مضامین

برصغیر کی باوقار علمی شخصیت مولانا سید جلال الدین عمریؒ کا سانحہ ارتحال _ ملت اسلامیہ عظیم رہنما سے محروم

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 محمد حسام الدین متین

(سینئر صحافی ، نیوز پریزنٹر دوردرشن و آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد)

 

برصغیر کی معروف علمی، دینی ، تحریکی و ملی شخصیت حضرت مولانا سید جلال الدین عمریؒ کا 26اگست 2022 کو نئی دہلی کے الشفا ہسپتال انتقال ہوگیا۔ وہ گزشتہ ایک سال سے علیل تھے، درمیان میں صحت کچھ بہتر ہوئی لیکن اس بار جو صحت خراب ہوئی تو پھر دار فانی سے دارالبقا کو کوچ کرگئے۔ موت برحق ہے اور وہ ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرتی۔ مولانا سید جلال الدین عمری نے الحمدللہ88 سال کی عمر پائی اور ساری زندگی اقامت دین کی جدوجہد میں صرف کی۔ وہ عالم باعمل تھے ظاہری طور پر بھی پروقار شخصیت کے مالک تھے۔ چہرہ پرنور تھا۔ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتے۔ بلاشبہ انہیں برصغیر کا ایک انتہائی معتبر و مستند عالم دین کہا جاسکتا ہے لیکن اپنے علم پر بالکل بھی زعم نہ تھا۔ ہر ایک سے کشادہ دلی سے ملا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے دین کے بہت سے کام لیے۔ جہاں انہوں نے مسلسل تین میقات 12 سال تک جماعت اسلامی ہند کے امیر کی حیثت سے خدمات انجام دیں وہیں ملی حیثیت میں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدر، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی سپریم کونسل کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور اپنے مشوروں اور رہنمائی کے ذریعہ ان اداروں کا ہمیشہ بھرپور تعاون کیا۔ وہیں علمی حیثیت سے بھی بے شمار کام کرنے کا اعزاز بھی اللہ رب العالمین نے انہیں بخشا۔ مولانا عمریؒ جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ ، سراج العلوم نسوان کالج علی گڑھ کے مینیجنگ ڈائرکٹر رہے اور آخر وقت تک جماعت اسلامی کے قائم کردہ ادارہ شریعہ کونسل کے چیرمین رہے۔ جبکہ بین الاقوامی دینی و فلاحی تنظیموں کے رکن بھی رہے۔ ان سب کے علاوہ مولانا نے تحقیق و تصنیف کے شعبہ میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ سید جلال الدین عمریؒ ایک بلند پایہ مصنف تھے۔ انہوں نے سلگتے ہوئے مسائل پر قلم اٹھایا۔ خاص طور پر خواتین کے حقوق و فرائض پر مولانا نے کئی کتابیں تحریر کیں۔ مولانا کی کتابیں انتہائی سلیس اور عام افراد کو متاثر کرنے والی ہیں۔ ‘‘اسلام کی دعوت ’’معروف و منکر‘‘ ’’عورت اسلامی معاشرے’’ میں ان کی اہم تصانیف میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹی بڑی زائد از 60 کتابیں آپ نے تصنیف کیں جو ملت اسلامیہ کے لیے ان کی جانب سے ایک عظیم تحفہ ہے۔ ان میں سے بیشتر کتابوں کا انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔

مولانا سید جلال الدین عمری کا تعلق جنوبی ہند کی ریاست تاملناڈو سے تھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے جامعہ دارالسلام عمر آباد سے عالمیت و فضیلت کی سند حاصل کی۔ جبکہ مدراس یونیورسٹی سے فارسی و ادب کی ڈگری حاصل کی۔ انگریزی زبان میں بھی انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کیا۔ بچپن ہی سے وہ بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر اور تحریک سے متاثر تھے اور جلد ہی باضابطہ جماعت اسلامی ہند کے رکن بن گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد وہ مرکز جماعت رام پور منتقل ہوئے اور شعبہ تصنیف و تالیف میں خدمات انجام دینے لگے۔ 1987میں ادارہ تحقیق و تصنیف علی گڑھ کے قیام کے بعد سے ہی وہ اس کے سکریٹری رہے اور 2001سے صدر کے عہدہ پر فائز تھے۔ مولانا عمریؒ کو اللہ تعالیٰ نے جہاں بے پناہ تحریری و تصنیفی صلاحیت سے نوازا تھا وہیں تقریری صلاحیت بھی غضب کی عطا کی تھی۔ یوں تو وہ بہت دھیمی آواز میں گفتگو کرتے اور تقریر کی ابتدا بھی دھیمی رفتار سے کرتے لیکن خطابت پر ان کو ملکہ حاصل تھا ۔ اپنی تقریر کو قرآن کی آیتوں اور احادیث کے حوالہ سے ایسے مزین کرتے کہ سننے والوں کے ذہنوں پر بات نقش ہوجاتی۔ ہر عمر کے افراد ، مرد و خواتین، بزرگوں، نوجوانوں، بچوں کے لیے آپ کی تقاریر میں عملی پیغام ہوتا۔ مولاناعمری ؒ کی سیاسی بصیرت بھی غیر معمولی تھی اور ملکی و بین الاقوامی حالات پر بھی مولانا کی گہری نظر تھی۔ اکثر موقعوں پر صحافتی برادری کے لوگ اہم مسائل پر آپ کی رائے جاننے کے لیے بے چین رہتے۔

