مضامین

تحقیقی تبصرے -ایک مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
قلمی نام ظفر کمالی سے مشہور جناب ڈاکٹر ظفر اللہ (ولادت 3؍اگست 1959ء) بن کمال الدین احمد مرحوم جائے پیدائش موضع رانی پور بڑہریا سیوان حال مقیم ایم ایم کالونی مل روڈسیوان ذکیہ آفاق کالج سیوان میں فارسی کے استاذ رہے ہیں، نثر نگاری میں انہوں نے مشہور مزاح نگار احمد جمال پاشا سے کسب فیض کیا ہے اور ان سے شرف تلمذ کو وہ اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں، احمد جمال پاشا کی فکاہت و ظرافت سے جو حصہ انہوںنے پایا اس کے نمونے شاعری میں ظرافت نامہ، ڈنک، وغیرہ میں دیکھے جاسکتے ہیں، نثر میں چٹکیاں، بنام مجتبیٰ حسین، میں بھی اس کے نمونے پائے جاتے ہیں، لیکن تحقیقی مقالات و تبصروں میں ان کا اپنا ایک اسلوب ہے جو صاف و شفاف، تعقیدات لفظی و معنوی سے خالی اور سبک رو ہے۔ اس لیے ان کے تحقیقی تبصرے، تحقیق کی خشکی کے باوجود قارئین کے دل و دماغ کو بوجھل نہیں کرتے، ان کے یہاں اغلاق اور ابہام کا گذر نہیں ہے، جو کہتے ہیں برملا کہتے ہیں، برجستہ؛ مگر تحقیق کی کسوٹی پر پرکھ کر کہتے ہیں۔ اس لیے قاری کو پڑھنے کے بعد اپنے علم میں اضافہ کااحساس ہوتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کسی کتاب کو پڑھ کر آپ کے علم میں اضافہ نہ ہو تو ایسی کتابوں کے مطالعہ پر وقت لگانا تضیع اوقات کے زمرے میں آتاہے۔ اس سے کتاب کی اہمیت بھی ختم ہوتی ہے قاری اور مصنف کے درمیان جو رشتہ ہوتا ہے وہ دھیرے دھیرے کمزور ہوجاتا ہے اور پھرکلیۃً ختم ہوجاتاہے۔
’’تحقیقی تبصرے ‘‘ظفر کمالی کی معتبر اور مستند تحقیق ہے۔ اس میں تبصرے کا عنصر کم اور تحقیقی ذوق زیادہ نمایاں ہے،ہمارے دور میں تبصرے کا مفہوم تعارفِ کتاب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، تنقید کا عنصر تقریباً تبصرے سے غائب ہوگیا ہے، تبصرہ نگار کو تحقیق کی فرصت ہی نہیں ہوتی، تحقیق کے لئے جس جاں کاہی اور پِتّہ پانی کرنے کی ضرورت ہے، تبصرہ نگار اس مخمصے میں پڑنا نہیں چاہتا، بلکہ بعض اساطین ادب کی رائے ہے کہ تبصرہ میں تنقید نہیں ہونی چاہیے، میری رائے ہے کہ تبصرہ نگار کا مبلغ علم اگر اس قدر ہو کہ وہ کتاب کے مندرجات پر اپنی تحقیق کی روشنی میں تنقید کرسکتاہو تو اسے ضرور کرنی چاہے، ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ تبصرہ میں کتاب کے گلشن سے صرف پھول چن کر اس کی عطربیزی سے قارئین کو واقف کرانا چاہئے، کانٹوں سے دامن کشاں کشاں گزر جانا چاہئے۔ میرے خیال میں دونوں نظریات کے حامل افراط و تفریط کے شکار ہیں،اس سلسلہ میں گیان چند جین کی وہ تحریر جو  ان کی کتاب مقدمے اورتبصرے کے صفحہ ۱۴۹،۱۴۸پر درج ہے قول فیصل کی حیثیت رکھتاہے، جناب ظفر کمالی صاحب نے بھی اس اقتباس کو نقل کیا ہے ،لکھتے ہیں:
’’ میرے نزیک موزوں تر یہ ہے کہ اپنی طرف سے کچھ لکھتے وقت اس موضوع پر دوسروں کی تحریروں میں کوئی تسامح دکھا ئی دے توصورت حال پیش کردی جائے ،کسی کتاب یامقالے پر تبصرہ لکھنا ہو تو اس کے دونوں پہلو پیش کردیئے جائیں، محض خوبیو ں پراکتفا کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا محض غلطیاں گنانا( ص ۱۲)
