مضامین

روزے کی طبی وسماجی جہتیں

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

رمضان المبارک کے روزوں کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، اس کی اہمیت کی تین جہتیں ہیں، پہلی جہت یہ ہے کہ روزہ اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ہے اور اس کی ادائیگی تمام مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، کے لئے ضروری ہے۔ حاملہ، دودھ پلانے والی ، حیض و نفاس والی اور مسافر شرعی کے لئے روزہ کو مو خر کرنے اور بعد میں ادائیگی کی گنجائش ہے، ان اعذار کی وجہ سے روزہ ساقط نہیں ہوتا، صرف رمضان میں نہ رکھ کر بعد کے دنوں میں رکھنے کی سہولت مل جاتی ہے، یہی حال مریض کا ہے، اسے بھی بعد میں صحت یاب ہونے پرروزہ کی قضاکرنی ہوتی ہے۔ اگر کوئی مریض ایسا ہو ، جس کے مستقبل میں صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو یا اس قدر بوڑھا ہو کہ روزہ رکھنے سے اس کی جان پربَن آنے کا اندیشہ ہو تو ایسے مریضوں اور بوڑھوں کے لیے روزے کی قضا کے بجائے شریعت میں فدیہ کی سہولت موجود ہے ، فدیہ ایک روزہ کا ایک صدقہ فطر کے بقدر ہے ،البتہ اس فہرست میں وہ لوگ نہیں ہیں جو اصلاً مریض نہیں ہوتے، روزہ رکھنے کے ڈر سے مریض ہوجاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اللہ رب العزت دلوں کے احوال سے واقف ہے۔ ایسے لوگوں کو جان اور سمجھ لینا چاہیے کہ برکت اور فضیلت والے یہ شب و روز گذر گئے تو اس کی واپسی اگلے سال ہی ہوپائے گی اور اگلا سال کس نے دیکھا ہے، موت کب آئے گی، کس کو پتہ، اس لیے ان ایام کی قدر کرنی چاہیے، روزہ، تراویح، تلاوت قرآن، تہجد، اوراد و اذکار،اعتکاف، خیر کے کاموں میں مشغولیت، شر کے کاموں سے اجتناب میں رمضان المبارک کے اوقات کو گذارنا چاہیے۔ یہ چند ہی ایام تو ہیں، دو عشرہ گذر گیا، ہم تیسرے میں داخل ہوگئے۔ اللہ کی رحمت ،مغفرت کے بعد یہ تسرا عشرہ جہنم سے گلوخلاصی کاشروع ہوگیا ہے۔ یہ آخری عشرہ پہلے دونوں عشرہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے، اسی عشرہ میں شب قدر کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے جو اس عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوگی، تلاشیئے گا تو پائیے گا، راتیں سو کر گذار دیجئے گا تو محروم رہ جائیے گا، محرومی بھی کیسی؟ ایک ہزار مہینے کی راتوں کی عبادت سے زیادہ کے ثواب سے، لیکن کیا کہیے؟ بہت سارے مسلمانوں پر یہ راتیں بھی یوں ہی گذر جاتی ہیں اور ان کے دل میں اللہ سے قریب ہونے اورگناہوں کی مغفرت کرالینے کا خیال ہی نہیں آتا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے؛ جو رمضان کا مہینہ پانے کے بعد بھی اپنی مغفرت کا سامان نہ کرلے۔ شب قدر یقینی طور پر مل جائے اس کے لئے آخری عشرہ کا اعتکاف بہت مفید ہے۔ جوکوئی 21رمضان کی شب سے علائق دنیا اور مشغولیت کو چھوڑ کریک سوہو کر اللہ کے گھر میں جا بیٹھا اور دس دن مسجد میں رہا، اسے شب قدر کا ملنا یقینی ہے؛ کیوں کہ وہ تو اللہ کے در پر پڑا ہی ہوا ہے، شب قدر اس سے بچ کر نکل ہی نہیں سکتی۔ اور مڑدہ مغفرت یقینی ہے، بشرطیکہ یہ عمل اخلاص، ایمان اور احتساب کے ساتھ کیا جائے، ریاکاری، نمود و نمائش اور شہرت طلبی کا اس میں گذر نہ ہو۔اعتکاف کے معاملہ میں ہمارے یہاں سستی پائی جاتی ہے ، یقینا پورے محلہ اور گاو سے ایک آدمی کا اعتکاف میں بیٹھ جانا پورے محلہ اور گاو ں کو گناہگار ہونے سے بچالیتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ مسجد کے امام کو روپے کی لالچ دے کر اعتکاف کرنے پر مجبور کیا جائے، یا کسی مزدور کو اجرت پر معتکف کیا جائے۔

