مضامین

گداگری۔کچھ تبسم زیرلب                               

انس مسرورانصاری

کتنے افسوس کی بات ہےکہ دنیا میں آج تک گداگروں کی مردم شماری نہیں ہوئی۔ہوئی ہوتی تو لوگوں کو پتا چلتا کہ کتنے ملین افراد اس قوم میں پائے جاتےہیں۔یہ کم وبیش دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی کثرت تعداد پرلوگوں سےاپنالوہامنوائے ہوئے ہیں۔آپ صرف انڈیا کو لے لیجئے۔ مشاھدہ بتاتا ہے کہ یہاں گداگرو ں کافی صدحیرت انگیزہے۔ دنیاجیسےجیسےترقی کر تی جارہی ہے،یہ قوم بھی خوب پھل پھلول رہی ہے۔گداگری اب ایک پروفیشنل بزنس بن چکی ہے۔وہ توکہئےکہ ابھی تک سیاسی لیڈروں کی نگاہ ان کے تناسب پر نہیں پڑی ورنہ یہ قوم اور بھی ترقی کرتی۔شہر شہر قصبہ قصبہ قریہ قریہ، گلی گلی کوچہ کوچہ ہر جگہ گداگروں کی موجودگی درج ہے۔یہاں تک کہ جہاں کوئی نہیں ہوتا وہاں بھی یہ موجود ہوتے ہیں۔ ان کی ذات وصفات بھی مختلف ہیں۔ان کے انداز بھی جداجداہیں۔

اسلام نے گداگری کو سخت ناپسند کیاہے۔ اس کی مذمت کی ہے اوربلا ضرورت کسی کے آگے دست سوال درازکرنےکومعیوب کہاہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اسی اسلام کوماننے والی مسلمان قوم میں گداگروں کی تعدادریکارڈتوڑہے۔ایسا اقتصادی بحران کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس قوم میں حرام خوروں کی بہتات ہوگئی ہے۔اسلام کہتاہے کہ اپنی زکات اور صدقات کومستحق تک پہنچاؤ۔انھیں تلاش کرو کہ غیرت کی وجہ سے وہ دست سوال نھیں پھیلاتے۔وہ ضرورت مند ہوتے ہیں مگر بھیک مانگنے سے حیاکرتےہیں،تو انھیں تلاش کرو۔وہ مستحق ہیں۔

مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نادانستہ مستحق کونظراندازکرتےہوئےعام طورسے غیر مستحق کوزکات وخیرات د ے کران کی حوصلہ افزائی کرتے رہتےہیں۔ اس طرح زندگی کے سب سے آسان اورنفع بخش راستے پر چلنے والی بھیڑ میں اضافہ ہوتاجاتاہے۔لوگ نیکی کر کے دریا میں ڈالتے رہتےہیں۔

اندراگاندھی نے ایمرجنسی پیریڈ میں بھیک مانگنے پر پابندی عائدکردی تھی۔ سخت پابندی کی وجہ سے کہیں کوئی گداگر نظر نہیں آتاتھامگرایسانہیں ہوا کہ گداگر بھوکوں مرنےلکےہوں۔ بھوک سے کسی گداگر کےمرنےکی خبر نھیں آئی تھی۔

فی زمانہ مسلم قوم میں گداگری کاپیشہ بےحد مقبول ہے۔ خوب ترقی پزیر ہے۔آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں بھیک مانگنے والا یا مانگنےوالی مرگئی تو اس کے گھر سے لاکھوں روپئے برآمد ہوئے۔ایک گداگرنےتوحدہی کردی۔اس نے اپنے ہونے والے

خسر یعنی متوقع بیوی کے باپ سے جہیز میں وہ علاقہ طلب کیا جو کافی زرخیز تھا۔اس شرط پر لڑکی کاباپ راضی ہوگیااور بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی حالانکہ لڑکی بھی خالص بزنس میڈم تھی۔ نقاب میں گھر گھر جا کر اپنی شرافت کی دہائی دیتے ہوئے خوب کمالیتی تھی۔