 تبصرہ میں تحقیق بھی ہونی چاہئے اور تنقید بھی، ورنہ کتاب میں جو غلط بات درج ہوگئی ہے، وہ نقل ہوتی رہے گی اور قاری گمراہ ہوتا رہے گاقاضی عبد الودود اور عطا کاکوی نے مختلف مضامین و مقالات کے ذریعہ قاری کو غلط اندراج کی جانکاری دی اور قسطوں میں اس کام کو آگے بڑھایا، مولانا عامر عثمانی نے تجلی میں کھرے کھوٹے اور ماہر القادری نے فاران میں تبصرے کا ایک معیار قائم کیا، ظفر کمالی نے تحقیقی تبصرے میں تبصرہ، تحقیق اور عملی تنقید کو یک جا کر اس روایت کو وسعت اور تسلسل عطا کیا ہے۔
تحقیقی تبصرے کی اشاعت ۲۰۱۷ء میں ہوئی ،اس کاسرورق خوبصورت اوردیدہ زیب ے،جو اظہا ر احمد ندیم کے تجریدی آرٹ کا بہترین نمونہ ہے ،یہ الگ سی بات ہے ہے کہ احقر کو تجریدی آرٹ سے کوئی مناسبت نہیں ،اور جب بھی اس سے معانی اورمفاہیم کشید کرنا چاہتا ہوں ، ڈھیروں پسینہ پیشانی پر اتر آتا ہے،اس عرق ریزی کے بعد بھی پلے کچھ نہیں پڑتا،کمپوزنگ امتیاز وحید کی ہے اور بہت اچھی ہے ،جو اہر آفسیٹ پرنٹس دہلی کی مطبع سے چھپی ،اس کتاب کا ناشر عرشیہ پبلیکیشن ہے،دہلی، الٰہ آباد ،علی گڑھ ،ممبئی ،پٹنہ ،حیدرآباد ،اورنگ آباد، کولکاتا، جموں توی کشمیر نصف درجن سے زیادہ جگہوں سے یہ کتاب بآسانی آپ کو مل سکتی ہے،اتنی خوبصورت اوردوسوچالیس صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے جو زائد تو نہیں ہے ،البتہ اردو کے قارئین کی قوت خرید کمزور ہوتو اس میں مصنف کا کیا قصور ،دوسرے صفحات کے جومندرجات ہیں اس کے بالکل اوپر (C)نشان لگا کر رضیہ سلطانہ لکھا گیا ہے،یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ منظور علی بن محمد اسماعیل اسلامیہ محلہ گوپال گنج کی صاحبزادی رضیہ سلطانہ ظفر کمالی کی اہلیہ ہیں؛لیکن یہاں نام دینے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیاقصورمیری فہم ہی کا ہوسکتا ہے ،کتاب کاانتساب بغیر انتساب کے عنوا ن کے فارسی اوراردو کے اہم محقق سید حسن عباس کے نام ہے ،جو ظفر کمالی کے ذریعہ ان کی خدمات کا اعتراف اوردل میں ان کی عظمت کی دلیل ہے ۔
پیش گفتار میں ظفر کمالی نے ان محققین اوراساتذہ کا ذکرکیاہے جن سے انہوں نے تحقیق کا فن سیکھا ہے ،ان کے کالبدِخاکی میں جو روح ہے وہ انتہائی متواضع اورمنکسرالمزاج ہے اورروح ہی کیا ظاہری رکھ رکھاؤ بھی ان کا اسی انکسار اور تواضع کا مظہر ہے۔ اس لیے انہوں نے شروع میں ہی اس کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں محقق ہونے کا دعویٰ نہیں ،ان کی حیثیت ادنیٰ طالب علم کی ہے انہوں نے اس مختصر مضمون میں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ
 ’’میں نے جو کچھ لکھا ہے اس میں ممکنہ طور پر پوری ایمانداری برتی ہے ،عجلت پسندی میرے مزاج کا حصہ نہیں ہے،کسی بھی موضوع پرلکھتے ہوئے تلاش وجستجو سے کام لینے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے ، اورسچ کی پاسداری میں بے جا انکسار سے کام نہیں لیا گیا ہے،صداقت بیانی تحقیق کی بنیاد ی شرط ہے، یہ حقیقت ہمہ دم میرے پیش نظر رہی ہے،کوئی بات اگر صداقت سے پر ے ہے تو اس کا کہنے والا خواہ کوئی ہو اسے بے خوفی سے اجاگر کیا گیا ہے (ص ۱۰)