روزہ کی دوسری جہت طبی ہے، میڈیکل سائنس دانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم کی بہت ساری بیماریاں دور ہوتی ہیں، روزہ معدے کی تکلیف، نظام ہضم، شوگر لیول،کولیسٹرول اور بلڈپریشر کو معتدل رکھتاہے، جس کی وجہ سے دل کے دورہ کا خطرہ کم ہوتاہے، موٹاپے میں کمی آتی ہے اور غیر ضروری چربی سے آدمی کو نجات ملتاہے، انسان اعصابی امراض میں افاقہ محسوس کرتاہے، کھال اور چھاتی کے کینسر کے خطرات میں کمی آتی ہے، معجم الاوسط میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی نقل کی گئی ہے کہ صوموا تصحوا یعنی روزہ رکھو، صحت مند ہوجاو گے، اس حدیث کی شرح میں علامہ عبد الرو وف مناوی نے لکھا ہے ، جسے مشہور کتاب فیض القدیر (ج 4ص 280)میں نقل کیا ہے کہ روزہ روح کی غذا ہے، جس طرح کھانا جسم کی غذا ہے، روزہ رکھنے سے دنیا میں بندے کو صحت و تندرستی اور وافر مقدار میں رزق ملتاہے، جب کہ آخرت میں اسے بڑا ثواب ملے گا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں روح کی گندگیاں اور کثافتیں تو دور ہوتی ہی ہیں، انسانی جسم اور دیگر اعضاءرئیسہ کو بھی بے پناہ فوائد حاصل ہوتے ہیں، جسم سے زہریلے مادہ کا اخراج اعضاءکے نظام کو چست و درست رکھنے میں معاون ہوتاہے۔ یہ روزہ کا ایک اورفائدہ ہے، جس کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے۔ لیکن روزہ اللہ کے لئے ہی رکھنا چاہیے اور فرض کی ادائیگی اور اجر و ثواب کی نیت سے ہی رکھنا چاہیے اس کے علاوہ جو فوائدہیں وہ تو ہر حال میں حاصل ہوکر رہیں گے، اس لیے روزہ کو دوسرے فوائد کے حصول کی نیت سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور اللہ کو اخلاص کے ساتھ کی گئی عبادت مطلوب ہے، چاہے نماز ہو یا روزہ ، زکوٰة ہو یا حج۔ سب اخلاص کے ساتھ ہی ہونی چاہیے۔

روزہ کی تیسری جہت ہمدردی و غم گساری ہے، غرباء، فقراءاور مساکین کی ضرورتوں کی تکمیل ہے، رمضان کے بارے میں حضرت سلمان فارسیؓ کی ایک روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اس میں رمضان کو شہرمواساة یعنی غم خواری کا مہینہ قرار دیاگیا ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ سے زیادہ کسی ماہ میں سخی نہیں ہوا کرتے تھے، مسلمان عام طور سے اسی ماہ میں زکوٰة بھی نکالتے ہیں، یہ بھی ضرورت مندوں کی ضرورتوں کی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہے، اس کے علاوہ رمضان المبارک میں مسلمانوں پر صدقہ فطر کی ادائیگی بھی ضروری قرار دیاگیاہے غم خواری اور ہمدردی کا اظہار بڑے پیمانے پر ہو، اس کے لئے صدقہ فطر عام مسلمانوں پر واجب قرار دیا گیا، اور اس میں روزہ دار غیر روزہ دار بڑے بوڑھے، عورت مرد اور بچوں تک میں تفریق نہیں کی گئی، عید کی چاند رات کو صبح صادق سے پہلے جو بچہ پیدا ہوا، اس کی جانب سے بھی صدقہ فطر کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے، اس کا بڑا مقصد یہ ہے کہ عید کے دن کی خوشیوں میں غرباءو مساکین کی شرکت بھی ہوسکے۔ اور اللہ کی میزبانی کے اس خاص دن میں کوئی مسلمان بھوکا نہ رہے اورضروریات کی تکمیل کے لئے اس کے پاس رقم دستیاب ہو۔ ایک اور مقصد روزہ داروں کی جانب سے صدقہ فطر کی ادائیگی کی شکل میں یہ بھی ہے کہ روزہ میں جو کمی کوتاہی رہ گئی ہو اس کی تلافی صدقہ فطر کے ذریعہ کی جائے، اس سلسلے میں احادیث کی کتابوں میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکینوں کے کھانے اور روزوں کو لغو اور گناہوں سے پاک کرنے کے لئے صدقة الفطر کو لازم کیا ہے۔ ظاہر ہے صدقة الفطر مال دینے سے ادا ہوگا تو اس کے لئے مالدار ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام میں مالداری کاتصور بنیادی ضرورت کے سامان مثلاً مکان، کپڑے، سواری، حفاظت کے لئے اسلحے، موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اتنی قیمت سے زیادہ مال کا مالک ہونے سے ہے، صدقہ فطر میں ایک آدمی کی طرف سے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور، پنیر، کشمش، منقی اور جو ادا کرنے کی بات حدیث میں مذکور ہے، نصف صاع موجودہ رائج وزن میں ایک کلو چھ سو بیانوے اور ایک صاع تین کلو تین سو چوراسی گرام کے برابر ہوتاہے۔ یہ اشیاءچاہیں تو صدقہ فطر میں وزن کے اعتبار سے دیدیں، چاہیں تو قیمت ادا کردیں، قیمت ادا کرنا زیادہ بہتر اس لیے ہے کہ روپے کی شکل میں تعاون ہونے سے غرباءاپنی دوسری ضرورتوں کی تکمیل بھی اس رقم سے کرسکیںگے، فقہاءاسے انفع للفقراءسے تعبیر کرتے ہیں۔ قیمت میں اعتبار مقامی بازار کے نرخ کاہوگا، ایک جگہ کی قیمت کا دوسری جگہ اعتبار نہیں ہوگا، اس لیے صدقہ فطر کا اعلان ہمیشہ مقامی ہوا کرتاہے اور مقامی میں بھی قیمت دریافت کرنے میں فرق پائے جانے پر فرق ہوسکتاہے۔ اس لیے اگر ایک شہر میں فطرانہ کی رقم کی مختلف تنظیموں نے الگ الگ مقدار بیان کی ہو تو بدگمانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، قیمت دریافت کرنے پر جو بات سامنے آئی اس کے حساب سے رقم کا اعلان کیا گیا، اللہ رب العزت سے دعاءکرنی چاہیے کہ وہ ہم سب کو رمضان کے فضائل و برکات سے پورا پورا حصہ عطا فرمائے، غریبوں اور محروموں کے لئے زکوٰة، خیرات، صدقات و عطیات سے مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button