رنگ رنگ کےگداگر۔رنگ رنگ کےحلیے۔رنگ رنگ کی صدائیں۔ نئے نئے انداز۔دعاؤں کاپٹارہ لیے ہوئے گلی گلی گھومتےرہتےہیں۔زبان حال سے کہتے رہتے ہیں۔ آتے جاؤ، پھنستےجاؤ،،بھولے بھالے، سادہ لوح،نیک لوگ ان کا شکار ہوتے ہیں۔

ایک صاحب کے بارےمیں مشہور ہے کہ وہ ممبئی میں گداگری کرتےتھے۔ کا فی بڑےعلاقہ پرقابض تھے۔ سکہ جم گیا تھا۔خوب کماتےتھے۔ہرماہ ڈھیروں روپیہ گھربھجتےتھے۔گھر والوں کوبتارکھاتھاکہ وہ دبئی میں ایک اچھی پوسٹ پر ہیں۔

ایک روزہم کسی کام سےبازارگئےتوایک عجیب وغریب تماشا دیکھا۔ایک فقیرنےدونوں ہاتھوں میں کاسےلے رکھےتھے۔دائیں ہاتھ کا کاسہ ہمارےسامنےکرتےہوئےکہا-

۔۔ بابا۔!خدا کے نام پر ایک روپیہ دیتاجا۔تیرےبچےجیئں۔ تجھے حج نصیب ہو۔تیری ساری مرادیں پوری ہوں۔خداشادوآبادرکھے۔،،

ایک روپیہ میں اتنی ساری دعائیں پاکر ہم نہال ہوگئے۔ایک روپئےکاسکہ اس کے کاسہ میں

ڈال کر پوچھا۔۔بابا۔! یہ تم نے دونوں ہاتھوں میں کا سے کیوں لے رکھے ہیں۔؟،،

فقیرنےجواب دیا۔۔کاروبار ترقی پرہے۔میں نےپچھلےہفتےسے ایک برانچ آفس کھول دیا ہے۔۔ ہم لاحول پڑھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

ان گداگروں کی بہت ساری پلٹنیں اور کوالٹیاں ہیں۔ایک فقیرنےکسی بڑے آدمی کے درپرصدالگائی تواندرسےآواز آئی۔۔بابا معاف کرو،بی بی جی گھر میں نہیں ہیں۔۔،

فقیرنےنہایت معصومیت سے کہا۔۔ایک دوروپئےخیرات کردو بابا۔مجھےبی بی جی کی ضرورت نہیں ہے۔،،

۔۔بانکےسائیں نے سیٹھ جی سےکہا۔۔۔سیٹھ جی۔!تین سال پہلے تم مجھے ہرجمعرات کو پانچ روپئےدیاکرتےتھے۔دوسال سے تین روپئے دینےلگے۔اب ایک روپیہ پرٹرخارہےہو۔۔؟ ،،

سیٹھ جی نے بڑی نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔سائیں!دوسال پہلے میری شادی ہوگئی تھی۔تم جانتے ہو کہ شادی کےبعدخرچہ بڑھ جاتاہے۔

اورپھر دوسال میں دو بچے بھی ہوگئے۔خرچہ اور بڑھ گیا۔،،

۔۔بہت خوب۔بہت خوب۔،، بانکےسائیں بولے۔توگویامیرا

روپیہ تم اپنے کنبہ پرلگارہےہو۔؟،،

ایک گداگر کایہ انداز بھی دیکھئے۔اورقربان جائیے۔ اس نے

ایک دروازہ پرصدالگائی۔۔بی بی جی۔!خدا کے نام پر کچھ خیرات کردو۔آج جمعرات کا مبارک دن ہے۔دل کی مراد پوری ہو گی۔شادوآبادرہوگی۔بچےجیئں گے۔مال و اموال میں،آل و اولادمیں برکت ہوگی۔،،

سائل کی آوازسن کر دروازہ میں ایک شخص نمودار ہوا۔بڑی لجاجت سے بولا۔۔

۔۔سائیں! میری ایک ہی دلی مرادہے۔پوری کردوتوبڑااحسان ہوگا۔،،

۔۔ فقیرسےدل کی بات کہہ دےبیٹا۔،،سائل نے قلندرانہ شان سےکہا۔ہم دعا کریں گے اور تیری مرادضرورپوری ہوگی۔،،

