جنرل نیوز

سرمایۂ ملّت کا نگہبان [ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے بارے میں چند خوش گوار یادیں ]

محمد رضی الاسلام ندوی 

 

آج سہ پہر استاذ گرامی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی وفات کی خبر کیا ملی کہ دل کی دنیا ویران ہوگئی – یوں تو ان کی طبیعت کافی دنوں سے خراب تھی ، اتار چڑھاؤ رہتا تھا ، نقاہت برابر بڑھتی جارہی تھی ، لیکن چند ایّام قبل ، جب اپنے وطن رائے بریلی میں تھے ، اچانک طبیعت زیادہ بگڑ گئی ، وہاں سے لکھنؤ لاکر داخلِ اسپتال کیے گئے – شفا یابی کی تمام انسانی تدابیر جاری تھی کہ وقتِ موعود آپہنچا – انا للہ وانا الیہ راجعون –

إنّ العَيْنَ تَدْمَعُ ، والقَلْبَ يَحْزَنُ ، ولا نَقُولُ إلّا ما يَرْضى رَبَّنَا ، وإنّا بفِراقِكَ لَمَحْزُونُونَ …

 

23 نومبر 2022 میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں مجلس تحقیقات شرعیہ کا سمینار تھا – اس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا تھا – افتتاحی اجلاس کی صدارت مولانا کو کرنی تھی – ان کا انتظار ہوتا رہا ، لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے – بالآخر مولانا بلال حسنی نے ان کا تحریر کردہ صدارتی خطبہ پڑھا – اجلاس ختم ہونے کے بعد میں مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا ، مزاج پُرسی کی اور دعائیں لیں – یہ مولانا سے میری آخری ملاقات تھی –

 

مولانا رابع صاحب کی وفات ملّت اسلامیہ کا بہت بڑا خسارہ ہے – ان کی شخصیت نہ صرف ہندوستان ، نہ صرف عالم اسلام ، بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرجع تھی – تمام طبقات اور مسالک و مشارب کے مسلمان ان پر اعتماد کرتے اور انہیں اپنا رہبر و رہ نما تسلیم کرتے تھے – ندوہ میں انھوں نے طویل عرصہ تدریس کی خدمت انجام دی ، پھر متعدد انتظامی مناصب بھی سنبھالے ، آخر میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد وہاں کے ناظم بنائے گئے – اسی طرح قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی وفات کے بعد مسلمانانِ ہند کے موقر ترین ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی صدارت بھی انہیں تفویض کی گئی – اپنی پیرانہ سالی اور طبیعت کی ناسازی کے باوجود وہ یہ دونوں ذمے داریاں زندگی کی آخری سانس تک بہ خوبی انجام دیتے رہے – اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے ، ان کے اجر سے نوازے ، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ، آمین یا رب العالمین !

 

مولانا کی وفات کا غم شدید ہے – اس کا اندازہ دنیا کے کونے کونے سے موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے – مجھے فخر ہے کہ میں بھی مولانا کے ہزاروں شاگردوں میں سے ایک ہوں اور میں نے ان کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کیا ہے ، اس بنا پر ان کی وفات ذاتی طور پر میرے لیے بھی بڑا صدمہ ہے – دل بے قرار ہے – مولانا سے اپنے قریبی تعلقات کا کچھ تذکرہ کرلوں تو شاید کچھ سکون حاصل ہو –

 

* ندوہ میں میرا داخلہ 1975 میں ہوا اور میں نے وہاں آٹھ برس گزارے – ابتدا میں دوٗر سے انہیں دیکھا کرتا تھا ، پھر وہ وقت بھی آیا جب کلاس میں ان سے پڑھنے کا موقع ملا – ان کے ذمے عربی ادب کی گھنٹی تھی اور وہ اپنی کتاب ‘الادب العربی بین عرض و نقد’ کی روشنی میں درس دیا کرتے تھے – مولانا کی فنّی مہارت کے ساتھ تواضع ، سنجیدگی ، شرافت اور طلبہ سے محبت و شفقت کا نقش اسی زمانے میں دل پر قائم ہوگیا تھا ، جو ندوہ سے فراغت کے بعد اور بھی گہرا ہوتا گیا – اب یاد کیا تو دورانِ طالب علمی کے کچھ واقعات ذہن کے پردے پر ابھر آئے ہیں اور تقاضا کررہے ہیں کہ ان کا اظہار کروں :

 