 ظفر کمالی کے نزدیک ’’تحقیق دراصل پتھر نچوڑ کر پانی نکالنے کا نا م ہے ،اس کے لیے جس جگر کاوی کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب کے بس کا روگ نہیں، یہاں سہل پسندی اورعقید ت مندی کا بھی گذر نہیں ہے،دقت پسندطبیعتیں ہی اس میدان میں سرخ رو ہوتی ہیں(ص۳۰)
مجھے خوشی ہے کہ ظفر کمالی نے تحقیقی تبصرے میں پتھر نچوڑ کرپانی نکالا ہے ،اورسہل پسندی سے کام نہیں لیا ہے ،البتہ میر ااحساس ہے اورضروری نہیں کہ یہ احساس صحیح بھی ہو کہ ظفر کمالی کو جن شخصیتوں سے عقیدت ہے ان پر لکھتے وقت ان کا لہجہ بدل جاتا ہے ،ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم جس قدر بھی معروضی مطالعہ کی بات کریں انسانی سرشت کی بڑی سچائی ہے کہ شعور یاتحت الشعور میں جن کی خوبیوں نے جگہ بنا رکھا ہے ہم اس سے اپنے کو الگ نہیں کرپاتے ،قلم خود سے چلتا نہیں، اسے ذہن ودماغ اورفکر وشعور کے آمیز ہ سے ہی تحریک ملتی ہے ۔
تحقیقی تبصرے میں کل گیارہ مقالات ہیں، جن کے عناوین درج ذیل ہیں۔
غلطیہائے مضامین: ایک تبصرے پر تبصرہ، ادبی تحقیق، مسائل اور تجزیہ، تحقیق و تدوین، مسائل و مباحث-ایک تبصرہ، قاضی عبد الودود اور گیان چند جین، قاضی عبد الودود کا خود نوشت سوانحی خاکہ اور سید محمد محسن، قطب مشتری کا تنقیدی مطالعہ از ابوالبرکات کربلائی، مدرس، تدریس اور تحقیق، ضحاک کا ماخذ، بزم فرخ ناٹک، ڈراما اور اسٹیج، گلستاں کا باب پنجم اور پروفیسر کبیر احمد جائسی ہیں۔
اس کتاب کا پہلا مقالہ سید شاہ عطاء الرحمن عطاکاکوی کے’’ غلطیہا ئے مضامین ‘‘کے اوپر جناب گیان چند جین نے جو تبصرہ کیا تھا اس تبصرہ پر تبصرہ ہے، عطا کاکوی کا یہ مضمون معاصر پٹنہ میں آٹھ قسطوں میں چھپا تھا، گیان چند جین کا یہ تبصرہ پہلے شاعر شمارہ 1986-8میں شائع ہوا تھااور بعد میں ان کی کتاب مقدمے اور تبصرے کا حصہ بنا۔ یہ کتاب 1990ء میں شائع ہوئی تھی۔
ظفر کمالی نے اس تبصرہ پر تبصرہ کا آغاز گیان چند جین کی کتاب ’’تحقیق کا فن‘‘ کے ایک اقتباس سے کیا ہے اور اس کو اپنے مقالہ کا سرنامہ بنایاہے اور پھر عطاکاکوی کے مضمون اور گیان چند جین کے تبصرے کے اقتباس دے کر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ظفر کمالی کا یہ تحقیقی تبصرہ ایک محاکمہ ہے۔ جس میں ان کے علم کا وفور، تحقیق کا شعور، جانب داری سے نفور اور تنقید کی صلاحیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ اس محاکمہ کا اختتام ظفر کمالی نے اس خوش اسلوبی سے کیا ہے کہ گیان چند جین کی تحریر ہی سے ظفر کمالی کے نظریات کی تائید ہوگئی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’افسوس ہے کہ یہ غلطی ہائے مضامین پر قلم اٹھاتے وقت انہوں نے تحقیقی ذمہ داریوں کالحاظ نہیں رکھا اور حد درجہ بے نیازی سے کام لیا، انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’آپ کو بالکل درست جواب ملے تو لکھئے ورنہ موجودہ مواد کے پیش نظر اپنی معذوری کا اعتراف کرلیجئے  یہ ہرگز نہ ہوکہ آپ دوسرے کے بیان کو غلط ٹھہراکر کوئی تصحیح کردیں اور دوسرا اس تصحیح کا کھوکھلا پن بآسانی ثابت کرسکے، مجھے ان کے قول سے پورا اتفاق ہے۔(تحقیقی تبصرے 29)
