مضامین

تاریخ اسلام کی نابغہ روزگار شخصیت: ابن تیمیہ/ رحمہ اللہ (661-728ھ)

أسد الرحمن تیمی
  تقی الدین احمد بن تیمیہ، ساتویں اور آٹھویں صدی صدی ہجری میں اسلام کا مجدد اور سب سے بڑا عالم و مفکر، جس کی شہرت   اسلامی تاریخ کی ایک نابغہ روزگار کے طور پر ہے۔جس کی دینی وشزعی بصیرت اورفکری و تنقیدی صلاحیتوں کا دائرہ بے حد وسیع تھا،ایسا عالم جس نے اسلامی موضوعات پر اس قدر معیاری اور اتنا زیادہ لکھا کہ لوگ عش عش کر اٹھے، اپنی پوری حیات مستعار کتاب وسنت پر مشتمل صحیح اسلامی فکر ونظر کی ترویج و اشاعت کے لئے وقف کر دی، اپنی رائے ونظریے کا ببانگ دھل اعلان کیا، خواہ ساری دنیا دشمن بن جائے یا بار بار پس دیوار زنداں جاتا پڑے۔ تا عمر کنوارے رہے،جب موت آءی تو وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔لیکن جنازہ اٹھا تو بقول مؤرخ ابن کثیر اس زمانے میں دو لاکھ سے زیادہ نفوس اس میں شریک تھے۔
شیخ الاسلام تقی الدین ابوالعباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ کی پیدائش 10 ربیع الاول 661ھ میں حران شہر میں ہوءی، جو آج کل ٹرکیے کے جنوب میں واقع ہے۔667ھ جبکہ ان عمر 06 سال تھی، ان کا گھرانہ تاتاری حملے کی وجہ سے امن وامان کی تلاش میں یہاں  سے سیریا ہجرت کرنے پر مجبور ہو گیا۔
ابن تیمیہ کا خاندان علم و فضل میں اونچا مقام رکھتا تھا۔ان کے والد شہاب الدین عبدالحلیم حران کے مشہور علماء میں سے تھے چنانچہ جیسے ہی دمشق قدم رنجہ ہوئے انہیں جامع کبیر میں خطابت و تدریس کی ذمہ داری ملی،ساتھ ہی دارالحدیث السکریہ کا مسند حدیث بھی۔ دادا مجد الدین  اپنے زمانے کے ایک بلند پایہ محدث،فقیہ اور عربی زبان وادب باکمال عالم تھے۔مصر سے انہوں نے اپنی والدہ کو جو خطوط لکھے تھے  ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ  ان کی والدہ بھی ایک عالمہ فاضلہ اور باکمال خاتون تھیں،ایسے علمی گھرانے میں ابن تیمیہ کی پرورش و پرداخت ہوئی۔
شیخ الاسلام بچپن سے ہی اپنی زبردست قوت یاداشت ،کثرت مطالعہ اور حاضر جوابی کے لیے مشہور تھے ۔
ابن تیمیہ کے سوانح نگار  امام ابو زہرہ کہتے ہیں  کہ ابن تیمیہ کی علمی و فکری نشوونما میں دمشق کی علمی فضا کا بہت بڑا کردار رہا ہے  جو اس زمانے میں  علماء کی کان اور ان کا مرکز تھا ،ابن تیمیہ سے پہلے وہاں بڑے بڑے اساطین علم  کا حلقہ درس ہوا کرتا تھا، عز بن عبد السلام ، نووی اور ابن دقیق العید وغیرہ۔حنفی، شافعی اور حنبلی مسلک  کے باضابطہ علحیدہ علحیدہ مدرسے تھے، فقہ کے موضوع پر انسائیکلوپیڈیا جیسی کتابیں مثلا المجموع اور المغنی وغیرہ دمشق کی اسی علمی فضا کا ثمرہ ہیں،
والد کی صحبت،  دمشق کا علمی ماحول اور خداداد ذہانت تینوں نے ابن تیمیہ کو اسلامی علوم کا خوگر اور پیکر بنا دیا،انہوں نے بڑی کم عمری میں ہی اسلامی علوم کی  اہم کتابوں کا مطالعہ کرلیا  تھا،کہا جاتا ہے کہ بلوغت سے پہلے ہی انہوں نے حمیدی کی الجمع بین الصحیحین یاد کرلی تھی۔
ابن تیمیہ کاگھرانہ حنبلی  المسلک تھا،ابن تیمیہ پر اس کی چھاپ پڑنا  فطری تھا،حالانکہ  بعد کے ادوار میں انہوں نے  بہت سارے مسائل میں اس مسلک سے اختلاف کیا۔
