جنرل نیوز

ووٹ دینے سے قبل امیدواروں کا باریکی سے جائزہ لینے سید بندگی بادشاہ قادری کا عوام کو مشورہ 

سیاسی جماعتوں کا انتخابی منشور ”پائیدار ترقی کا ضامن“ہونا چاہیے 

عوام کو ووٹ دینے سے قبل امیدواروں کا باریکی سے جائزہ لینے سید بندگی بادشاہ قادری کا مشورہ 

ریاست میں مجوزہ عام انتخابات کے زور و شور کو دیکھتے ہوئے رکن ریاستی وقف بورڈ ابو الفتح سید بندگی بادشاہ قادری نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات کو ”شعبدہ بازیوں“ سے پاک رکھیں اور شفاف نیز قابل عمل انتخابی منشور جاری کریں جوکہ بلا لحاظ مذہب عوام کی جامع ترقی اور ان کے خوشحال مستقبل کا ضامن بن سکے۔

سید بندگی بادشاہ قادری نے آج شہر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ منشور کھوکھلے اعلانات پر مبنی نہ ہو بلکہ نوجوانوں کے لیے روزگار کا ضامن ہو‘اقل ترین امدادی اجرتوں میں اضافہ کا محرک بنے‘لااولاد ورکرس کے لیے منفعت بخش رہے ساتھ ہی ساتھ جامع دیہی ترقیات کو یقینی بنانے والا ہو اور سب کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کی گنجائش کا حامل رہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بتایا کہ منشور چھوٹی معیشتوں کے فروغ اور مکانات کی تعمیر میں سہولت بہم پہنچانے والا ہو جس سے کہ ریاست میں رہنے والے خاندانوں کو کہنہ امراض اور ناخواندگی کی مار سے بچایا جاسکے۔

وبقول سماجی جہت کار و سابق بانی ٹی آر ایس پارٹی فرحت ابراہیم ”منشور ایسا ہو جس میں ایک معاشرہ‘ ریاست اور ملک بامقصد اور پائیدار مستقبل کی طرف گامزن ہوں اور اگر ایسا نہ ہوا تو سارا معاشرہ جنگل میں تبدیل ہوجائے گا۔“

موازنہ کرنا:

چونکہ انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور اگلے ماہ عوام اپنے حق رائے دہی کا ایک بار پھر استعمال کرنے جارہے ہیں میری ناقص رائے یہی ہے کہ عوام لازماً اپنا محاسبہ کریں اور حالات کا باریکی سے جائزہ لیں۔ اس سلسلہ میں چند تجاویز آپ کے گوشہئ گذارکررہا ہوں۔تلنگانہ یا کسی اور خطے کے سیاستدانوں کے درمیان موازنہ کرتے وقت چندعوامل کا خاص خیال رکھنا چاہیے جیسا کہ امیدوار کی کارکردگی کیسی ہے اور آیا جو رول اسے دیا جارہا ہے اس کے قابل وہ ہے بھی یا نہیں ہے۔

تلنگانہ کے سیاست دانوں کی کارکردگی کی جانچ کے چند کلیدی نکات درج ذیل ہیں:

1۔ قیادت اور اس کا نظریہ

: ایک مضبوط قیادت قائم کرنے میں سیاست داں کی قابلیت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کی ترقی کے لیے اس کے واضح نظریہ کو ناپا جانا چاہیے۔ ایک لیڈر میں عوام کو متاثر کرکے ایک جامع مقصد کی طرف ان کو راغب کرنے کی اہلیت دیکھی جانی چاہیے۔

2۔ پالیسی ساز اقدامات:

ایک سیاست دان میں پالیسی کو متعارف کرنے اور اس کے ذریعہ ریاست پراثر انداز ہونے کی صلاحیت دیکھی جانی چاہیے۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ آیا وہ اپنی حکمت عملیوں کو موثر انداز میں روبعمل لاسکتے ہیں جس سے کہ کلیدی مسائل جیسے تعلیم‘ صحت عامہ‘ زراعت‘ انفراسٹرکچر‘ روزگار اور سماجی بہبود کی یکسوئی ہوسکے۔