اس کتاب کا دوسرا مقالہ رشید حسن خاں کی مشہور اور معرکۃ الآرا کتاب’’ ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ‘‘ پر ہے، یہ کتاب پہلی بار1978 ء میں چھپی تھی اور دوسرا ایڈیشن اترپردیش اردو اکادمی نے 1990ء میں لکھنؤ سے شائع کیاتھا، یہ تبصرہ بڑی حد تک رشید حسن خاں کی کتاب اور اسکے مندرجات سے اتفاق پر مبنی ہے۔ اس کا اسلوب اور لب و لہجہ اس بات کی طرف مشیر ہے کہ ظفر کمالی رشید حسن خاں کی شخصیت اور ان کی تحقیقات سے خاصے متاثر ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی  ہوسکتی ہے کہ ان کی کتابوں کو پڑھ کر کمالی صاحب کو بقول ان کے تحقیقی آداب سے آگاہی ہوئی، قاضی صاحب اور رشید حسن خاں نے صداقت اور جرأت اظہار کی طاقت بخشی۔‘‘ اس مقالہ کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے۔’’ جو لوگ تحقیق کی دنیا میں قدم رکھنا چاہتے ہوں اور وہ سرخ روئی اور سرفرازی کے بھی متمنی ہوںتو انہیں’’ ادبی تحقیقی مسائل اور تجزیہ‘‘ کو وظیفے کی طرح پڑھنا چاہیے۔‘‘(تحقیقی تبصرے ص54)
اس کے باوجود انہوں نے چند جگہوں پر رشید حسن خاں کی رائے سے اختلاف کیاہے ،رشید حسن خان نے تذکرے کے اردو تراجم کو فضول کام کہا  اور اسے لوگوں کی دلچسپی کی چیزنہیں مانا ہے، ظفر کمالی نے اس پر اپنے تبصرہ میںلکھا ہے کہ اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے ،دوسری طرف خاں صاحب نے یونیورسٹی میں لکھے جارہے پی ایچ ڈی کے مقالوں کا نثری مرثیہ لکھا تواس سے ظفر کمالی نہ صرف یہ کہ اتفاق کرتے ہیں ،بلکہ ان کے بقول آج تعلیم گاہوں میں تحقیق کی جو صورت حال ہے وہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں مجھے اس موقع سے پروفیسر چند گوپی نارنگ کی وہ بات یادآتی ہے جو انہوں نے اخباری نمائندہ کے سوال کے جواب میں کہی تھی جب ان سے پوچھا گیا کہ آج کل تحقیقی مقالوں کے لے کیا چیز ضروری ہے فرمایا :دفتیوں کے درمیان چند اوراق لکھے ہونے چاہیے ،ظفر کمالی نے ادبی تحقیق ومسائل پر لکھتے وقت اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے انہوں نے اس کتاب کے مضمون ڈاکٹر گیان چند اورقاضی عبدالودود کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ نقوی کا مضمون قدرے مغالطہ میں ڈالنے والا ہے کیوں کہ یہ مقالہ دراصل بت شکن محقق کے بعض حصوں پرتبصرہ ہے ۔اس مقالہ کا اختتام ظفر کمالی کے ان جملوں پر ہوتا ہے:’’اس کتاب کے مطالعہ سے فہم وفراست اورمعانی ومفاہیم کے مختلف درکھلتے ہیں،ان کی دی گئی مثالوں سے چشم عبرت بیںبہت کچھ حاصل کرسکتی ہے،تحقیق ذہانت اورفکری بصیرت سے معمور نقوی صاحب کی اس کتاب اوران کی دیگر قابل قدر تصانیف کی روشنی میں انہیں عصرحاضر کی اردو تحقیق کامرد کامل کہا جاسکتا ہے(ص۷)