ابن تیمیہ کی دلچسپی کا دائرا دینی علوم تک  محدود نہیں رہا،انہوں نے عربی زبان و ادب میں بھی بڑی مہارت حاصل ، اس مقام تک پہنچے کے نحو کے امام سیبویہ کے بہت سارے آرا سے دلائل کی روشنی میں اختلاف کیا،ان کے زمانے میں منطق اور فلسفہ کا بڑا غلغلہ تھا لیکن اپنی دو تصنیفات: نقض المنطق اور الرد علی المنطقیین کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا کہ وہ ان دونوں فن میں بھی امام کا درجہ رکھتے ہیں،انہوں نے فلاسفہ اور منطقیوں کا سارا زور  کمزور کر دیا،اور دوبارہ انہیں سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔
ان کے معاصر امام ذہبی کے بقول: "ابن تیمیہ یکتائے روزگار اور علم کے سمندر تھے،ان کے زمانے میں کوئی ان کے علمی معیار و مقام تک نہیں پہنچ سکا”. اس زمانے میں یہ مشہور تھا کہ "جس حدیث کو ابن تیمیہ نہیں جانتے وہ حدیث نہیں”.زملکانی کہتے ہیں:”گزشتہ پانچ صدیوں میں میں نے  ابن تیمیہ جیسا عالم نہیں دیکھا”. ابن عبدالہادی کہتے ہیں: "ابن تیمیہ ہمہ وقت مطالعہ میں مشغول رہتے تھے, ان کی علمی تشنگی کبھی نہیں بجھتی تھی،نہ کبھی علمی مباحثے سےتھکٹے تھے”.
انہوں نے نہ صرف زبان و قلم سے گمراہ فرقوں سے مقابلہ کیا بلکہ سالوں تاتاریوں سے جہاد کرتے رہے. اپنی بے باک راءے کو لے کر بار بار جیل بھی گئے۔شاید یہی وجہ ہو کہ انہوں نے کبھی شادی نہیں کی۔
ابن تیمیہ نے لگ بھگ تین سو سے زیادہ تصنیفات اپنے پیچھے چھوڑیں۔جن میں سے کچھ  کتابچوں کی شکل میں ہیں، اور کچھ کی کءی جلدوں پر مشتمل ہیں۔الصارم المسلول على شاتم للرسول  آپ کی ابتدائی کتابوں میں سے ہے۔اسی زمانے میں آپ نے رسالہ حموية الكبرى، العقيده الواسطيه،فتاوى مصريه،لکھیں،اور اس کے بعد الرد علی المنطقیین،اور السياسه الشرعيه في اصلاح الرعى والرعيه. وغیرہ لکھیں۔ ابن تیمیہ کی اہم کتابوں میں الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح، منهاج السنه النبويه في نقض كلام الشيعة القدرية، درء تعارض العقل والنقل،اقتضاء الصراط المستقيم بمخالف اصحاب الجهيم، الاستقامة،تلبيس الجهمية، الصفدية اور النبوءات بھی ہیں.
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی وفات 20شوال728 بمطابق 1328ء کو دمشق کے قلعہ جیل میں ہوءی جہاں آپ پانچ مہینے سے قید تھے، اسی بار قرآن مجید ختم کر چکے تھے،اکاسویں بار شروع کر دیا تھا اور ان المتقین فی جنات و نہر تک پہنچے تھے کہ روح پرواز کر گئی آپ کا  جنازہ دمشق کا  ایک تاریخی جنازہ تھا وہاں اس سے پہلے کبھی ایسا جنازہ نہیں دیکھا گیا، آخری دیدار کے لیے کثرت ہجوم کی وجہ سے لوگوں کو اپنے جوتے پگڑیوں کا بھی دھیان نہیں رہا، ظہر سے قبل جنازہ اٹھا لیکن بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ عصر کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی ، اس میں لگ بھگ پندرہ ہزار خواتین شریک ہوءیں اور تقریبا دو لاکھ سے زائد نفوس نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی،اہل علم میں صرف تین لوگ  جن کی ابن تیمیہ سے دشمنی جگ ظاہر تھی اور انہیں اندیشہ تھا کہ  لوگ ان کا قتل  کر دیں گے،   یا جو کسی وجہ سے معذور تھے، جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ اس دن دمشق کے بازار اور دکانیں بند رہیں۔اس زمانے ذرائع ابلاغ تیز رفتار نہ ہونے کے باوجود سارے عالم اسلام میں ان کی وفات خبر بہت جلد پھیل گئی۔ صدیاں گزر گئیں لیکن ان کے نقوش آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

متعلقہ خبریں

Back to top button