مضامین

جھوٹ انسان کوگناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کی طرف

سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور
9897334419
تمام اخلاقی برائیوں میں سب سے بڑی برائی جھوٹ بولنا ہے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے آدمی کو کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ ایک شخص آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ”یا رسول اللہ جنت میں لے جانے والا عمل کون سا ہے؟“ آپؐ نے فرمایا:”سچ بولنا، جب بندہ سچ بولتا ہے تونیکی کا کام کرتا ہے اور جو نیکی کا کام کرتا ہے وہ ایمان سے بھرپورہوتا ہے اورجو ایمان سے بھر پور ہوجائے وہ جنت میں داخل ہوگا۔“اس شخص نے پھر دریافت کیا: ”یا رسول اللہ دوزخ میں لے جانے والا عمل کون سا ہے؟“ آپؐ نے ارشاد فرمایا: جھوٹ بولنا،جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کا مرتکب ہوتاہے اور جب وہ گناہ کے کام کرتا ہے تووہ کفر کرتاہے اور جب وہ کفر کرے گا تو دوزخ میں جائے گا۔“(مسند احمد)آپ ؐ نے یہ بھی فرمایا:
”جھوٹ انسان کوگناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کی طرف۔ جھوٹ بولتے بولتے آدمی خدا کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔“ (بخاری)
بعض لوگ تفریحِ طبع، مزاح اور خوش گپّی کے لیے جھوٹ بول دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ نہیں ہے۔کیونکہ اس سے نہ کسی کو تکلیف پہنچ رہی ہے اور نہ ہی کوئی نقصان ہورہاہے بلکہ لوگ لطف اندوز ہورہے ہیں مگر یہ بھی جھوٹ ہے۔آنحضور ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص پر افسوس ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔“
جھوٹ کی ایک قسم یہ ہے کہ آدمی کسی بے قصور شخص کو قصوروار ٹھہرائے یعنی اس پر کوئی الزام لگائے۔ناکردہ گناہ کی نسبت اس کی طرف کرے یہ نہایت مذموم اور خطرناک جھوٹ اور جرم ہے۔اسلام نے اسے”اِفْکٌ“بہتان سے تعبیر کیا ہے او ر ایسے شخص کی سزا ۰۸ کوڑے مارنا متعین کیا ہے۔
جھوٹ کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان بغیر دیکھے کسی بات کی گواہی دے یعنی جھوٹی گواہی دے۔یہ اتنا خطرناک جرم اور جھوٹ ہے کہ قرآن نے اسے شرک کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ”تم لوگ بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی گواہی سے بچو۔“(حج:۰۳)
پیارے نبیؐ نے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے بیان کردی جائیں۔ یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا:
”انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات جوں کی توں بیان کردے۔“
جھوٹ بولنا تمام انسانوں کے نزدیک گناہ ہے۔کسی دین اور مذہب میں اسے روا نہیں سمجھا گیا۔جھوٹ بولنے سے سماج کھوکھلا ہوجاتا ہے۔انسانیت کی ساری عمارت گرجاتی ہے۔اس لیے جھوٹ بولنے سے بچئے۔ہنسی،مذاق میں بھی جھوٹ مت بولیے۔ اپنی دنیا یا کسی کی دنیا بنانے کے لیے جھوٹ کا سہارا مت لیجیے۔البتہ کہیں ایمان بچانے کا مسئلہ پیدا ہوجائے یا اضطرار کی کیفیت آجائے تو اسی حد تک جھوٹ بولا جا سکتا ہے جہاں تک ایمان بچ سکتا ہو۔اضطرار کی کیفیت یہ ہے کہ انسان کی جان،ایمان،آبرو کے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہوجائے،یا آپ کے سچ بولنے سے زمین میں فساد پیدا ہوجائے تو جھوٹ بولا جا سکتا ہے۔
جھوٹ بولنے سے اللہ بھی ناخوش ہوتا ہے اور انسان کا اعتبار بھی کھویا جاتاہے۔ جھوٹا آدمی اگر سچ بات کہے تب بھی لوگ اسے جھوٹا ہی سمجھتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والا شخص اندر سے پریشان رہتاہے کہ نہ جانے کب اس کا جھوٹ کھل جائے۔ جب انسان سچائی کے خلاف بات کرتاہے تو اس کا ضمیر بھی اسے ملامت کرتا رہتا ہے۔ پھر جھوٹ بول کر اسے یاد رکھنا پڑتا ہے کہ اس نے جھوٹ میں کیا بات کہی ہے تاکہ دوسری جگہ بھی وہی بات کہہ سکے۔ جبکہ سچ بول کر آدمی اطمینان کے ساتھ اسے نہ کوئی خدشہ ہوتا ہے نہ بے چینی۔
حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ جھوٹ ایسا گناہ ہے جو انسان کو کفر تک لے جاتا ہے اور جنت کا دروازہ اس کے لیے بند ہوجاتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جھوٹ انسان کو فجور(گناہ) کی طرف لے جاتاہے اور گناہ جہنم کی طرف۔ جھوٹ بولتے بولتے آدمی خدا کے یہاں جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔“(بخاری)