* میرے والد مرحوم ندوہ میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے آتے رہتے تھے اور میری تعلیمی پیش رفت کا قریب سے معاینہ کرتے تھے – انہیں دمہ کا مزمن مرض تھا – کھانسی دورہ کی شکل اختیار کرلیتی تھی – ایک مرتبہ فجر کی نماز میں شاید انہیں زیادہ کھانسی آگئی – ندوہ کے ایک جلالی استاد نے انہیں کچھ سخت سست کہہ دیا – والد صاحب نے تو وہیں کھڑے کھڑے اپنی دیہاتی زبان میں بدلہ لے لیا ، لیکن مجھ سے برداشت نہ ہوا – میں نے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ فلاں استاد نے میرے والد کی توہین کی ہے – انھوں نے میری شکایت بہت توجہ سے سنی ، استاد مذکور کے نامناسب رویّہ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اپنے والد صاحب سے کہیے :” میں اس پر ان سے معافی مانگتا ہوں -”

 

* ہر برس فضیلت کے آخری سال کے طلبہ کو الوداعیہ دیا جاتا تھا – اس کا انتظام فضلیت اوّل کے طلبہ کرتے تھے – بھائی عبد الحی ان دنوں عربی مجلہ البعث الاسلامی سے وابستہ تھے ، اس لیے ندوہ پریس کے عملہ سے ان کے تعلقات تھے – ہم نے سوچا کہ اساتذہ کی خدمت میں دعوت نامہ چھپوا کر پیش کیا جائے – چنانچہ اچھے کاغذ پر چھپواکر اسے تقسیم کیا گیا – تھوڑی دیر میں ہرکارہ نے آکر خبر دی کہ مولانا رابع صاحب نے بلایا ہے – ہاتھ پیر پھول گئے کہ پتہ نہیں ، کون سی خطا سرزد ہوگئی ہے – ڈرتے ڈرتے حاضری دی – دیکھتے ہی مولانا برس پڑے : "آپ کے دل میں استاد کا احترام نہیں ہے – آپ نے انہیں صرف ‘استادِ محترم و مکرم’ لکھ کر مخاطب کیا ہے -” خاموشی میں عافیت تھی ، ورنہ اُس وقت سمجھ میں آیا تھا نہ اب کہ طویل القاب و آداب سے گریز کرکے اگر صرف ‘استادِ محترم و مکرم’ لکھا جائے تو اس سے کیوں کر استاد کی توہین لازم آتی ہے؟! دوسری بات مولانا نے یہ فرمائی کہ آپ لوگوں نے دعوت نامہ چھپوایا ہے – یہ فضول خرچی ہے – ندوہ پریس سے یہ مفت چھپوایا گیا ہے تو بھی غلط ہے اور اس کی اجرت ادا کی گئی ہے تو بھی غلط ہے – مولانا کا پڑھایا ہوا یہ سبق ذہن پر اس طرح نقش ہوا کہ آج تک رف کاغذات پر مقالات لکھنے کی عادت بنی ہوئی ہے –

 

* ایک برس بعد ہم فضیلت دوم میں پہنچ گئے اور ہمارے الوداعیہ کا موقع آگیا – میں نے سوچا کہ الوداعی تاثرات پیش کرنے میں کوئی جدّت اختیار کرنی چاہیے – ذہن نے سُجھایا کہ عربی میں منظوم تاثرات پیش کیے جائیں – چنانچہ کچھ تُک بندی کی ، لیکن اطمینان نہیں ہوا – سوچا ، کسی استاد سے اصلاح لے لوں – آج سوچتا ہوں تو اپنی جسارت پر ہنسی آتی ہے کہ اپنا لکھا ہوا قصیدہ لے کر مولانا کے پاس پہنچ گیا – انھوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی جابجا اصلاح کی – پھر تو خود اعتمادی عروج پر پہنچ گئی – حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی صدارت میں الوداعی پروگرام منعقد ہوا – میری زبان میں لکنت تھی ، اس لیے میرا قصیدہ بھائی آفتاب عالم نے پیش کیا – اسے بہت پسند کیا گیا – مولانا علی میاں کے چہرے پر بھی بشاشت آگئی ، جسے دیکھ کر میرا دل خوشی سے بلّیوں اچھلنے لگا – بعد میں ندوہ کے استاد مولانا محبوب الرحمٰن ازہری نے اس قصیدہ کو مجھ سے لے کر اپنے دوست جناب ابو محفوظ کریم المعصومی (کلکتہ) کے پاس بھیج دیا ، جو عربی زبان کے بہت بڑے ادیب اور شاعر تھے – انھوں نے اس کی ہیئت ہی بدل دی – لیکن یہ میرے ہی نام سے ندوہ کے عربی جریدہ پندرہ روزہ الرائد میں ‘ضریبۃ الحب’ کے عنوان سے طبع ہوا –

