مضامین

پدم شری بیکل اتساہی کی نعتیہ شاعری 

مولانا عبدالواجد رحمانی چترویدی

جمعیۃ علماء لاتیہار 9905337664

بیکل اتساہی بلرام پوری ہندوستان کے ان بڑے شعراء میں ایک تھے جنکی شاعرانہ عظمتوں کے آگے بڑے بڑوں کی جبین نیاز خم ہو جایا کرتی تھیں انکی ادبی خدمات کا دائرہ تقریباً سات دہائیوں پر محیط ھے انھوں اپنی شاعری میں ہندوستان کے مٹی کی خوشبو عام انسانوں کی زندگی کا کرب کسانوں کے مسائل اور گاؤں کی سادہ زندگی کو موضوع سخن بنایا ھے

بیکل اتساہی 1928ءمیں اترپردیش کے ضلع بلرام پورموضع کوگور میں پیدا ہوۓ آپکا پورا نام لودھی محمد شفیع خان تخلص بیکل وارثی ثم اتساہی تھا وارثی سے اتساہی ہونے قصہ بھی بڑا عجیب تھا ایک بار گونڈہ میں ایک بڑا سیاسی جلسہ تھا جس میں وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو تشریف لاۓ بیکل اتساہی نے نہرو کا استقبال اپنی نظم "کسان بھارت کا ” سے کیا نہرو بڑے متاثر ہوۓ اور یہ کہا ‘یہ ہمارا بڑا اتساہی جوان ھے؛ بس اسی دن سے بیکل وارثی بیکل اتساہی ہوگیے۔

بیکل اتساہی پوری دنیا میں ایک قادرالکلام غزل گو شاعر گیت نگار اور نظم نگار کی حیثیت سے معروف ہیں اور آپکا شمار نعتیہ شاعری کی عبقری شخصیات میں بھی ہوتا ھے

بیکل اتساہی کا گھرانہ خالص مذہبی تھا دین اسلام سے تعلق اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ کو گھر کے دینی ماحول سے ہی نصیب ہوئی مزید اس پر یہ کہ حافظ ملت حضرت حافظ عبدالعزیز محدث مرادآبادی کی نگاہ با فیض نےعشق نبوی کے رنگ میں رنگ دیا آپ حضرت حافظ ملت ہی دست حق پرست پر بیعت ہوکر سلسلہ عالیہ قادریہ کے اسیر ہوگیے پھر کیونکر نہ آپ اپنے آقا ﷺ کے دربار میں عقیدت کے پھول بشکل نعت نچھاور کرتے اپنی شاعری کو عشق رسول کے موتیوں سے مزین کرتے اپنی آرزوؤں کو پیکر نعت میں ڈھال کر محبوب رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کرکے دنیا و آخرت کی سعادتیں اپنے نام کرتے۔

بیکل اتساہی نے عشق رسول سے سے سرشار ہو کر اس قدر نعتیں کہی کہ اس صدی کے سب سے بڑے نعت گو شاعر ہو گیے آپ کائنات نعت میں تنہا نظر آتے ہیں جنہیں بارگاہ نبوی میں حمدونعت کے11/مجموعے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ڈاکٹر مشاھد حسین رضوی لکھتے ہیں

بیکل اتساہی شخص طور پر ایک سچے پکے مسلمان تھے صوفی منش صاحب سلسلہ تھے وقت کے عظیم محدث حافظ ملت کے مرید خاص تھے امام نعت مولانا احمد رضا بریلوی کے پیغام عشق کے امین تھے محبت رسول انکی زندگی کا سرمایہ تھا انکی نعتیہ شاعری سرکار دوعالم ﷺسے ان کے بےپناہ اور والہانہ محبت کا آئینہ دار ھے آپ کی شعری کائنات میں 11مجموعوں پر مشتمل نعت وسلام ومناجاجات ومناقب کا اتنا بڑا ذخیرہ اپنی مثال آپ ھے جس سے بیکل اتساہی کی قادرالکلامی روحانی پاکیزگی والہانہ عشق رسول کااظہار ہوتا ھے آپکی نعتوں میں محتاط وارفتگی ھے خلوص وللہیت ھے جذبات کی صداقت ھے احساس کی پاکیزگی ھے۔

