مضامین

وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہباں، آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ۔ شبِ تاریک میں قندیل رہبانی

تحریر:شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم  (سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ)

ملت پر کوئی آنچ آئے یا ملک کسی خطرےسےدوچارہواس کےتدارک کے لئے سب سے پہلے علمائے کرام آواز بلندکرتے ہیں۔ ملک و ملت کی آبرو بچانے اور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں عام طور پر اسی طبقہ کی مرہونِ منت ہیں،ان کوششوں کی اس ملک میں لانبی تاریخ ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ اسی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ مسلمانوں کا یہ مشترکہ و متحدہ پلیٹ فارم ملک وملت کی خدمت اور تحفظ دین و شریعت کا جلی عنوان اور 20؍کروڑ سے زائد مسلمانوں کی آبادی والے اس ملک میں تمام مسالک٬مکاتب فکر اور مختلف طبقات کے مسلمانوں کے دل کی آواز ہے، جو آج سے 44؍سال پہلے اپریل 1973ءمیں تاریخی شہرحیدرآباد میں قائم ہوا،اس وقت کے تمام قابلِ ذکر علمائےکرام اور ملت کے قائدین اس کی تعمیر و تشکیل میں شریک ہوئے اور پھر تحفظِ شریعت اورمسلم پرسنل لاکی بقاء کے لئے سرگرم عمل رہے۔

 

 

 

1973ءمیں بڑے سنگین حالات میں بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھااور یہ طےکیا گیا تھا کہ قانونی راستوں سےمسلمانوں کے شرعی قوانین میں کسی بھی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور مسلمانوں کا یہ متحدہ پلیٹ فارم ایمانی غیرت اور اتحاد کی طاقت کے ساتھ اس طرح کی کوششوں کو ناکامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کرے گا،اللہ کا کرم ہے کہ پچھلے 44؍ برسوں سے مسلمانوں کا یہ باوقار بورڈ اپنے بانیوں کے رہنماخطوط کے مطابق مسلسل خدمت انجام دے رہا ہے اور مختلف معاملات میں غیر معمولی کامیابی اسے حاصل ہوئی ہے ۔

 

 

 

چونکہ بورڈ کی تعمیر و تشکیل ایک ایسی عظیم شخصیت کے ذریعے ہورہی تھی جواعتدال و توازن کے عظیم جوہر سے مالا مال تھی اوراس وقت کے سنگین حالات کا بھی یہ تقاضا تھا کہ اس بورڈ کو کسی ایک جماعت کے دائرے میں محدود نہ رکھا جائے بلکہ مسلمانوں کے مختلف مسالک و مکاتبِ فکر کے علماء٬قائدین اور نمائندہ شخصیات کو اس میں شریک کیاجائے۔چنانچہ بورڈ کے قیام سے پہلے اس کے بانی امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے مختلف مسالک و مکاتبِ فکر کے منتخب اشخاص کو جوڑنے کی بھرپور کوشش کی اور بورڈ کے باضابطہ قیام سے پہلے 27/28؍دسمبر 1972ء میں بمبئی کے آزاد میدان میں منعقدہونے والے مسلم پرسنل لاکنونشن میں مسلمانوں کے مختلف مسلک و مشرب کے قائدین کا جو اتحاد اور ایک دوسرے سے محبت کا اظہار اور مل جل کر قانونِ شریعت کی حفاظت کا عزم دیکھنے کو ملا اس سے ملک کےمسلمانوں کو کافی اطمینان حاصل ہوا ،مختلف مسالک و مکاتبِ فکر کے افراد کو یکجا کرنے اور ان کو مشترکہ طور پر بلندمقاصد کے لئے جدوجہد اور کوشش و کاوش کی راہ پر لانے کا معاملہ کہنے اور لکھنے کے لئے جتنا آسان ہے عملی لحاظ سے اتنا ہی دشوار گزار ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت امیر شریعت کی تربت کو ٹھنڈا رکھے کہ انہوں نے اس مشکل کو آسان کرنے کے لئے بے پناہ جدو جہد کی ،وہ نہ تھکے نہ ہارے٬نہ شکست حوصلہ ہوئے اور نہ ہی کسی مرحلے میں اپنے مشن سے بددل ہوئے٬وہ مخلصانہ جدو جہد کی کامیابی پر یقین رکھتے تھے اور انہیں اس بات کااحساس تھا کہ منزل چاہے کتنی ہی دور ہو اور ہدف چاہے کتنا ہی بلند، مسلسل چلنے اور چلتے رہنے والاانسان ایک دن منزل پر پہنچ ہی جاتا ہے اورہدف کا طلبگار ایک نہ ایک دن اپنے ہدف کو پالیتا ہے؂

 

مل ہی جائے گا ہدف خواہ ہو کتنا ہی بلند

شرط یہ ہے کہ کوشش اسی معیار کی ہو

 