 

* ندوہ سے فراغت کے بعد رابطہ ادب اسلامی کے متعدد سمیناروں میں شرکت کا موقع ملا – وہاں مولانا سے ضرور ملاقات ہوتی – میں کچھ لکھنے لگا تھا اور میری کتابیں شائع ہونے لگی تھیں – انہیں مولانا کی خدمت میں پیش کرتا تو بہت خوشی کا اظہار کرتے اور دعائیں دیتے – ایک موقع کی خوش گوار ملاقات اب تک یاد ہے – مولانا محمد تقی الدین ندوی حفظہ اللہ کے مدرسہ جامعہ اسلامیہ اعظم گڑھ میں ایک سمینار تھا – افتتاحی اجلاس کے بعد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا – استاد محترم مولانا واضح رشید ندوی بھی موجود تھے – مولانا رابع صاحب نے فرمایا : "رضی الاسلام تو اپنے آدمی تھے – ” مولانا واضح صاحب نے معمولی ترمیم کے ساتھ جملہ دہرایا : "رضی الاسلام اپنے آدمی ہیں -” کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود ان جملوں کی لذّت اب بھی محسوس ہوتی ہے –

 

* ادارۂ تحقیق و تصنیفِ اسلامی علی گڑھ سے میری وابستگی 1994 میں ہوگئی تھی – اس کا ترجمان سہ ماہی تحقیقات اسلامی مولانا کی خدمت میں بھیجا جاتا – ملاقات پر وہ اس کا تذکرہ ضرور کرتے اور اس میں شائع ہونے والے میرے مضامین کی ستائش کرتے – 2006 میں اس کی اشاعت کو 25 برس مکمل ہوئے تو مدیر مجلہ اور سکریٹری ادارہ مولانا سید جلال الدین عمری کے مشورے سے یہ پروگرام بنایا گیا کہ ملک و بیرونِ ملک کے معروف اہل علم سے مجلہ کے بارے میں تاثرات حاصل کیے جائیں – مولانا کی خدمت میں بھی خط بھیجا گیا – انہوں نے از راہِ نوازش اپنے قیمتی تاثرات ارسال فرمائے ، جو خصوصی شمارے میں شامل کئے گئے –

 

* چند برس قبل جماعت اسلامی ہند کی جانب سے ‘مسلم پرسنل لا بیداری مہم’ منائی گئی – اس موقع پر جماعت کے ذمے داروں کی جانب سے مجھے ایک تعارفی کتابچہ تیار کرنے کو کہا گیا – میں نے اسے تیار کیا تو خیال آیا کہ اگر اس پر استاد محترم سے ، جو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر ہیں ، مقدمہ لکھوایا جاسکے تو اسے اعتبار و استناد حاصل ہوجائے گا – برادر محترم جعفر مسعود حسنی ندوی ، جو میرے کلاس فیلو ہیں ، کے تعاون سے یہ کام بہ سہولت ہوگیا اور کتابچہ مولانا کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوا – اسے مہم کے دوران میں بہت بڑی تعداد میں چھپواکر پورے ملک میں تقسیم کیا گیا – اس کے بعد مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے بھی ‘عائلی زندگی کے اسلامی اصول’ کے نام سے اس کی اشاعت ہوئی – اس کا انگریزی ترجمہ بھی طبع ہوا – اب تک ان دونوں کے کئی اڈیشن نکل چکے ہیں –

 

* گزشتہ برس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس کان پور میں بورڈ کے میقاتی ارکان کا اضافہ کیا گیا تو مجھے بھی اس کی رکنیت کا شرف بخشا گیا – اس کے بعد اس کی دار القضاء اور تفہیم شریعت کمیٹیوں کی تشکیلِ نو ہوئی تو اس میں بھی مجھے شامل کیا گیا – میں سمجھتا ہوں کہ یہ استاد محترم اور دیگر ذمے دارانِ بورڈ کے مجھ پر اعتماد کا مظہر ہے – اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اس اعتماد پر کھرا اترنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین –

متعلقہ خبریں

Back to top button