلق پر اپنے خیالات کا کے قانون کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ کیسے اس قانون Pocso اظہار کیا۔ انہوں نے مزیدانہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلی کا چائلڈ میرج کے سلسلے میں یہ اقدام اقلیتی طبقات کے ذہن ودماغ میں خوف و ہراس اور ڈر پیدا کرنا ہے

مریم ای جان

سابق ڈائریکٹر سابقہ پروفیسر اور سنٹر فار ویمن ڈویلپمنٹ اسٹڈیز میں ڈائریکٹرانہوں نے آسام میں امن و امان کے مسئلے کے ساتھ ساتھ بچوں کی شادی کے بارے میں خاص طور پر آسام سے متعلق مرکزی دھارے میں ڈیٹا کی کمی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ام میں مسلمان سب سے غریب طبقہ ہیں اور اس کے نتیجے میں ان میں بچپن کی شادیاں عام ہیں۔ حکومت کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر بچیوں کو مواقع فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button