مضامین

غزل

ذکی طارق بارہ بنکوی

میل کے پتھر پر اپنی آنکھوں کو دھرنا بھول گیا

تو نے مجھے رفتار ہی وہ دی ہے کہ ٹھہرنا بھول گیا

 

اسی لئے کہتا ہوں اونچی پروازوں سے باز آؤ

جو بھی امبر پر جا پہنچا نیچے اترنا بھول گیا

 

آج ہی میں افلاک کی وادی میں اس کو آؤں گا نظر

وہ غلطی سے میرے پروں کو آج کترنا بھول گیا

 

میں نے اس کی عصمت کو محصور کیا محفوظ کیا

میرے ہاتھوں میں آکر اک پھول بکھرنا بھول گیا

 

ایسا نہیں بس مجھ ہی اب اس کی محبت یاد نہیں

وہ بھی اب اے یار گلی سے میری گزرنا بھول گیا

 

اس کی سانسیں لمحہ لمحہ زندگی پاتی جاتی ہیں

تجھ کو دیکھ کے مرنے والا جیسے مرنا بھول گیا

 

میرے بھی دل میں اب اس کو پانے کی حسرت بچی نہیں

وہ بھی میری خاطر شاید آہیں بھرنا بھول گیا

 

میں نے بسا رکھا ہے اس کو اپنی آنکھوں کے اندر

آئینے کے آگے اب وہ پہروں سنورنا بھول گیا

 

اس پر میرے پیار کا ایسا جادو چلا ہے کیا کہئے

اب وہ اپنے وعدے سے بھی یار مکرنا بھول گیا

ذکی طارق بارہ بنکوی

سعادت گنج، بارہ بنکی اترپردیش، بھارت

متعلقہ خبریں

Back to top button