مضامین

لڑکیاں بھاگ رہی ہیں یا ہم خود انہیں بھگا رہے ہیں ؟

ڈاکٹر علیم خان فلکی

جب بھی کسی مسلمان لڑکی کی اسلام سے بغاوت کا قصہ عام ہوتا ہے، ہمارے دانشوروں کے لئے تبصرے کرنے کا موسم ایک بہار کی طرح آجاتا ہے۔ لڑکیوں کے بھاگنے کے وجوہات پر ہر شخص صرف روشنی ہی نہیں بلکہ  Flood lights ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ وہ معاشرے کے ہر ہر شخص کی غلطیوں پر روشنی ڈالتا ہے سوائے اپنی ذات کے۔ اپنا احتساب کوئی کرنا نہیں چاہتا کہ وہ خود کہاں اور کس طرح اِن لڑکیوں کو گھروں سے اور مذہب سے بھاگنے پر مجبور کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ کوئی صاحب فرمارہے ہیں کہ یہ سب کچھ ماں باپ کی تربیت نہ ہونے کے سبب ہے۔ اور کوئی ماڈرن ایجوکیشن، موبائیل، انٹرنیٹ کو اصل لعنت قرار دے رہے ہیں۔ کوئی صاحب دینی تعلیم کے فقدان پر تقریر فرمارہے ہیں تو کوئی چہک چہک کر Conpiracies theories پیش کررہے ہیں۔ یہ تمام تبصرے اپنی ذات کو کِلین چِٹ دینے والے تبصرے ہیں۔ یہ لوگ اصل سبب اس لئے نہیں بتانا چاہتے کہ یہ خود ریڈ ہینڈ پکڑے جائیں گے۔ اگر آپ انہیں اصل سبب بتائیں گے تو ٓآپ کا ساتھ دینے کے بجائے آپ کو شدّت پسند، قدامت پسند، تقریروں کے شوقین، علما کے مخالف وغیرہ کے تنقیدوں سے نوازیں گے، جیسا کہ ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ لڑکیوں کے بھاگنے کا اصل سبب سننے سے اِن لوگوں کو سخت الرجی ہے۔ ایک ہی تالاب کے جب سبھی ننگے ہیں تو کوئی ایک دوسرے کی برہنگی کی طرف انگلی اٹھانا نہیں چاہتے، اس لئے سب مل کر تالاب کے باہر کھڑے لوگوں کو مورودِ الزام ٹھہراتے ہیں۔

 

یقینا ماڈرن ایجوکیشن، موبائیل اور دینی تربیت کی کمی ارتداد کا ایک سبب ہے۔ لیکن اس سبب کے نتیجے میں دین اور ملت سے بغاوت کرنے والی لڑکیوں کا فیصد 10%سے زیادہ نہیں۔ 90%  لڑکیاں جو بھاگ رہی ہیں اس کا سب سے بڑا سبب یہ شادیاں ہیں، لیکن مسلمان ماننا ہی نہیں چاہتے، کیونکہ یہ سسٹم باپ دادا کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ ان کے باپ دادا نے چودہ سو سال پہلے اسلام قبول کیا اور بت پرستی تو چھوڑ دی، لیکن دیوی دیوتاؤں کے طریقوں کو نہ چھوڑ سکے۔۔بلکہ مشرکانہ رسموں کو جاری رکھنے مولویوں سے فتوے لاتے رہے۔۔ یہ سلسلہ اکبراعظم کے دربار سے شروع ہوا جب مہارانی جودھابائی اپنے ساتھ منگنی، سانچق، جوڑے کی رقم، جہیز اور کھانے لے کرآئی۔ درباری علما میں یہ ہمت نہیں تھی کہ بادشاہ سلامت کے سامنے ان غیراسلامی لغو رسموں کے خلاف کوئی فتویٰ دے سکیں۔ اس لئے انہوں نے ان رسموں کی تائید میں شرعی جواز نکالنے شروع کئے۔ کھانے کی دعوتوں کو رسول اللہ ﷺ کی مہمان نوازی سے متعلق حدیثوں سے جوڑا، اور جہیز کو یہ کہہ کر جائز کیا کہ اللہ کے نبیﷺ نے تحفے دینے کی ترغیب دی ہے۔ وہی رامچندرجی سیتا کے جہیز کی سنّت، لارڈ شیوا اور پاروتی کی کھانے کھلانے سنت باقی رہی، جس پر ایک آٹو والا بھی اور ایک کروڑ پتی بھی سارے کے سارے اس کانا دجّالی فتنے میں ڈوب چکے ہیں۔ آج کے ملّاؤں نے اتنا اضافہ کیا کہ ”خوشی سے لینے دینے کی اجازت“ کے ذریعے منشائے شریعت اور سنّت سے فرار ہونے کا ایک چور دروازہ فراہم کردیا، اسی لئے کسی عالمہ یا حافظہ کی بھی شادی بغیر جہیز اور کھانوں کی لعنت کے نہیں ہوسکتی۔ اور یہی وہ چور دروازہ ہے جس سے آج لڑکیاں بھاگ رہی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اِن سوالات پر غورفرمایئے:

