مضامین

شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے. مدارس کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار کون ہیں؟

عبدالغفارصدیقی
چیرمین راشدہ ایجوکیشنل اینڈ سوشل ٹرسٹ
9897565066
کسی زمانے میں مدرسہ کا لفظ لائق تکریم تھا۔مدرسہ کی عمارت کو عقیدت کی نظر دیکھا جاتا تھا،وہ چاہے عبدل ہو یا رام لعل دونوں صبح صبح بغل میں بستہ دبائے مدرسے کو جارہے ہوتے تھے۔یہ اس زمانے کی بات تھی جب مدارس میں عصری مضامین کی تعلیم ہوتی تھی۔اس لیے کہ رام لعل دینی تعلیم اور قرآن و حدیث پڑھنے نہیں جاتا تھا۔وہ تو حساب،سائنس،جغرافیہ اور تاریخ کی کتابیں پڑھنے جاتا تھا۔اس وقت ذریعہ تعلیم اردو تھا۔سرکاری دفاتر میں اردو ہی تسلیم شدہ زبان تھی۔مدارس کے علاوہ تعلیم کا نظم خال خال تھا۔مولوی صاحب،منشی جی اور حافظ صاحب ہر قابل ذکر آبادی میں موجود تھے۔اس لیے رام لعل کی مجبوری تھی کہ اسے علم کے حصول کے لیے ان حضرات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا ہوتا تھا۔
کسی بھی ادارے کی جانب وہی انسان رخ کریں گے جن کی دل چسپی اور ضرورت کا سامان وہاں ہوگا۔آزادی کے بعد مدارس اور اہل مدارس نے عوام کی ضرورتوں اور دل چسپیوں کے بجائے اپنی ضرورتوں اور دل چسپیوں کا اہتمام کیا۔کچھ دن تک اردو میڈیم میں عصری مضامین باقی رہے۔لیکن جلد ہی ہندی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ مل گیا اور تعلیم کا منظر اور پس منظر ہی بدل گیا۔مدارس نے ہندی زبان کو کافروں کی زبان سمجھ کر نظر انداز کردیا۔بلکہ اس کی مخالفت کی۔مسلمان بچے راستہ چلتے وقت زمین پر گرا ہوااردو کا پرچہ اٹھاتے۔اسے آنکھوں سے لگاتے،لیکن ہندی کے پرچے کو روندتے ہوئے نکل جاتے۔ردی خریدنے والے مسلمان دوکاندار، اردو اخبارات کے استعمال میں احتیاط سے کام لیتے،مبادااس میں اللہ اور رسول کا ذکر نہ ہواور ان کی بے ادبی نہ ہوجائے،جب کہ باقی زبان کے اخبارات بلا تکلف استعمال کیے جاتے۔اس رویے نے ہندی زبان کو اچھوت زبان بنادیا۔دوسری طرف حکومت نے ہندی کے نفاذ اور اس کے فروغ میں پورا سرکاری عملہ اور خزانہ لگادیا۔شمالی ہندوستان جہاں اردو کا راج تھا،وہاں سرکاری ملازمت کے لیے ہندی ضروری قرار دے دی گئی ۔ اسکولوں میں ہندی پڑھانے والے اساتذہ آئے،اردو میڈیم کی جگہ ہندی میڈیم نے لے لی۔مسلمان اپنا دین و ایمان بچانے کی فکر میں پڑ کر مدرسوں تک سمٹ گئے۔برادران وطن نے عصری علوم کی تدریس کے لیے سرکاری اداروں کا رخ کیا،اسی کے ساتھ سنگھ کے اسکول تیزی سے بڑھنے لگے۔اردو زبان میں عصری مضامین کی کتابیں بازار سے غائب ہوگئیں۔بیشتر مدارس صرف ناظرہ قرآن مجید اورسی پارے پڑھانے تک محدود ہوگئے،کسی کو توفیق ہوئی تو اردو کی چند کتابیں پڑھادیں،ورنہ وہ بھی نہیں،دینی تعلیم کے نام پر مفتی کفایت اللہ صاحب کے رسالے اور لڑکیوں کو بہشتی زیور کی تعلیم دی گئی۔اب بتائیے اس نصاب تعلیم کے ساتھ رام لعل کس طرح مدرسہ کا رخ کرسکتا تھا۔اس لیے نتیجہ یہی ہوا کہ رام لعل تو گئے ہی،خود عبدل کی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوئیں اس لئے عبدل نے بھی مدرسہ چھوڑ دیا۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صرف چار فیصد مسلم بچے مدرسہ جاتے ہیں۔