تیسرا مقالہ تحقیق و تدوین، مسائل و مباحث پر تبصرہ ہے، یہ حنیف نقوی کی تصنیف ہے اور وہ بھی کمال صاحب کی پسندیدہ شخصیتوں میں سے ایک ہیں، ان کی کتاب پر تبصرہ کرتے وقت کمالی صاحب کا قلم ان کی تعریف و توصیف زیادہ کرتا نظر آتاہے، تحقیقی تبصرے کے اس مضمون میں تجزیہ کا عنصر کم، تحقیق کا عنصر غائب اور تائید کا غلبہ ہے۔ اس کے باوجود جہاںکوئی بات سمجھ میں آگئی اس کا ذکرکرنے سے ظفر کمالی نے گریز نہیں کیاہے۔
چوتھا مقالہ قاضی عبدالودود اورگیان چند جین پر ہے جوگیان چند جین کے مضمون ’’قاضی عبدالودود اورمیں‘‘ میں جو غلط فہمیاں گیان چند جین نے قاضی صاحب کے بارے میں پھیلائیں تھی اس پر ظفر کمالی کا یہ تبصرہ ہے ،’’ا س مضمون کے ذریعہ انہوں نے قاضی عبدالودود کا حقائق کی روشنی میں دفاع کیا ہے تاکہ قاری گیان چند جین کے اس مضمون سے گمراہ نہ ہو،اس مضمون کے حوالہ سے گیان چند جین اورقاضی عبدالودود کے درمیان جو مراسلت ہوئی تھی، ظفرکمالی نے علی وجہ البصیر ت اس کا جائزہ لیا اوراس کے مندرجات کو اپنی تشریحات وتوضیحات سے واشگاف کیا ہے،تمام اقتباسات کے محاکمہ کے بعد ظفر کمالی کی رائے ہے کہ گیان چند جین اپنی طالب علمی کے زمانہ میں ہوسٹل میں سورش کرانے پر نکالے گئے تھے،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہوسٹل کے بعد اب وہ ادب میں بھی سورش بریا کرنا چاہتے ہیں۔
پانچواں مقالہ قاضی عبدالودود کی خود نوشت سوانحی خاکہ پر ڈاکٹر محمد محسن کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالا ت کے تجزیئے اوردفاع پر مشتل ہے ،اس مقالہ میں ہندوستانی سیاست کے بعض تاریخی واقعات پر بھی ضمناً روشنی ڈالی گئی ہے ،ظفر کمالی نے اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے جناب امتیازعلی عرشی ،یوسف حسین خاں وغیرہ کی آراء بھی اپنی تائید میں نقل کیا ہے،بعض اعتراضات کو برحق بھی بتایا ہے ،مثلا ان کاحافظہ آخر عمر میں کمزور ہوگیا تھااور انہیں اپنے نانا کے نام کے بارے میں بھی ایک بار مغالطہ ہوگیا تھا،ظفر کمالی نے صحیح لکھا ہے کہ پروفیسر محسن نفسیات کے آدمی ہیں اور ان کو اس فن میں جو مہارت ہے وہ لائق عز وشرف ہے ،اس میدان میں ان کا مقابلہ قاضی عبدالودود اورکلیم الدین احمد نہیں کرسکتے ۔ٹھیک اسی طرح اردو ادب کے میدان میں قاضی اورکلیم صاحبان کا مقابلہ ان کی تحریر یں کبھی نہیں کرسکتیں،اردو ادب میں انکے مقابلہ میںسکہ تو انہیں دونوں حضرات کا چلا ہے اور چلتا رہے گا۔(ص۳۱)
چھٹے مقالہ میں ابوالبرکات کربلائی کی تصنیف’’ مثنوی قطب مشتری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ کو موضوع تحریر بنایاگیا ہے اوراس کتاب کی خامیوں اورکمیوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ،اورلکھا ہے کہ’’ ابوالبرکات کربلائی نوآموز ہیں انہوں نے وہاب اشرفی کے نسخے پر اعتماد کیا حالانکہ اس میں الفاظ کی غلط قرأ ت بھی موجود ہے اورناموزوں اشعار بھی کم نہیں ہیں،ایسے نسخے کوبنیاد بناکر جب لکھنا تھا تو مزید احتیاط کی ضرورت تھی ،لیکن موصوف نے احتیاط کا دامن سرے سے پکڑا ہی نہیں‘‘