 

۱۔لڑکی والوں کو صرف لکھ پتی لڑکا چاہئے

پہلے لڑکے والے جہیز لینے کی ضد کرتے تھے، اب زمانہ اور ہے۔ اب  جبکہ لڑکی والوں کو یقین ہوچکا ہے کہ جہیز اور کھانے نہیں دینگے توبعد میں ان کی لڑکی کا سوشیل اور ایموشنل بلیک میل ہوگا تو وہ لاکھوں خرچ کرنے سے پہلے شرطیں رکھتے ہیں کہ لڑکا ماہانہ ایک لاکھ کماتا ہو، ذاتی گھر ہو، گرین کارڈ یا فیملی اقامہ رکھتا ہو، سسرال میں نوکرانی ہو، کار ہو، کم سے کم نندیں اور دیور ہوں وغیرہ وغیرہ۔ یہ شرطیں اگر کسی بہت ہی خوبصورت اور قابل لڑکی کے لئے ہوں تو بات پھر بھی مناسب تھی، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ لڑکی موٹی ہو، کالی ہو، میٹرک یا انٹر پاس ہی ہو، کرائے کے دو کمرے کے ہی گھر میں رہتی ہو، تب بھی اسے لڑکا مالدار چاہئے کیونکہ وہ خود بھی کمانے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ ایک Buyer’s market ہے۔ لڑکی والوں پر جب پیسہ خرچ کرنا لازمی ٹھہرا تووہ اچھے سے اچھے داماد کو اپی شرطوں پر ہی  خریدنا چاہیں گے۔ اور کیوں نہ خریدیں؟ لڑکی والوں کی طرف سے کھاتے پیتے خاندان کا لڑکا حاصل کرنے کی ضد میں لڑکی کی عمر بڑھتی چلی جاتی ہے، اب وہ لڑکیاں غلط راستوں پر نہیں جائیں گی تو کیا کریں گی؟ کیا یہاں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اگر اس جہیز اورکھانوں کی ہندوؤانہ رسموں کو ”خوشی سے“ کے جواز پر جائز نہیں کیا جاتااور ہر لڑکی بغیر کسی خرچ کے وداع ہوتی تو بالغ ہوتے ہی ہر لڑکی کی شادی ہوجاتی اور کوئی لڑکی غلط راستے پر نہیں جاتی۔

 

۲۔ اب لوگوں کے پاس لڑکی کی شادی کے لئے بیچنے کچھ نہیں رہا۔ مسلمانوں کی حکومتیں ختم ہونے کے بعد جو کچھ مسلمانوں کے پاس رہا، وہ بیٹیوں ہی کی شادیوں پر بِکتا رہا، بڑی بہن کی شادی پر ابّا کی تھوڑی بہت جو زمین تھی وہ بِک جانے کے قصے ہر شخص کی کہانی ہیں۔ لیکن عہدِ حاضر میں جب کہ مسلمانوں کے پاس نہ نوکریاں ہیں، نہ تعلیمی قابلیتیں، نہ کاروبار ہیں نہ وراثتیں، اب بیچنے کچھ نہیں رہا۔ جن لڑکیوں کے باپ یا بھائی نہیں ہیں یا استطاعت نہیں رکھتے، وہ لڑکیاں غلط راستوں پر نہیں جائینگی تو پھر کیا کریں گی؟ ابھی حال ہی میں اردو ٹاتمز29.4.2023  میں شائع ہونے والی خبرمیں مرتد ہوجانے والی لڑکی سمیرہ حنیف نے کہا کہ  اگر میرے مرتد ہوجانے سے اور ایک غیرمسلم سے شادی کرلینے سے میری ماں کا گھرجہیز کی خاطر بکنے سے بچ جاتا ہے، میرے چھوٹے بھائی بہن بے گھر نہیں ہوتے  تو مجھے ہر سزا منظور ہے“۔ اگر ایسی مثالوں کو لکھتے بیٹھیں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے، لیکن کیا اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اصل فساد کی جڑ یہی جہیز اور کھانے ہیں، جو کھلی بدعت ہیں لیکن اِن کو علما نے خوشی سے دینے اور لینے کا جواز پیدا کرکے چندامیروں کو تو خوش کردیا لیکن غریبوں اور مڈل کلاس کی لڑکیوں کو مجبوراً بھاگنے پر مائل کردیا۔

 

۳۔ سسرال میں ذلّت

اگر کوئی باپ جہیز یا کھانے نہ دے، اور بیٹی کو سسرال جاکر پتہ چلے کہ اس کی جٹھانیوں، دیورانیوں یا نندوں کی شادیاں کئی کئی لاکھ کی ہوئی ہیں تو سبھی جانتے ہیں اُس بغیر جہیز کے آنے والی لڑکی کا کیا حشر ہوگا۔اُس کا یہ حشر دیکھ کر چھوٹی بہنوں کے لئے کسی بھی قریبی شہرجا کر ڈگری حاصل کرنے اور ملازمت کرنے اور پھر ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ میل جول بڑھاکر شادی کرلینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہے گا۔ اضلاع سے شہروں میں آکر پڑھنے اور نوکریاں کرنے والی کئی لڑکیوں کی یہی کہانی ہے۔ اگر ان کو روکنا ہے تو پہلے شادی کو سنت کے مطابق کیجئے ورنہ ایسی شادیاں کرنے والے فاسقوں کی شادی کا بائیکاٹ کیجیئے۔