مدارس کے تعلق سے یوپی سرکار اور آسام سرکار کے اقدامات پر شور مچانے والوں اور دل گرفتہ ہونے والوں کو یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ آج کے مدارس کیا واقعی اسلامی نظام تعلیم کا مرقع ہیں۔راجناتھ سنگھ،ابوالکلام آزاد،وغیرہ کی مدرسہ میں تعلیم پر سوشل میڈیا پر فخر جتانے والوں کو یہ جائزہ بھی لینا چاہئے کہ آج کے مدارس کیا اس قابل ہیں کہ ان میں غیر مسلم بچے تعلیم حاصل کرسکیں۔غیر مسلک کے بچے تو مدرسے میں گوارا نہیں تو غیر مذہب کے بچے کس طرح گوارا کیے جائیں گے۔مسلکی تعصب کی وجہ سے ہی مدارس کی بہتات ہے۔ایک ایک گاؤں میں چارچار مدرسے ہیں۔
اترپردیش حکومت نے ان مدارس کی تفصیلات طلب کی ہیں جو حکومت سے تسلیم شدہ نہیں ہیں۔اس لیے کہ تسلیم شدہ مدارس کا ڈاٹا تو حکومت کے پاس پہلے سے موجودہے۔تفصیلات میں زمین کی ملکیت،مدرسے کے اخراجات اور آمدنی،اساتذہ کا تقرر،بچوں کے ہاسٹل کا معیار،کہاں سے بچے آتے ہیں،وغیرہ باتیں معلوم کی جائیں گی۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ تفصیلات ہمارے پاس ہونا ہی چاہئیں۔ہمارے مدارس کے کاغذات مکمل ہونے چاہئیں،حسابات آڈٹ کرائے جانے چاہئیں۔داخلہ لینے والے بچوں کی تفصیلات کا ریکارڈ رکھاجانا چاہئیں۔یہ ہماری اپنی ضرورت بھی ہے۔سرکار کے ارادے اور عزائم کیا ہیں؟یہ ہم سب جانتے ہیں۔لیکن ہر شر میں خیر کے پہلو ہوتے ہیں۔کم سے کم اس بہانے ہمارے مدارس کا ڈاکیومینٹیشن ہوجائے گا۔گزشتہ زمانے میں جب حکومت نے مدرسہ ماڈرانائزیشن کی اسکیم شروع کی تھی تو ہمارے مدارس میں عصری مضامین کے اساتذہ مقررہوئے تھے۔اس عمل سے جہاں کچھ لوگوں کو ملازمت مل گئی تھی وہیں مدارس میں ہندی،انگریزی اور دیگر عصری مضامین کا نفوذ ہوگیا تھا۔انشاء اللہ اس مرتبہ بھی خیر کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور سامنے آئے گا۔اس لیے مدارس کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ اپنے کاغذات مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔(راقم اس میں آپ کی جو مدد ہوگی کرے گا)حکومت نے کسی بھی مدرسہ کو بند کرنے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا ہے۔نہ انھیں حکومت سے منظور کرانے کا کوئی حکم آیا ہے۔جب تک ہندوستان کے آئین میں دفعہ 30موجود ہے۔تب تک کوئی حکومت کسی بھی غیر تسلیم شدہ تعلیمی ادارے کو بند کرنے کا حکم نہیں دے سکتی۔لیکن حکومت کو یہ اختیار ہمیشہ رہتا ہے کہ وہ کسی بھی عوامی ادارے کی تفصیلات طلب کر لے۔مگرارباب حکومت کو بھی اپنی نیتیں صاف رکھنا چاہئیں،انھیں مدارس کے سروے سے پہلے اساتذہ کی رُکی ہوئی تنخواہیں ریلیز کرنا چاہئیں۔