اس مقالہ میں ظفر کمالی نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ابوالبرکات کربلائی نے اپنی کتاب میں وہاب اشرفی کی عبارتیں من و عن بغیر حوالہ کے نقل کر لی ہیں،جسے سرقہ بھی کہا جاسکتا ہے،اس کے علاوہ ان کی قلت مطالعہ اورتحقیقی شعور کا یہ حال ہے وہ نثری کتابوں کو شعری کتاب سمھ لیتے ہیں،اورغلط بنیادوں پر تحقیقی کام کو آگے بڑھاتے ہیں،ظفر کمالی نے اپنے مقالہ میں بہت سارے اقتباسات دے کرواضح کیا ہے کہ ’’یہ کتاب جس نیک مقصد کے تحت لکھی گئی تھی اس میں قطعی طور پرناکام ہے،یہ قارئین کو فیض یاب کم ،گمراہ زیادہ کرتی ہے ‘‘
ساتواں مقالہ مدرس ،تدریس اورتحقیق کے حوالہ سے ہے اس مقالہ میں درسیات کی بہت ساری کتابوں میں جو اغلاط ہیں ان کو کھول کر رکھ دیا ہے ،ظفر کمالی واضح کرتے ہیںکہ جن اصحاب کا انتخاب نصابی کتابوں کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے ،ان میں سے اکثر اس کام کے لیے ناموزوں اور غیر مناسب ہوتے ہیں،نصابی کتابوں میں شامل نظموں میںکتابت کی جو غلطیاں در آئی ہیں اس نے مصرعوں کو غیر موزوں اورمعنیٰ کی ترسیل کو دشوار تر بنادیا ہے،جب اساتذہ متن کی خواندگی صحیح نہ کرسکیں تو اوزان ،قافیہ ،ردیف کے بارے میںطلبہ کو بتانا کس قدر مشکل ہوگا،متن کی خواندگی پر اپنے ساتھ گزرا ایک واقعہ برجستہ یاد آگیا کہ بیر ون ملک ایک انڈین اسکول میں ایک صاحب نے میرے سامنے یہ شعر پڑھا
جانا نہ تھا جہاں مجھے سوبار واںگیا
ضعفِ ِقوی سے دست بدیوارواں گیا
میں نے پوچھا :حضوریہ ضعفِ ِقویٰ کیا چیز ہے ،کہنے لگے بہت کمزوری کے معنیٰ میں ہے ،صفت موصوف ہے اسی لیے تو شاعر دیوار پکڑ کر جارہا ہے ،اب استاذ بھی قُوٰا ور قَوی میں فر ق محسوس نہ کرے تو کار طفلاں تو تما م ہوگا ہی ،ظفر کمالی نے بجا لکھا ہے کہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اغلاط کی طرف بچوں کی رہنمائی کریں ،جو کتابوں میں درج ہوگئی ہیں ، اس کے لیے ضروری ہے کہ استاذ کسی درجہ میں محقق بھی ہو تبھی تو وہ بتا سکے گا کہ ’’نگارشات فارسی‘‘ محمد حسین آزاد کا سفر نامہ نہیں فارسی شعراء کا تذکرہ  ہے ،فرہنگ مصطلحات ٹھگی کو کوئی رشیدحسن خاں کی کتاب کہتا ہے تو استاذ کو جاننا چاہیے کہ اس کتاب کے مصنف علی الٰہ آبادی ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ تحقیقی تبصرے کا یہ مضمون عوامی بھی ہے اور شوق دلانے والا بھی ،اس میں تحقیق ہے ،لیکن قاری کے سر کو بوجھل کرنے والا نہیں،اس لیے عام قارئین کے لیے بھی یہ مقالہ دلچسپی کا باعث ہوگا۔
آٹھواں مقالہ ڈاکٹر محمد حسن کے ڈرامہ ضحاک کے ماخذ کے سلسلہ میں ہے ،ڈراما تو ڈراما ہی ہوتا ہے ،ضحاک معرو ف کردار ہے ،ڈاکٹر محمد حسن نے اس ڈرامہ میں جو مواد استعمال کیا ہے اس کا ماخذ کیا ہے یہ اس مقالہ کا موضوع ہے ،اس ڈرامہ میں بہت سی باتیں طبع زاد ہیں جوکتابوں میں نہیں ملتیں،بعض واقعات کے سلسلہ میں کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ وہ اختر شیرانی کے کتاب کا سرقہ یا چربہ  ہے،یہ بات حقیقت  سے انتہائی دور ہے، ظفر کمالی نے اپنی تحقیق کے مطابق حتمی اورآخری بات یہ لکھی کہ ’’فردوسی کے شاہنامہ کے ابتدائی حصہ میں ضحاک کا جو قصہ بیان ہوا ہے وہ محمد حسن ضحاک کے قصے کی بنیاد ہے، تھوڑی تبدیلیوں کے باوجود اس سے بہت قریب ہے ،سرور سلطانی سے استفادہ کی بات جزوی طورپر ہی درست کہی جاسکتی ہے؛ لیکن یہ بات سوفیصد درست ہے کہ محمد حسن نے کسی سے کوئی سرقہ نہیں کیا ہے‘‘
