اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو کے خطاب پر 50 ممالک کے نمایندوں کا واک آؤٹ، کئی نشستیں خالی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک غیر معمولی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو خطاب کے لئے اسٹیج پر پہنچے۔ نیتن یاہو کی تقریر کے آغاز کے ساتھ ہی 50 ملکوں کے نمائندے بطورِ احتجاج واک آؤٹ کرگئے، جس کے نتیجہ میں ایوان کی متعدد نشستیں خالی نظر آئیں۔
دوسری جانب امریکہ سمیت بعض ممالک کے نمائندے نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے رہے اور کچھ نے تالیاں بجا کر ان کی تقریر کی حمایت کی۔ نیتن یاہو نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ غزہ میں حماس کے خلاف جاری فوجی کارروائی کسی بھی قیمت پر مکمل کی جائے گی۔
انہوں نے فلسطین کو بطور ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرنے کے حالیہ فیصلہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ اقدام دراصل یہودیوں اور بے گناہ عوام کے خلاف دہشت گردی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ مغربی قایدین دباؤ میں آسکتے ہیں لیکن اسرائیل کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔
’دی کرس‘ نامی نقشہ دکھاتے ہوئے نیتن یاہو نے اپنی تقریر جاری رکھی اور مختلف مواقع پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی تعریف بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ایشیا میں تبدیلیاں نئے امکانات کو جنم دے رہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ رہی کہ اسرائیل نے اپنے ملک میں نیتن یاہو کی تقریر براہِ راست غزہ کے شہریوں تک پہنچانے کے لئے لاؤڈ اسپیکر نصب کئے ۔ ان کے خطاب کے دوران ایوان میں ایک طرف تالیوں کی گونج سنائی دی تو دوسری طرف کچھ غیر واضح نعرے اور آوازیں بھی بلند ہوئیں۔
حماس مخالف تقریر کے دوران امریکہ اور برطانیہ کے نمائندے ایوان میں موجود رہے، تاہم یہ الزام بھی سامنے آیا کہ ان ممالک نے اعلیٰ سطح کے سفارت کاروں کے بجائے محض جونیئر سفارت کاروں کو اجلاس میں بھیجا۔