گستاخی معاف ہو تو عرض کروں کہ مدارس پر جو یہ حالات آئے ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہم مسلکی بنیادوں پر فرقہ فرقہ ہوئے،ہماری مسجدیں الگ ہوئیں،ہمارے مدرسے الگ ہوئے،ان میں باہمی تعاون کے بجائے عداوت اور رقابت کا رشتہ قائم ہوا۔جس کے نتیجے میں ہم کمزور ہوگئے اور کمزور پرکوئی بھی طاقت ور ہاتھ ڈال ہی دیتا ہے۔بڑے مدارس کا حال تو میں نہیں جانتا۔لیکن چھوٹے مدارس میں حساب کتاب اور ریکارڈ کا معاملہ انتہائی خراب ہے۔زیادہ تر جگہوں پر ہے ہی نہیں،اگر کہیں ہے تو کسی رجسٹر پر پرانے انداز میں لکھا ہواہے۔کسی قسم کا آڈٹ نہیں،ذمہ داروں کے دستخط تک نہیں،بینک اکاؤنٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ بینک میں پیسہ رکھنا ہی مکروہ ہے۔یہ بات میں ہوا میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میں نے خود کئی مدارس کا دورہ کیا ہے اور ان کے ذمہ داران کو متوجہ کیا ہے۔
ہمارے ملی قائدین ہر بار کی طرح اس بار بھی اخبارات کو بیان دے رہے ہیں کہ ہم اپنے مدارس کی حفاظت اپنی جان دے کر بھی کریں گے۔مدرسوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔سرکار کو مدرسوں میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے وغیرہ۔ان بیانات پر کون یقین کرے گا۔عالی جناب آپ بابری مسجد کی حفاظت میں ناکام رہے ہیں، اب آپ پر کوئی بے وقوف ہی بھروسہ کرسکتا ہے۔پھر اس طرح کے بیان دینے کی کیا ضرورت ہے۔آپ مدرسوں کی حفاظت کریں گے تو کس پر احسان کریں گے۔یہ مدرسے آپ کا ذریعہ معاش ہیں اور اپنے کاروبار کی حفاظت ساری دنیا کرتی ہے۔یہ دین کے قلعے نہیں ہیں۔آپ نے ان میں مسلک کی دیمک لگادی ہے۔جس سے اس قلعے کے ستون گھن چکے ہیں اور گررہے ہیں۔اگر یہ قلعے ہوتے تو پھر آپ کی حفاظت کرتے نہ کہ آپ ان کی حفاظت کرتے۔
میری رائے ہے کہ بلا وجہ بیان بازی سے گریز کیجیے۔مدارس کے کاغذات مکمل کیجیے۔اس کے نصاب تعلیم کو اس طرح تیار کیجیے کہ ہر قوم اور ہر مسلک کا طالب علم اس میں داخلہ لے سکے۔انھیں علم کا سمندر بنائیے تاکہ ہر پیاسا اپنی پیاس بجھاسکے،انھیں اپنے اجداد کی جاگیر مت بنائیے بلکہ قوم کا اثاثہ بنائیے۔ وَ َفرِّقْ جَمْعَھُمْ َو شَتِّتْ شَمْلَھُمْ وَزَلْزِلْ اَقْدَامَھُمْ (قنوت نازلہ)(اے اللہ ان (کافروں)کی اجتماعیت ٹکڑے ٹکڑے کردے،ان کی طاقت پارہ پارہ کردے اور ان کے قدم متزلزل کردے) کے وردکے ساتھ ساتھیَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (آل عمران آیت200)(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پا مردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے)پر عمل کیجیے۔
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

متعلقہ خبریں

Back to top button