بیکل اتساہی ایک عاشق رسول اور مقبول عاشق رسول تھے جنکا عشق بارگاہ رسالت مآبﷺ میں قبول ہوچکا تھا کہا جاتا کہ بغیر سچا عشق کے نعتیہ شاعری کے ساتھ انصاف نہیں کیا سکتا بیکل اتساہی کی نعتیں شرعی معیار پر کھری اترتی ہیں انکی قبولیت کی ایک نشانی یہ بھی ھے کہ جب وہ مشاعرہ پڑھنا شروع فرمایا تو سب سے پہلے نعتیہ مشاعرہ میں نعت رسول پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی اور یہ اتفاق کہیے یا پھر فیصلہ خداوندی کہ آخری مشاعرہ بھی بیکل اتساہی نے نعتیہ مشاعرہ ہی پڑھا خواجہ نگری میں جمعیۃ علماء ہند کا عالمی نعتیہ مشاعرہ جو مورخہ 12نومبر2016ء منعقد ہوا حضرت بیکل اتساہی کی زندگی کا آخری مشاعرہ تھا آپ پر اسی مشاعرے کے بعد فالج کا حملہ ہوا 3دسمبر 2016ءکو آپ اس فانی دنیا سے کوچ کر گیے انا للہ وانا اليه راجعون

بیکل اتساہی جب اشعارپیش کرتے تو سامعین پر وجد طاری ہوجاتا اور سامعین اور اور کی صدا بلند کرنے لگتے آپ کے دل کی کیفیت زبان پر آجاتی تھی اور آپ یوں گویاہوجاتے

میرے احساس کو مولیٰ میرا قاضی کردے

فیصلہ جو بھی ہو منت کش ماضی کردے

اے خدا ایک جھلک ہی کیلیے بیکل ہوں

اپنے محبوب کو میرے لیے راضی کردے

بیکل اتساہی کی نعتیں عقیدے کی ترجمانی کرتی ہیں یقین کو پختگی عطا کرتی ہیں اور محبت رسول مین اضافہ کرتی ہیں

یہی ھے روح ایمان کی کہ ھے میرا نبی زندہ

جو انکے تلوؤں سے مس ہو گئی وہ خاک بھی زندہ

سمجھتا ہی رہا بوجہل مردہ اپنی مٹھی میں

مگر نام لیکر ہوئی ہر کنکری زندہ

آج بیکل صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اپنی شاعری کے ذریعے وہ ہر پل اور ہر لمحہ ہمارے درمیان زندہ ہیں اور انکی زندگی بخشنے والی شاعری سے دنیا استفادہ کرتی رہے گی ۔

بیکل اتساہی نے اردو کے علاوہ ہندی اودھی پوربی اور بھوجپوری بھاشا میں بھی نعت کہے ہیں انکی کلام کا مختصر نمونہ پیش خدمت ھے۔

تو اپنےحمد کا اسلوب انتخابی دے دے

میرے خدا مجھ انداز بو ترابی دے دے

ھےسامنے ابھی الحاد کا در خیبر

طفیل شیر خدا عزم کامیابی دے دے

دھڑکنوں تم ہی کہو وقت وہ کیسا ہوگا

آ ادھر روح کی ہر تہہ میں سمو لوں تجھکو

اۓ ہوا تونے تو سرکار کو دیکھا ہوگا

ان کر پینیاں پرب اورمر جیبئ ھم

زندگی تو کا انمول کر جیبئ ھم

روپ آئینہ ماں سب نکھارت رہیں

اپنے آقا کہ دیکھتئ سنور جیبئ ھم

یہ چند نمونے ہیں انکی نعتیہ کلام کہ بیکل صاحب خود فرما گیے

تجھے خوش قسمتی سے نعت گوئی مل گئی بیکل

قیامت تک رھے گی تیری اچھی شاعری زندہ

 

متعلقہ خبریں

Back to top button