نواں مقالہ بزم فرح ناٹک معرو ف بہ فرخ سبھا حافظ کی تحقیق پر مبنی ہے ، اس مقالہ میںظفر کمالی نے حافظ محمد عبداللہ کے اس ڈرامے پر تحقیقی روشنی ڈالی ہے اوران کے مختلف کرداروں کاتذکرہ کیا ہے ،اوراس کی تلخیص پیش کی ہے ،اس ذیل میں امانت اورحافظ کے ڈراموں سے درج اشعار پیش کرکے اس پر امانت کے اثرات کو بھی واضح کیا ہے ،اوراس ڈرامہ کی خامیوں پر بھی روشی ڈالی ہے ، اورحافظ کے اس قول کی تردید کی ہے کہ ’’فرق شاعری وبیان کے اعتبار سے پارسیوں کی فر خ سبھا ز میں ہے ،تویہ آسمان (ص ۲۰۷)
اس کتاب کا دسواں مقالہ’’ ڈرامہ اورا سٹیج ‘‘کے نام سے ہے ،اس مقالہ میں ڈارمہ کی حقیقت اوراسٹیج سے اس کے تعلق پر ظفر کمالی نے گفتگو کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ڈرامہ اسٹیج کا فن نہیں ہے اوریہ بھی صحیح نہیں ہے کہ کاغذ کے صفحات پر ڈرامے کے الفاظ بے روح اور جامدنقوش سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ڈرامہ اور اسٹیج دونوں الگ الگ چیز ہے ،بقول ظفر کمالی ’’حقیقت یہ ہے کہ دونوں بالکل علاحدہ علاحدہ  چیزیں ہیں،ان کا آپسی رشتہ ضرور ہے مگر گوشت اورناخن کا نہیں ،اسٹیج ڈرامے کا دست نگر اورمحتاج ہوسکتا ہے اور ہے ؛لیکن ڈرامہ اسٹیج کا نہیں (ص۲۱۳)
اس کتاب کا آخری مقالہ گلستاں کاباب پنجم اور پروفیسر کبیر احمد جائسی ہے، اس مقالہ میں کبیر احمد جائیسی کے خیالات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان خیالات کی تردید کی گئی ہے ،جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس باب کی مشہور حکایتوں میں سعدی نے ایسے مطالب تحریر کیے ہیں کہ ہمارے دور میں ننگوں کا کلب قائم کرنے والے لوگ بھی اس طرح کے مطالب معرض تحریر میںنہیں لائیں گے ۔اس مقالہ میںظفر کمالی نے گلستان باب پنجم کی تما م کہانیوں کا جائزہ لے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کہانیوں میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ اس کے بارے میں اس قسم کے ا انتہائی نازیبا کلمات کہے جائیں،انہوں نے لکھا ہے کہ
’’ شیخ سعدی اردو کے ترقی پسند وں سے کئی سوسال پہلے اپنے عہد کے سب سے بڑے ترقی پسند ادیب وشاعر تھے ،آج ہم انہیں ترقی پسندوں کا امام بھی کہہ سکتے ہیں،اس حیثیت سے اگر شیخ سعدی کا جائزہ لیاجائے تو تفہیم کی کئی راہیں روشن ہوں گی (ص ۲۴۰)
مختصر یہ کہ ظفر کمالی نے اپنے تبصروں میں جو تحقیق کے فن کو برتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے،اس طرح محنت اورجانکاہی کے ساتھ لکھنے والے ختم تو نہیں، کم ہوتے جارہے ہیں ،یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ان کی خدمات کا اعتراف ادب اطفال کے حوالہ سے کیا گیا اور انہیںساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا ،ہم انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور صحت وعافیت کے ساتھ ان کی درازئی عمر کی دعا کرتے ہیں ،آمین یارب العالمین

متعلقہ خبریں

Back to top button