تلنگانہ

بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی منسوخ کردی جائے _ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو رکن کونسل کویتا کا مکتوب

*بلقیس بانو عصمت دری معاملہ میں سپریم کورٹ کی مداخلت ناگزیر*

 

*نا انصافی ختم کی جائے، مجرموں کی رہائی کو کالعدم قراردیا جائے*

 

*ایم ایل سی کویتا کا چیف جسٹس آف انڈیا کو مکتوب*

 

حیدرآباد:19 / اگست۔تلنگانہ ٹی آر ایس لیڈر اور ایم ایل سی محترمہ کلواکنٹلہ کویتا نے آج جسٹس این وی رمنا کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ بلقیس بانو عصمت ریزی معاملہ میں مداخلت کرے اور11 مجرموں کی رہائی کو فوری واپس لے۔ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کی عمر21 سال تھی اور وہ 5 ماہ کی حاملہ تھیں جب انہیں وحشیانہ طریقہ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

محترمہ کویتا نے چیف جسٹس سے درد مندانہ درخواست کرتے ہوئے مکتوب تحریر کیا کہ میں آپ کو 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کی عصمت دری کے بارے میں بھاری دل کے ساتھ لکھ رہی ہوں، جہاں گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر 1992 کی پالیسی پر انحصار کرتے ہوئے 11 مجرموں کو رہا کیا تھا، جبکہ ریاستی حکومت کی 2014 کی نظرثانی شدہ پالیسی کے مطابق انہیں معافی کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔

عصمت دری جیسے جرائم ہمارے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور سزا یافتہ زانیوں کو ایک ایسے دن آزادانہ طور پر باہر نکلتے دیکھ کر جو کہ ہمارا یوم آزادی ہے ، ہر عورت اور ہر اس شہری کا دل کانپ اٹھا، جو ملک کے قوانین پر اپنا یقین رکھتا ہے۔ انہو ں نے کہاکہ ہمارے ملک کا نظام انصاف پر مبنی ہے۔انہوں نے متعلقہ تکنیکی اور قانونی نکات پر روشنی ڈالی اور نشاندہی کی کہ ”اس کیس کی تحقیقات سنٹرل بیورو آف انویسٹیگیشن (سی بی آئی) نے کی تھی۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ان مجرموں کو سزا سنائی تھی۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 435 (1) (a) میں کہا گیا ہے کہ ماسوا مرکزی حکومت سے مشاورت کے ریاستی حکومت کے کسی بھی معاملے میں سزا کو معاف کرنے یا اس میں کمی کرنے کا اختیار ریاستی حکومت استعمال نہیں کرے گی ، جس کی جانچ سی بی آئی نے کی ہو۔

انہوں نے استفسار کیا اور ریمارک کیا کہ ”یہ واضح نہیں ہے کہ کیا 11 مجرموں کی رہائی، مرکزی حکومت کے ساتھ مشاورت سے کی گئی تھی۔انہوں نے مناسب طور پر نشاندہی کی کہ ”اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ 1992 کی پالیسی کو 2014 کی پالیسی سے بدل دیا گیا تاکہ ریاستی حکومت کی معافی کی پالیسی کو مجرمانہ معاملے میں سپریم کورٹ کے 20 نومبر 2012 ء کے فیصلے سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ اپیل نمبر 2011 کے 490-491، جہاں سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ مناسب حکومت کے معافی کے اختیارات کو من مانی طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئیے اور مذکورہ طاقت پر کچھ موروثی طریقہ کار اور ٹھوس جانچ پڑتال کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہئے۔ ایم ایل سی کویتا نے مزید کہاکہ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ ”کیا 11 مجرموں کو رہا کرتے وقت مذکورہ بالا طریقہ کار اور ٹھوس جانچ پڑتال کو مدنظر رکھا گیا تھا”۔

رکن کونسل نے سی جے آئی کو لکھے گئے مکتوب کا اختتام نہایت ہی مخلصانہ انداز میں کیا کہ بلقیس بانو اس وقت 21 سال اور 5 ماہ کی حاملہ تھیں جب ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی۔اور یہ کیسے برداشت کیاجائیگا کہ وہ جشن یوم آزادی کے موقع پر زانیوں کو معافی کے ساتھ آزاد ہوتے ہوئے اور پھر ان کا بہترین انداز میں استقبال کیا جاتا ہوا دیکھے۔

انہوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرکے مذکورہ مجرموں کی رہائی کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے اور ہمارے قوانین اور انسانیت پر قوم کے اعتماد کو برقرار رکھے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button