۔۔بابا جی!افسوس کہ آج جمعرات کے مبارک دن آپ کودینےکےلیےمیرےپاس کچھ بھی نہیں۔ایسا کرو کہ اگرلےجا سکوتومیری بوڑھی ساس کو خیرات میں اپنےساتھ لیتےجاؤ۔۔

۔۔میں خیرات میں بوڑھی ساس نہیں لیتا۔،،سائل نے منھ بنا کر جواب دیا۔

۔۔ توپھرباباجی! میری ساس کےلیے کوئی ایسی اثر اندازدعاکردوکہ اس سے میرا

پیچھا چھوٹ جائے۔کم بخت نے اپنی بیٹی کے کان بھربھرکےمیرا جیناحرام کررکھاہے۔کوئی تعویز

ہی عنایت کردو۔،،

۔۔ بیٹا!ساس ایسی مخلوق ہےجس کے حق میں کوئی دعا

قبول ہوتی ہےنہ تعویذ،گنڈے کام آتےہیں۔۔میں نےتجھےمعاف کردیا،توبھی مجھےمعاف کردے۔

دامادکوسخت مایوسی ہوئی اور سائل خداسےامان طلب کرتا ہواآگےبڑھ گیا۔

اس دن سلیم سیٹھ بہت اداس تھے۔برآمدے میں کرسی پر اداس بیٹھے کسی سوچ میں غرق تھے۔اچانک ایک گداگر ان کے سامنےآکھڑاہوا۔

۔۔سیٹھ جی!خدا کے نام پر کچھ دیجئے۔

۔۔ معاف کروبابا۔،،

گداگر۔۔کیسے معاف کردوں۔؟الله نے آپ کو بہت کچھ دےرکھاہے۔خدا آپ کو اورترقی دےگا۔کچھ تو خیرات کردیجئے۔آپ کےبچے پھولیں پھلیں۔،،

سیٹھ جی۔۔ کہہ دیا نا بابا معاف کرو۔آگےبڑھو۔ابھی کل ہی تو میرے مکان میں چوری ہوئی ہے۔چور کم بخت میری بیوی کو چھوڑ کر سب کچھ سمیٹ لےگیا۔،،

گداگر۔۔تو پھر اپنی بیگم صاحبہ کو ہی خیرات میں دےدیجئے۔خدا آپ کو دو بیویاں عطاکرے۔،،

سیٹھ جی۔۔بھاگ جاؤ۔کیسی بےہودہ خیرات مانگتےہو۔شرم نہیں آتی۔؟،،

گداگر۔۔ کیا کروں بھائی۔میرےپاس تو بے ہودہ بھی نہیں ہے۔آپ ذرا دل کو بڑا کر لیں اور جی کوکڑاکرلیں۔میں اسےباہودہ بالوں گا۔،،

سیٹھ جی۔۔کیبےبےشرم اوربےحیامانگنے

والےہو۔ٹلنےکانام ہی نہیں لیتے۔کہہ دیا آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔،،

گداگر۔۔توپھرائےشریف اورمحتاج آدمی!فالتواوربیکارکیوں بیٹھےہو؟جب کچھ نہیں بچا ہے تو اپنی بیگم سمیت ہمارے ٹولے میں کیوں نہیں شامل ہو جاتے۔؟بہت جلد چوری گئے مال سےزیادہ واپس آ جائے گا۔گارنٹی میں لیتاہوں۔،،

سیٹھ جی(غصہ سےکانپتےہوئے)بس اب خیریت اسی میں ہے کہ تو جلدی سے بھاگ جا ورنہ ابھی نوکروں کوبلاتاہوں۔،،

گداگر۔۔ جاتا ہوں بابا،جاتا ہوں۔میں تو آپ کو دکھی سمجھ کر آپ کےبھلےکےلیےہی کہہ رہاتھا۔آپ نہیں چاہتے توآپ کی مرضی۔،،

گداگر کی باتوں سے تنگ آکر سلیم سیٹھ

حلق پھاڑکردہاڑے۔۔ ابےجاتاہےیااٹھاؤں ڈنڈا۔؟،،

ناسازگارحالات کودیکھتے ہوئےگداگر نےبھا گ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔وہ بڑبڑاتاجا

رہاتھا۔۔بڑا بیوقوف آدمی نکلا۔۔میں نے اس کے ساتھ ہمدردی کی۔نیک مشورہ دیا پروہ نہیں مانا۔گداگری کرتا تو بہت جلد ترقی پاجاتا۔بد نصیب ہے بے چارہ۔۔۔،،،