 

۴۔ لڑکیاں تعلیم یافتہ۔۔  لڑکے ان پڑھ

کون اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ آج لڑکیاں، لڑکوں سے کہیں زیادہ اچھا پڑھ رہی ہیں۔ اللہ کے نبیﷺ کا حکم تھا کہ بالغ ہونے کے بعد پہلے نکاح کروادو لیکن اچھے رشتہ کی امید میں لڑکیوں کو گریجویشن، پوسٹ گریجویشن پھر نوکری کروانا   ایک عام بات ہوگئی ہے۔ دوسری طرف لڑکوں کی اکثریت دن بھر سونے اور راتوں کو وقت برباد کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔ اب قابل لڑکیوں کی برابری کے رشتے دور دور تک نہیں ملتے۔ اگر ملتے بھی ہیں تو ان کے جہیز اور کھانے کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک لڑکی کی جگہ ہوکر سوچئے کیا آپ اپنے سے کم قابلیت اور کم تنخواہ والے کے ساتھ شادی کرنا پسند کریں گے؟ مذہب یقینا اہم ہے لیکن اُن کے لئے ہے جن کے گھروں میں واقعی حلال کمائی آتی ہے اورکچھ غیرت اور حمیّتِ دین باقی ہے۔ وہ دور چلا گیا جب لڑکیوں کے باپ جہیز اور کھانے دے دلا کر بیٹی کو رخصت کردیتے تھے، لڑکیاں بھی سر جھکا کر ماں باپ کے فیصلے کو قبول کرلیتی تھیں۔ اب دور بدل گیا ہے۔ اب لڑکیاں تعلیم یافتہ ہیں۔ انہیں اپنی پڑھائی اور کمائی پر اعتماد ہے، اس لئے وہ اپنے ماں باپ پر جہیزکی رشوت کا بوجھ ڈالے بغیراپنی برابری کے لڑکے سے ہی شادی کرنا چاہیں گی چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم۔

اس کا علاج ماڈرن ایجوکیشن کے خلاف تقریریں کرنا نہیں ہے بلکہ اس جہیز اور کھانوں کی لعنت کو ختم کرنا ہے۔ اس مسئلے کی گہرائی میں جب علما جانا ہی نہیں چاہتے اور اصل مرض کی تشخیص کرنا ہی نہیں چاہتے تو اس سے لڑکیوں کو غلط راستوں پر جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

 

حل کیا ہے؟

ہندوستان کے سارے بت توڑے جاسکتے ہیں، لیکن جہیز اور کھانوں کی ہوس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ ہمارے باپ دادا خالو پھوپھا ماموں چاچا سارے کے سارے جہیز اور کھانے لے چکے ہیں، اس لئے یہ لوگ اپنی عورتوں کو جہیز اور کھانے روکنے کا حکم دے ہی نہیں سکتے۔ جس بیوی کے باپ کو یہ لوگ لوٹ چکے ہیں، اب وہی بیوی ان سے بدلہ لے گی۔ اورجتنا ان مردوں نے لیا تھا، اس سے کئی گنا زیادہ خرچ کروائے گی۔ اس کا حل یہ ہے جس طرح ہم بت پرستی یا شراب کو روک نہیں سکتے لیکن خود رک سکتے ہیں، اسی طرح ہم یہ شادیوں کی لعنت کو روک نہیں سکتے خود رک سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہماری تحریک کا ساتھ دینا ہوگا۔ ہر ایسی شادی کا دعوت نامہ یہ کہہ کر واپس کرنا ہوگا کہ”” یہ جہیز اور کھانے ہمارے نبی ﷺ کی سنّت کے خلاف ہیں ہم اس شادی میں شرکت نہیں کرسکتے””۔ نہ نکاح میں اور نہ ولیمہ میں۔ اِس طرح سے دلوں اور ضمیروں پر کانٹے چبھیں گے۔اور آپ کئی حرام کاموں سے بچ جائیں گے۔ جہیز اور کھانے ایک رشوت ہیں جس کے دیئے بغیرشادی نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک غیر قوم کی نقل ہے، یہ فضول خرچی، دکھاوا اور حرص ہے، یہ خوشی سے دینے کے نام پر ایک مجبوری، ایک جھوٹ، دھوکہ اور مکّاری ہے جب کہ قرآن کا حکم ہے کہ ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے مت کھاو۔

ایک بار ان شادیوں کو نبی ﷺ کے طریقے پر کرکے دیکھئے، پھر آپ کی کوئی لڑکی نہیں بھاگے گی، بلکہ غیر خود بھاگ بھاگ کر اسلام میں آئیں گے، انشااللہ۔ جو لوگ اس تحریک کا ساتھ دینا چاہتے ہیں ہم سے رابطہ کریں 9642571721

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button