حضرت امیر شریعتؒ کا اخلاص کہہ لیجئے یا ان کی دعائے نیم شبی کا اثر،کہ بورڈ کا کارواں اپنے بانی کے تشکیل کردہ رہنما خطوط پر آگے بڑھتا جارہاہے اور جن مقاصد کے تحت اس کا قیام عمل میں آیا تھا ان میں اسے بھرپور کامیابی ملتی رہی ہے۔

 

 

 

بورڈ کے قیام کے وقت متبنّٰی بل کا مرحلہ درپیش تھاجس میں اسلامی قانون کے برخلاف لے پالک بیٹے کو حقیقی اولاد کا درجہ دیا گیا تھا۔علمائے کرام اور قائدین ملت بالخصوص امیرشریعت مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اورمتبنّیٰ بل واپس لیا گیا۔اس کے بعدایمرجنسی کے تاریک دور میں جبری نس بندی کے قانون کے خلاف مسلم پرسنل لابورڈ نے جرأت مندانہ اقدامات کئے اور ان سنگین حالات میں جب کہ بولنے والی زبانیں خاموش تھیں اور لکھنے والوں کے قلم ٹوٹ چکے تھے،آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی آواز گونجی اور گونجتی چلی گئی۔بورڈ کے بانی اور جنرل سکریٹری مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے فیمیلی پلاننگ کے نام سے ایک رسالہ لکھ کر جہادبالقلم کا فریضہ انجام دیا اور اسے پورے ملک میں تقسیم کروا کر مسلمانوں کو شرعی حکم سے واقف کرایا ،بورڈ کے مخلص کارکنوں کی جدو جہد نے حالات کی سنگینی کا رخ موڑ دیا اور وہ دشوار گزار مرحلہ- جس میں اچھے اچھوں نے ہمت ہار دی تھی-گزر گیا،بورڈ کا یہ ایساکارنامہ اورجرأت و عزیمت سے لبریز ایسا اقدام ہے جس نے ملک کے ہر ایک مسلمان کو بورڈ کا احسان مندبنادیا۔پھر 1978ء میں دو مساجد اور ایک قبرستان کی جگہ کا معاملہ سامنے آیا جسے الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ نے میونسپل کارپوریشن کی جگہ قرار دے دیا تھا۔ بورڈ کے ذمہ داران نے بڑی حکمتِ عملی کے ساتھ اس فیصلے کی غلطیوں کوواضح کیا اور بالآخر یہ فیصلہ واپس لیاگیا۔1986ء میں اندور کی شاہ بانو نامی خاتون کے مقدمے کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے تاحیات نفقۂ مطلقہ کا فیصلہ کیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیااوراس فیصلے کی خامیاں پورے ملک کے مسلمانوں کے سامنے واضح کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے گوشے گوشے میں مسلمانوں نے اس فیصلے کو شریعت اسلامی میں مداخلت قرار دیا اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف احتجاج کو منظم کیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے مسلمانوں کے تیور دیکھتے ہوئے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون میں مناسب ترمیم کروائی۔یہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی بڑی جیت تھی،جس نے اس ملک میں مسلمانوں کے وقار و اعتبار میں اضافہ کیا،ادھر حال کے چند برسوں میں بھی بورڈ کو مختلف مسائل کی نمائندگی اوراس نمائندگی کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے اثرات کی بناء پر بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔2002ء میں وزارتی گروپ کی رپورٹ سامنے آئی جس میں مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا گیا۔ بورڈ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور ملک کے عظیم قائدحضرت مولانا محمدولی رحمانی نورﷲمرقدہ نے اس رپورٹ کا مفصل تجزیہ رسالے کی شکل میں کیا اورمختلف جلسے٬کنونشن اورسیمینار منعقد کرکے،اسی کے ساتھ ساتھ اربابِ اقتدار کومتوجہ فرماکر مدارس پر منڈلاتے ہوئے خطرات کے بادلوں کو دور کیا۔2010ء میں مدارس اسلامیہ کو ختم کرنے کی ایک دوسری سازش بڑے خوبصورت عنوان ’’مفت اور لازمی حق تعلیم قانون‘‘کے نام سے سامنے آئی تو بورڈ نے پہلے مرحلے میں افہام و تفہیم کے ذریعے اسے حل کرنے کی کوشش کی، لیکن جب ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں نہ رینگی تو 26؍نومبر 2011ء کو دہلی کے اجلاسِ عاملہ میں اس قانون اور مزید 3؍قوانین (وقف بل ،ڈائریکٹ ٹیکسیز کوڈ٬زرعی جائدادمیں عورت کے حصے سے متعلق قانون)کے سلسلے میں آئینی حقوق بچاؤ تحریک چلانے کا فیصلہ کیااورپورے ملک میں اس زورو شور کے ساتھ تحریک آگے بڑھی اور مسلمانوں میں ان مسائل کے تئیں ایسی بیداری پیدا ہوئی کہ حکومت کو’’مفت اور لازمی حق تعلیم قانون‘‘ سےمدارس کو مستثنٰی قرار دینا پڑا۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button