حالات حاضرہ پر کئی مرتبہ آپ نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں انٹرویوز کے ذریعہ ملت کی رہنمائی کی۔ روزنامہ منصف اور منصف ٹی وی پر بھی مولانا عمری کے کئی انٹرویوز اور بیانات شائع ہوئے ہیں اور براہ راست نشر بھی کئے گئے۔ راقم الحروف نے بھی کئی مواقعوں پر منصف ٹی وی کے لیے مولانا عمری کے انٹرویو لیے۔ اس موقع پر ان کی ذہانت و فطانت کا اندازہ ہوا کہ مولانا صاحب نظر محقق، زمانہ شناس داعی اور ملت کا درد رکھنے والے عظیم قائد ہیں۔ یہ بات بلاشبہ درست ہوگی کہ مولانا عمری کی وفات سے علمی دنیا کا عظیم خسارہ ہوا ہے۔

آ پ کی رحلت پر ملک و بیرون ملک سے تعزیتی پیامات کا سلسلہ جاری ہے اور کئی ایک مقامات پر آن لائن اور آف لائن تعزیتی نشستیں بھی منعقد کی جارہی ہیں۔ بلا لحاظ مسلک و مذہب اس عظیم قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں میں کچھ بیانات کے اقتباسات پیش کرنا چاہوں گا جو ان حضرات نے مولانا سید جلال الدین عمریؒ کی علمی فکری اور علمی خدمات کو خراج پیش کرتے ہوئے بیان کی ہیں۔ مولانا عمری کی رحلت کو اپنے ذاتی نقصان سے تعبیر کرتے ہوئے موجودہ امیر جماعت اسلامی ہند محترم جناب سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ گویا میں دوسری بار یتیم ہوگیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا عمری نے ساری زندگی امت کو مقصد، یکسوئی اور استقامت کا پیام دیا ہے۔ معروف عالم دین و مرکزی سکریٹری جماعت اسلامی ہند ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے کہا کہ علمی دنیا کے لیے مولانا کی رحلت عظیم نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کی تصانیف سے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات نے فائدہ اٹھایا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مولانا عمری کی رحلت کو علمی اور فکری دنیا کے ایک بڑے خلا سے تعبیر کیا۔ مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے مولانا عمری کی رحلت کو پوری ملت کے لیے ایک بڑا خسارہ قرار دیا۔ آل انڈیا مجلس مشاورت کے صدر جناب نوید حامد نے کہا کہ مولانا کی رحلت سے علم و تحقیق کا جو خسارہ ہوا ہے اس کی عنقریب پابجائی ممکن نہیں لیکن ہمیں ہر صورت میں مولانا عمری کے کام کو زندہ رکھتے ہوئے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

مرکز جماعت میں منعقد ہونے والے تعزیتی اجلاس سے جہاں ہر مکتب فکر کے علما و قائدین نے اظہار تعزیت کیا وہیں بیرون ملک سے بھی علمی شخصیات نے اظہار خیال کرتے ہوئے تعزیت پیش کی۔ اس کے علاوہ امام کعبہ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس، علامہ یوسف القرضاوی، عبدالعزیز احمد’ ڈاکٹر اسماعیل ھانیہ، مولانا رابع حسنی ندوی، مولانا سفیان قاسمی، پروفیسر خورشید و دیگر نے بھی اپنے تعزیتی پیامات کے ذریعہ اپنے احساسات روانہ کئے اور مولانا عمری کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ سوشل میڈیا پر بھی سماج کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے دعائے مغفرت کی۔ مولانا سلمان حسینی ندوی، مولانا ارشد مدنی، مولانا محمود مدنی، رکن پارلیمنٹ حیدرآباد و صدرمجلس بیرسٹراسدالدین اویسی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مولانا کی مغفرت و درجات کی بلندی اور لواحقین کے لیے صبر کی دعا کی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولانا سید جلا ل الدین عمریؒ کی تمام دینی سرگرمیوں اور کاوشوں کو قبول فرماتے ہوئے اسے ان کے لیے ذخیرہ آخرت بنادے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ملت اسلامیہ بالخصوص تحریک اسلامی کو ان نعم البدل عطا فرمائے۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 

سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

متعلقہ خبریں

Back to top button