تلنگانہ

15 فیصد آبادی، صفر نمائندگی: تلنگانہ میں مسلمانوں کے ساتھ کانگریس کا سیاسی دھوکہ: شیخ عبداللہ سہیل

15 فیصد آبادی، صفر نمائندگی: تلنگانہ میں مسلمانوں کے ساتھ کانگریس کا سیاسی دھوکہ: شیخ عبداللہ سہیل

بی آر ایس کارکنوں نے نماز جمعہ کے بعد پمفلٹس تقسیم کیے، راہول گاندھی کے سماجی انصاف کے دعوے پر سوالیہ نشان

 

حیدرآباد، 20 جون: بی آر ایس کے سینئر قائد شیخ عبداللہ سہیل نے جمعہ کے روز کانگریس حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس نے تلنگانہ کی مسلم برادری کے ساتھ سنگین دھوکہ کیا ہے، جو 2023 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو اقتدار دلانے میں کلیدی کردار ادا کر چکی ہے۔

 

بی آر ایس نے یہ مہم راہول گاندھی کی سالگرہ کے ایک دن بعد شروع کی ، اس  موقع پر بی آر ایس کارکنوں نے جمعہ کی نماز کے بعد شہر کے مختلف مسلم علاقوں میں پمفلٹس تقسیم کئے۔ ان پمفلٹس میں راہول گاندھی کے سماجی انصاف کے نعرے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ کانگریس حکومت کے رویے نے اس نعرے کی حقیقت بے نقاب کر دی ہے۔

 

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ عبداللہ سہیل نے کہا کہ حکومت کو 18 ماہ مکمل ہوچکے ہیں، لیکن مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم برادری خود کو تنہا، بے عزت اور استعمال شدہ محسوس کر رہی ہے۔ نہ حکومت میں کوئی نمائندگی ہے، نہ فلاحی اسکیموں کی فراہمی، اور نہ ہی شناخت و ثقافت کو عزت دی گئی۔

 

انہوں نے کہا کہ 1952 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مسلمانوں کو تلنگانہ کابینہ سے مکمل طور پر باہر رکھا گیا ہے۔ عبداللہ سہیل نے کہا کہ وزارتی عہدے تو دور، تلنگانہ سے قانون ساز اسمبلی، لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی کوئی مسلم نمائندگی نہیں ہے۔ ریاستی کارپوریشنز اور اداروں میں پچاس سے زائد اہم عہدے موجود ہیں، لیکن مسلمانوں کو صرف نمائشی اور غیر مؤثر چیرمین شپ دی گئی، جن کے پاس کوئی اختیارات نہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ یہ صرف علامتی نہیں بلکہ منصوبہ بند نظراندازی ہے۔ مسلمانوں نے انصاف اور بااختیاری کی اُمید میں کانگریس کو ووٹ دیا تھا، لیکن اب اُنہیں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ان کی فلاح حکومت کی ترجیح نہیں رہی، ان کی آواز کو دبایا جا رہا ہے، اور ان کی موجودگی کو ریاستی نظام سے مٹایا جا رہا ہے۔

 

انہوں نے یاد دلایا کہ بی آر ایس حکومت کے دوران محمد محمود علی کو نائب وزیراعلیٰ اور بعد میں وزیر داخلہ جیسے بااثر عہدے دیے گئے۔ اُس وقت کے وزیراعلیٰ کے چندرشیکھر راؤ نے کئی مسلم رہنماؤں کو بااختیار نامزد عہدوں پر فائز کیا۔ لیکن موجودہ کانگریس حکومت نے مسلمانوں، جو ریاست کی 15 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، کو سیاسی لحاظ سے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔

 

انہوں نے انتخابی منشور میں شامل اقلیتوں کے لیے مخصوص اعلانات پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے لیے جاری کردہ منشور میں بارہ نکات شامل تھے، جن میں چار ہزار کروڑ روپے کے اقلیتی بجٹ اور اسے مکمل خرچ کرنے وعدہ، ہر سال ایک ہزار کروڑ روپے کی قرض اسکیم، شامل تھی، لیکن 18 مہینے گزرنے کے باوجود ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔

 

انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس حکومت نے اقلیتوں کے لیے کئی اہم اسکیمیں خاموشی سے بند کر دی ہیں۔ عبدالکلام تحفہ تعلیم اسکیم آج تک شروع ہی نہیں ہوئی۔ بے روزگار مسلم نوجوانوں اور خواتین کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے کی سالانہ قرض اسکیم میں ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ شادی مبارک اسکیم جو غریب خاندانوں کو شادی کے موقع پر مالی مدد فراہم کرتی تھی، اب انتہائی محدود ہوچکی ہے۔ مختص شدہ 650 کروڑ روپے میں سے صرف 282 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔

 

عبداللہ سہیل نے ریاست میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر بھی تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران کئی فرقہ وارانہ واقعات پیش آئے، جن میں معین آباد میں قطب شاہی مسجد کی شہادت، سنگاریڈی میں فسادات، سوریہ پیٹ اور نظام آباد میں مسلم نوجوانوں پر حملے، ونپرتھی میں نماز پڑھتی لڑکیوں پر حملہ، اور جینوور میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فساد شامل ہیں

 

۔ ان کا کہنا تھا کہ ان واقعات کے بعد نہ تو وزیراعلیٰ اور نہ ہی کسی وزیر نے متاثرین سے ملاقات کی اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا۔ ان کی خاموشی نے شدت پسندوں کے حوصلے بلند کیے۔

 

انہوں نے کہا کہ عیدالاضحی کے دوران جب مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر حملے ہو رہے تھے، تو وزیراعلیٰ نے امن و امان پر اجلاس بلانے کے بجائے 50 ایکڑ اراضی پر گاؤ شالہ قائم کرنے کے لیے میٹنگ منعقد کی، جو نہایت خطرناک پیغام تھا۔

 

انہوں نے کانگریس حکومت کو رضاکار فلم کو ریاستی ایوارڈ دینے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ فلم بی جے پی لیڈر گڈور نرائن ریڈی نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے بنائی تھی۔ یہ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام رہی، لیکن کانگریس حکومت نے اُسے بہترین تاریخی فلم قرار دے کر غدر ایوارڈ سے نوازا۔ انہوں نے کہا کہ غدر ایک سیکولر رہنما تھے، اور ان کے نام سے بنے ایوارڈ کو ایک فرقہ وارانہ فلم کو دینا ان کی وراثت کی توہین ہے۔

 

انہوں نے کانگریس کو خبردار کیا کہ یہ صرف ناقص حکمرانی نہیں بلکہ ایک تاریخی دھوکہ ہے۔ کانگریس نے مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا اور پھر یکسر نظرانداز کر دیا۔ مسلم برادری سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔ اگر ان مسائل کا فوری حل تلاش نہیں کیا گیا تو یہ مایوسی آئندہ تلنگانہ کی سیاست کا رخ بدل سکتی ہے۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button