این آر آئی

ریاض میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن کی یوم سرسید تقریب _ ایڈیٹر دی وائر عارفہ خانم شیروانی کی شرکت

ریاض ۔ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کر رہی ہیں تاہم وہ اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گی یہ بات ممتاز صحافی، ایڈیٹر دی وائر عارفہ خانم شیروانی نے ریاض میں ایک انٹر ایکٹیو سشن کے دوران کہی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن (اموبا) ریاض کی دعوت پر “یوم سر سید 2022″ میں شرکت کے لئے ریاض آئی ہوئی ہیں ۔ عارفہ خانم نے مزید کہا کہ ملک میں تمام فرقوں اور مذاہب کی یکساں حصہ داری اور سب ہی کی فلاح و بہبود سے ہی ملک کی فلاح ممکن ہے۔ ان طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود سچائی پر مبنی صحافت کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ حق گوئی اور سچ بولنے والے صرف تین لوگ بھی رہ جائیں تو وہ اپنا کام جاری رکھیں گے اور کوئی بھی طاقت ان کی آواز کو نہیں روک سکے گی۔

 

اموبا ریاض کی جانب سے منعقدہ یوم سرسید میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو عارفہ خانم شیروانی نے ممتاز ہندوستانی بزنس مین جناب ندیم ترین کی قیام گاہ پر اہتمام کردہ انٹرایکٹیو سیشن میں ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں ، منتخبہ این آر آئیز اور چند صحافیوں کے ساتھ ہندوستان کے موجودہ حالات پر تبادلہ خیال کر رہی تھیں۔

 

ہندوستان میں میڈیا کی موجودہ صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے عارفہ نے کہا کہ اقتدار کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ سچائی کی آواز اٹھانے اور اقتدار سے سوال کرنے پر ہمیں ملک دشمن تک قرار دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں سچائی پر ڈٹے رہنا سر پر کفن باندھ کر جنگ لڑنے کے مترادف ہے۔

 

دی وائر اور اسی طرح کے دیگر اداروں کے خلاف سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے آئے دن نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرکے انھیں نشانہ بنائے جانے پر کئے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دی ہے جس کی وجہ سے ہم قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے بچاؤ کے راستے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔

 

ٹرول آرمی کی آن لائن سرگرمیوں اور دھمکیوں کے بارے میں عارفہ نے کہا کہ ہمیں حقیقی دنیا میں اس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آن لائن دھمکیوں کی عادت سی پڑ چکی ہے اور ہم پر اب اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ انھیں جو مشکلات درپیش ہیں اس بارے میں انہوں نے کہا کہ عام طور پر مشکل حالات میں سر پر تلوار لٹکنے کی مثال دی جاتی ہے لیکن ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تلوار ہماری گردن تک آچکی ہے۔ کسی بھی وقت ہمیں گرفتا کیا جاسکتا ہے اور جیل میں بند کیا جاسکتا ہے ، جان لیوا حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایجنسیوں کی چھاپہ ماری اور تفتیش کی تو عادت سی ہو چکی ہے۔

 

دشواریوں ، مصیبتوں اور خطرات کے باوجود ہر طرح کی مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کرتے ہوۓ اپنے فرائض انجام دینا ہی عارفہ خانم شیروانی کا مقصد حیات ہے۔ اپنے بائیس سالہ کیرئیر کے مشکل ترین اسائنمنٹ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے بعد منعقدہ کشمیر اسمبلی انتخابات کےکوریج کے دوران انھیں انتہائی سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ گھر والوں اور دوستوں کے روکنے کے باوجود ملک اور قوم کے تئیں اپنے فرائض کی ذمہ داری کےاحساس نے انھیں حوصلہ دیا اور انہوں نے وادی میں کمیونیکیشن کے تمام ذرائع بند ہونے کے باوجود وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ دورہ کشمیر کے دوران تقریبا” دو ہفتوں تک اپنے گھر والوں سے بھی رابطہ نہ کر پائیں۔ فوج، پولیس اور دیگر ایجنسیوں نے انھیں روکنے کی کوشش کی اور واپس لوٹ جانے کی ترغیب بھی دی لیکن عارفہ زمینی رپورٹنگ کے لئے اپنی ٹیم کے ساتھ وادی کی سرزمین پر ڈٹی رہیں۔ اس دوران گودی میڈیا کے رکن سمجھ کر کچھ لوگوں نے انھیں گھیر لیا تھا لیکن خوش قسمتی سے اسی بھیڑ میں سے کسی نے انھیں پہچان لیا اور اس کی ترغیب پر کسی طرح ان کی جان بچ گئی۔

 

انہوں نے کہا کہ پچھلے آٹھ سال کے دوران میڈیا پر شکنجہ کسنے کی تمام کوششوں کے باوجود متبادل میڈیا کے طور پر جو بہترین صحافت سوشیل میڈیا کے ذریعہ کی جارہی ہے سابق میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے مطابق آزاد ہندوستان میں میڈیا کو مکمل آزادی کبھی حاصل نہیں ہوئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سچائی پر مبنی صحافت کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر سچ بولنے والے تین لوگ بھی اس شعبہ میں رہ جائیں تو سچی صحافت جاری و ساری رہے گی۔

 

عارفہ خانم کا یہ ماننا ہے کہ چند لوگوں کی جانب سے کی جارہی سچی صحافت ہی اصل میڈیا ہے اور گودی میڈیا کو وہ متبادل میڈیا مانتی ہیں۔

 

عارفہ خانم شیروانی کے مقبول ترین انٹرویوز میں ڈبل شری روی شنکر کا انٹرویو بھی شامل تھا اور انہوں نے عارفہ کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ درج کیا تھا ۔انہوں نے انکشاف کیا کہ روی شنکر وہ مقدمہ ہار چکے ہیں اور پچھلے ہفتہ ہی انہوں نے اپنا مقدمہ واپس لے لیا ہے۔

 

مسلمانوں کے اپنے میڈیا کے نظریہ کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سچا میڈیا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ایسا میڈیا جو تمام مظلوموں کی یکساں نمائندگی کرے۔ ایسا میڈیا جو پسماندہ طبقات، قبائیل، تمام اقلیتوں، عورتوں اور نوجوانوں کی نمائندگی کرے۔

 

دی وائر کو ہندوستانی عوام کا نمائندہ پلیٹ فارم قرار دیتے ہوئے انہوں نے اس کے استحکام کے لئے عوام سے تعاون کی اپیل کی۔

 

یوم سر سید کے دوسرے مہمان ہندوستانی ہاکی ٹیم کے سابقہ کیپٹن ظفر اقبال نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کھیلوں کی سہولیات پر روشنی ڈالی۔

 

ابتدا میں صدر اموبا ریاض جناب ابرار حسین نے خیرمقدمی تقریر میں مہمانوں کا تعارف پیش کیا جبکہ اس نشست کے میزبان ممتاز بزنس مین ندیم ترین نے ہدیہ تشکر پیش کیا ۔ انجنئیر مرغوب محسن نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button