آپؐ نے ارشاد فرمایا:”منافق کی تین علامتیں ہیں۔“ جب وہ بات کہے تو جھوٹ بولے، جب وہ وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے۔“اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں خبر دار کیا ہے کہ ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے انہیں آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔ارشادربّانی ہے:”جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“(البقرہ:۰۱)
جھوٹ بولنے والے کو تباہی کی دھمکی دی گئی ہے اور سچ بولنے والے کونجات کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا:”سچ انسان کو نجات دیتا ہے اور جھوٹ انسان کو تباہ کردیتا ہے۔“
ایک بار پیارے نبیؐ نے صحابہ کرام سے فرمایا:”کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ بتاؤں؟“ صحابہ نے عرض کیا:”ہاں یارسول للہ۔“ آپ نے فرمایا:”شرک اورماں باپ کی نافرمانی۔“ راوی کہتے ہیں کہ آپؐ ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا: ”جھوٹی شہادت جھوٹی شہادت“ او ر برابر یہی کہتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے کہا کاش آپ خاموش ہوجاتے۔
جھوٹ کی ایک قسم یہ ہے کہ سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے بیان کردی جائیں۔ جب انسان کو کسی کے بارے میں کوئی بات معلوم ہوتو پہلے اس کی تحقیق کرے محض کسی کی سنی ہوئی بات کو جوں کا توں بیان کردینا جائز نہیں۔یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا:”انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات جوں کی توں بیان کردے۔“
جھوٹ کی ایک قسم یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش اورچاہت کے برخلاف کوئی بات کہے۔ مثلاً کوئی شخص کہے کہ آئیے کھانا کھالیجئے اور آپ کہہ دیں کہ مجھے کھانے کی خواہش نہیں ہے۔ حالانکہ آپ کو کھانے کی خواہش اور چاہت ہے تویہ بھی جھوٹ ہے۔ یعنی تصنع اور بناوٹ کے لیے خلاف واقعہ کوئی بات کہہ دینا بھی جھوٹ میں شامل ہے۔حضرت اسماء بنت یزید ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ ہم میں سے کوئی کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو اور پھر یہ کہہ دے کہ مجھے اس کی خواہش نہیں تو کیا یہ جھوٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا:”ہر چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بھی جھوٹ ہی لکھا جاتاہے۔“ (مسند احمد)
جھوٹ کی ایک قسم یہ ہے کہ بہلانے اور پھسلانے کے لیے خلافِ واقعہ کوئی بات کہی جائے تو یہ بھی جھوٹ ہے۔حضرت عبداللہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺایک بار ہمارے گھر تشریف لائے۔(اس وقت میں بچہ تھا) میری ماں نے مجھے بلانے کے لیے کہا۔”یہاں آؤ تجھے کچھ دوں گی۔“
آنحضور ﷺنے فرمایا:”تم کہتی تو ہو مگر اس کو کچھ دینا نہیں چاہتی ہو۔“ ماں نے کہا:”میں اس کو کھجور دے دوں گی۔“ آنحضور ﷺنے فرمایا:”اگرتم اس کو کچھ نہ دیتی تو تمہارا یہ جھوٹ بھی لکھا جاتا۔“(ابوداؤد)
امام بخاریؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ انہیں معلوم ہوا کہ فلاں شخص کے پاس ایک حدیث ہے۔آپ تو حدیث کی تلاش میں رہتے ہی تھے۔ چنانچہ دور دراز کا سفر کرکے اس شخص کے گھر پہنچے۔آپ نے دیکھا کہ وہ خالی جھولی دکھاکر گھوڑے کو اپنے پاس بلارہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر آپ واپس چلے آئے۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا آپ اتنا لمبا سفر طے کرکے اس شخص کے پاس گئے تو اس سے حدیث کیوں نہ حاصل کی؟آپ نے فرمایا:”وہ شخص جھوٹا ہے۔ جو شخص جانور کے ساتھ جھوٹا معاملہ کررہاہے وہ انسان کے ساتھ بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔ایسے شخص کی حدیث لینا جائز نہیں۔“اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے گناہ سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین

مضمون نگار ماہر تعلیم،ماہنامہ اچھا ساتھی کے ایڈیٹر اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button