تلنگانہ

نفرت انگیز تقاریر اور جرائم کے خلاف ٹھوس قانون سازی کیلئے قرارداد پیش کرنے کے ٹی راما راؤ سے بی آر ایس قائدین کا مطالبہ

نفرت انگیز تقاریر اور جرائم کے خلاف ٹھوس قانون سازی کیلئے قرارداد پیش کرنے کے ٹی راما راؤ سے بی آر ایس قائدین کا مطالبہ

 

حیدرآباد۔29 /دسمبر (پریس نوٹ)بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) کے سینئر قائدین علی بن ابراہیم مسقطی، نوید اقبال اور محمد یونس اکبانی نے بوتھ کے رکن اسمبی انیل جادھو کے ہمراہ بی آر ایس کے کارگزار صدر اور سابق وزیر کے ٹی راما راؤ سے ملاقات کرتے ہوئے ریاست تلنگانہ میں نفرت انگیز تقاریر اور نفرت پر مبنی جرائم کی روک تھام کیلئے ایک جامع قانون کی تدوین و نفاذ کے سلسلہ میں ایک مفصل نمائندگی پیش کی۔

 

نمائندگی میں قائدین نے بی آر ایس قیادت سے اپیل کی کہ وہ بحیثیت اصل اپوزیشن جماعت تلنگانہ اسمبلی میں ایک باضابطہ قرارداد یا تجویز پیش کرے جس کے ذریعہ کرناٹک میں حال ہی میں نافذ کردہ قانون کی طرز پر نفرت انگیز تقاریر اور جرائم ِمنافرت کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی راہ ہموار ہو۔

 

بی آر ایس قائدین نے نشاندہی کی کہ کرناٹک کاقانون ایک اہم آئینی اقدام ہے جس میں نفرت انگیز تقریر کی واضح تعریف کی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت اداشدہ اور تحریری الفاظ، اشارے، علامات، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا مواد، عوامی تقاریر اور منظم مہمات جو مذہب، ذات، زبان، نسل یا شناخت کی بنیاد پر کسی فرد یا گروہ کے خلاف نفرت، عداوت یا تشدد کو فروغ دیں‘نفرت انگیز تقاریر کے زمرہ میں آتی ہیں۔ نفرت پر مبنی جرائم کو سنگین نوعیت کے جرائم قرار دیتے ہوئے ان کیلئے سخت سزائیں اور وقت مقررہ کے اندر تحقیقات و عدالتی کارروائی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔

 

تلنگانہ کے تناظر میں نمائندگی میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی کہ ریاست کے چیف منسٹر پہلے ہی اس نوعیت کے قانون کی ضرورت کا برملا اعتراف کرچکے ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ قطبیت ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ نمائندگی میں بتایا گیا کہ حالیہ عرصہ میں ریاست کے مختلف علاقوں سے تقریباً پچاس فرقہ وارانہ یا فرقہ واریت سے متعلق واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جو سماجی ہم آہنگی اور امن و امان کیلئے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔

 

بی آر ایس قائدین نے حالیہ پیشرفت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک ویڈیو میں بی جے پی کے معطل شدہ رکن اسمبلی راجہ سنگھ کو بعض جارح مزاج نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جس میں مبینہ طور پر مسلمانوں کے خلاف گوریلا طرز کے حملوں کیلئے ایک خفیہ گروپ کی تشکیل کی بات کی گئی۔ قائدین کے مطابق اس نوعیت کے بیانات کھلے طور پر تشدد پر اکسانے کے مترادف ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی و داخلی سلامتی کیلئے شدید خطرہ ہیں۔

 

نمائندگی میں بی آر ایس حکومت کے دور میں کی گئی کارروائیوں کو یاد دلاتے ہوئے کہا گیا کہ راجہ سنگھ کوجن کے خلاف مختلف نوعیت کے 105 سے زائد فوجداری مقدمات درج ہیں 2022 میں اس وقت کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے پریوینٹیو ڈی ٹینشن(پی ڈی) ایکٹ کے تحت حراست میں لیا تھا جس سے یہ واضح پیغام گیا کہ نفرت پھیلانے والے عناصر کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ قائدین کے مطابق یہ اقدام بی آر ایس قیادت کے امن، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آئینی اقدار سے وابستگی کا ثبوت ہے۔

 

قائدین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تلنگانہ میں نفرت انگیز تقاریر اور نفرت پر مبنی جرائم سے نمٹنے کیلئے کسی مخصوص اور جامع قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عمومی تعزیری دفعات پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو منظم، نظریاتی اور جرائم میں بار بار ملوث عناصر کے خلاف مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔ ایک واضح اور جامع قانون نہ صرف سخت بازدار ثابت ہوگا بلکہ کمزور طبقات کے تحفظ اور ریاست کے تکثیری سماجی ڈھانچے کے استحکام میں بھی معاون ہوگا۔

 

اس موقع پر بی آر ایس کے کارگزار صدر کے ٹی راما راؤ نے قائدین کی بات کو بڑے اطمینان اور توجہ کے ساتھ سنا اور انہیں بتایا کہ اسمبلی کا جاریہ اجلاس بمشکل پانچ دنوں تک محدود رہے گا اور اس کے ایجنڈے اور امور پہلے سے ہی طے شدہ ہیں جس کی وجہ سے موجودہ اجلاس میں اس موضوع کو پیش کرنا دشوار ہوگا۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ نہایت اہم مسئلہ ہے اور بی آر ایس نہ صرف آنے والے اسمبلی اجلاسوں میں بلکہ دیگر جمہوری و سیاسی فورمز پر بھی اس مسئلہ کو بھرپور انداز میں اٹھائے گی۔

 

بی آر ایس قائدین نے کہا کہ اگر پارٹی کی جانب سے اس نوعیت کی قرارداد پیش کی جاتی ہے تو یہ تعمیری اپوزیشن سیاست کی ایک مثال ہوگی، جو سیکولرازم، اخوت، مساوات اور قانون کی حکمرانی جیسے آئینی اصولوں پر مبنی ہوگی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس اقدام سے حکومت پر اخلاقی اور قانون ساز دباؤ بڑھے گا اور وہ اپنے اعلان کردہ موقف کو عملی قانون سازی میں تبدیل کرنے پر مجبور ہوگی، جو تلنگانہ اور اس کے عوام کے مفاد میں ہوگا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button