آپ نےگداگرکی ڈھٹائی دیکھی۔۔یہ توکچھ بھی نہیں۔اس سے بھی بڑے بڑے ڈھیٹ آپ کےدروازہ پر دستک دیتے ہوں گے۔اس لیے ہر دستک کومزدہء جاں فزانہ سمجھیں اور دیکھ بھال کر دروازہ کھولیں۔ہوسکتاہےدروازہ پر خطرہ موجودہو۔۔

رمضان المبارک رحمتوں کا مہینہ ہے۔اس مہینے میں بڑی خیروبرکت ہے۔خاص طور سے گداگروں کےلیےبہارکاموسم ہوتا ہے۔دنیابھر کے گداگر اجتماعی طورپرنمودارہوتےہیں۔اوراس طرح چھاپوں پرچھاپےمارتےہیں کہ گویا سالانہ لگان وصول کر رہے ہوں۔نتیجے میں جو لوگ زکات وخیرات اور صدقات کےمستحق ہوتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں۔اورغیر مستحق مالامال ہوجاتے ہیں۔

ہمارےمیردانشمندگداگری کوایک قومی مسئلہ مانتےہیں۔کہتےہیں۔۔یہ گداگر قوم کے لیے ذلت و رسوائی کا سبب ہیں۔ان کی حوصلہ افزائی بھی خوب کی جاتی ہے۔سادہ لوح طبیعت لوگ گداگروں سے بہت ڈرتے اور انھیں پیرومرشد تک مان لیتے ہیں۔وہ لوٹتے ہیں اور یہ دل کھول کرلٹتےہیں۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ہم کمائیں اور تم کھاؤ۔انھوں نے ضعیف اور معذوروں کواس سے مثتثنی رکھاہے۔ایک بارایک تندرست اور ہٹے کٹےفقیرکونصیحت کرتے ہوۓ انھوں نےکہا۔۔

میاں جی!تمھیں خدا سے ڈر نہیں لگتا۔

اچھےخاصےہو۔صحت بھی قابل رشک ہے،پھر بھی بھیک مانگتےہو۔چاہوتودوچارلوگوں کو اورکماکرکھلاسکتےہو۔پھربھیک کیوں مانگتے ہو۔کچھ کام دھندہ کیوں نہیں کرتے۔؟،،

گداگرنےجواب دیا۔۔ہم بھیک مانگنا چھوڑ دیں توآپ خیرات کس کو دو گے۔ہمارا احسان مانو کہ ہم خیرات لےکر ثواب کمانے کا موقع دیتےہیں۔،،

میردانشمنداس گداگرپربہت ناراض ہوئے۔

کیامدرسےاوریتیم خانےبندہوگئےہیں؟ہم تم جیسے کام چوروں کو خیرات وصداقت کیوں دیں۔۔،،

گداگروں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کااندازہ

لگانا کچھ مشکل نہیں۔صورت حال یہ ہےکہ کسی کے والد، والدہ،بیوی،بھائی،بھتیجہ،عزیز و اقارب کسی کا فاتحہ ہو،تیجہ ہو،چالیسویں ہویامرنےوالےکی سالانہ تقریب۔!کسی فقیر سے کہئے کہ باباکھاناکھالیجئےتوباباکاسوال ہوگا کہ پہلےسوروپئے یا پچاس روپئےدوتب کھائیں گے۔باباکوکھلانااس لیے ضروری ہےکہ لوگوں کے بےہودہ خیال میں اگر ان کو نہ کھلایا پلایا جائےتو میت کی مغفرت کےلیے مسئلہ پیدا ہو

ہوسکتاہے۔ان گداگروں میں ایک اضافی خصوصیت کاعلم فلم انڈسٹری والوں کوابھی تک نہیں ہو پایا ہے کہ میکپ کے فن میں یہ کتنی مہارت رکھتےہیں۔اگر علم ہوجائےتوکتنے

ہی فلمی میکپ مینوں کی روزی جاتی رہے اور وہ گداگری بلکہ گدھاگری پر مجبور ہو جائیں۔

***

 

متعلقہ خبریں

Back to top button