3۔معاشی فروغ:

سیاست داں میں معیشت و فروغ دینے‘ سرمایہ کاری کوراغب کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی جستجو کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک مستحکم ترقیاتی نظام کے لیے معاشی ماحول کو فروغ دینے اور صنعتوں کی سرپرستی کرنے میں ان کے سابق رول کا جائزہ لینا چاہیے۔

4۔ سماجی بہبود

سماجی بہبود سے جڑے پروگرام کو فروغ دینے اور پچھڑے ہوئے طبقات جیسے درج فہرست قبائل اور پسماندہ طبقات کی ضروریات کو موثر انداز میں پورا کرنے کے تئیں سیاست داں کی سنجیدگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ صحت عامہ‘ تعلیم‘ سدباب غربت اورخواتین کو بااختیار بنانے کے لیے سیاست داں کی جانب سے اٹھائے گئے قدم دیکھے جانے چاہیے۔

5۔ انفراسٹرکچر کا فروغ:

سیاست داں میں روڈ ٹرانسپورٹ‘ برقی سربراہی‘ آبی سربراہی نظام اور سڑکوں کا جدید مربوط نظام جیسے انفاسٹرکچر پر توجہ دینے اور اس کی بہتر دیکھ بھال کی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بانے میں اس کو ملی کامیابوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

6۔ حکمرانی اور شفافیت:

ایک امیدوار میں بہتر حکمرانی کی صلاحیت‘اس میں شفافیت اور جواب دہی کا عنصر دیکھا جاناچاہیے۔ کرپشن کے خاتمہ‘ نوکر شاہی کو بہتر بنانے اور عوامی خدمات کو موثر انداز میں بروئے کار لانے کی اس کی صلاحیت دیکھی جانی چاہیے۔

7۔ فروغ ماحولیات

ماحولیات سے جڑے چیلنجس سے نمٹنے‘اس سلسلہ میں پائیدادر استحکام کے اقدامات کو روبعمل لانے اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی سمت امیدوار کی جانب سے روبعمل لائے گئے اقدامات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ تجدید توانائی‘ ویسٹ مینجمنٹ اور اس کے تحفظ کے تئیں سیاست داں کی پالیسیوں کو جانچنا چاہیے۔

8۔عوام سے میل ملاپ اور رابطہ:

سیاست داں میں عوام تک اس کی رسائی‘ان کے مسائل کے تئیں سنجیدگی اور موثر تال میل کی صلاحیت کا جائزہ لینا چاہیے اجلاسوں‘ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمس کے ذریعہ عوام سے رابطہ میں رہنے کی ان کی جستجو کودیکھا جانا چاہیے۔

9۔ سیاسی دیانت داری:

سیاست داں کے اخلاقی معیار اوراس میں جمہوری اقدار کی پاسداری کا جائزہ لیں۔ نظام قانون پر عمل کرنے‘ سب کو ساتھ لے کر چلنے کاجزبہ اور انسانی حقوق کا احترام کرنے میں اس کا ریکارڈ دیکھیں۔

10۔ رائے عامہ اور تجاویز:

حلقہ کے عوام کی رائے‘ رائے دہندوں کی تجاویز‘سماجی تنظیموں‘ جمعیت مفکرین یا میڈیا اداروں کے آزادانہ نظریات کو بھی پیش نظر رکھیں۔

یاد رکھئے!سیاست دانوں کو ان کے وعدوں یا بیانات کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے عمل‘ پالیسیوں اور مثبت نتائج کی بنیاد پرپرکھا جاتا ہے۔ان کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لینا اور تلنگانہ کے عوام کی آرزوؤں کے عین مطابق ان کے عملی اقدامات کا احاطہ کرنا ضروری ہے۔

حاصلِ بحث یہی ہے کہ ہمارے لیے صرف ایک اور نیک ہونے کی دعائیں کرنا کافی نہیں ہو گا بلکہ ہمیں عملی طور پر ٹھوس قدم اٹھانے پڑیں گے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم میدان عمل میں اتریں اور چند اہم فیصلے لیں۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button