مضامین

مقصدِ زِندگی

از قلم: صباء فردوس بنت ناظر چاؤس (صدرِ جی آئی او و معلمہ نوبل سیمی انگلش اسکول ہنگولی)

 

ایک عقلمند انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو اس کے کچھ مقاصد اور اغراض ہوتے ہیں ، جن کی تکمیل کے لیے وہ شب و روز جد و جہد کرتا ہے ، جانی ومالی قوت صرف کرتا ہے اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتا ہے ، اگر کچھ مسائل و مصائب درپیش ہوں تو انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتا ہے ؛ لیکن اپنے مقصد اور مشن سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتا اور نہ ہی لا یعنی اوربیکار چیزوں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے ، ایک انسان جب بلا مقصد کوئی کام نہیں کرتا تو کیا آپ نے اس وسیع و عریض کائنات میں کبھی غور کیا کہ…اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ وسیع و عریض کائنات خلق فرمائی۔ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ عظیم کائنات بغیر کسی مقصد کے تخلیق نہیں کی گئی۔ ہر شے ایک خاص ہدف و مقصد کے تحت وجود میں آئی یہ چمکتا ہوا چاند ، روشن سورج ، اونچے نیل گوں آسمان ، چوڑی چکلی زمین ، یہ ہرے بھرے درخت ، پھیلے ہوئے پہاڑ ، چرند و پرند ، تالاب اور سمندر اوربھی ان گنت چیزیں جن سے خدا نے کائنات کو سجایا اور بسایا ہے ، اس کا کیا مقصد اور غرض ہے ؟ کیا آپ نے کبھی اپنے وجود میں غور کیا کہ یہ حیرت انگیز جسمانی ساخت ، دماغ اور معدہ کا پیچیدہ نظام ، آنکھ ، کان ، ناک ، ہونٹ ، زبان اور دیگر اعضاء کی مناسب تخلیق کس نے اور کیوں کی ؟ کیا یہ سارا نظام یوں ہی وجود میں آگیا یا اس کا کچھ مقصد اور غرض ہے ؟

 

یہ اور اس طرح کے مختلف سوالات کے جواب کے لیے قرآن اور احادیث کی تصریحات پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ساری کائنات کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے نفع کے لیے بنایا ، اگر کسی میں ظاہری طور پر ضرر کا پہلو نظر آئے تو بھی یقین کرنا چاہئے کہ اس میں بھی انسان کا نفع پوشیدہ ہے ، ہماری عقل اس کے ادراک سے قاصر ہے ، بہر حال دنیا کی تمام چیزیں انسانی خدمت اور ان کی نفع رسانی کے لیے ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ، یعنی انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا اور اس کے مشمولات سے نفع اٹھائے اور اپنے رب کی بندگی و اطاعت کرے ، اپنی مرضی کو اسی کی مرضی کے تابع کرے اور اسی کو حاجت روا اورمشکل کشا سمجھے ، خدانے تخلیق انسانی کے اس مقصد کو اس طرح بیان کیا ہے :وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶ مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝۵۷ اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُ۝۵۸ (الذاریات : ۵۶ – ۵۸ )*’’ میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں ، میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ، اللہ تو خود ہی رزاق ہے ، بڑی قوت والا اور زبردست.**قرآن میں اللہ تعالیٰ ہم سے سوال کرتا ہے ’’بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمھیں یوں ہی بےمقصد پیدا کردیا، اور تمھیں واپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا؟ تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے، اس کی شان اس سے اونچی ہے (کہ وہ بےمقصد کچھ بنائے)، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرشِ بزرگ کا مالک ہے‘‘۔ (المومنون۲۳:۱۱۵)*

 

ایسی زندگی جس کا کوئی مقصد نہ ہو یوں ہی ہے جیسے ایک جسم ہو جس میں روح نہ ہو، یا ایک قافلہ ہو جس کی کوئی منزل نہ ہو۔ زندگی اگر ختم ہو جائے‘ اس کا نشان تک مٹ جائے تب بھی نام سلامت رہے۔ انسان کی مثال اس درخت کی مانند ہے جو سایہ بھی مہیا کرتا ہے اور پھل پھول بھی۔ خود جھلستا ہے مگر اس کے سائے میں چرند، پرند اور مسافر اپنی تھکن اتارتے اور سستاتے ہیں۔ وہ خود پتھر کھاتا ہے مگر پھل اور سایے سے محروم نہیں کرتا ہے، اپنی سرشت تبدیل نہیں کر سکتا۔اللہ نے تو ہمیں بھٹکنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ہماری زندگیاں ایک خوب صورت معنی خیز مقصد کی حامل ہیں جوجب ایک مرتبہ واضح ہوجائے تو بہت ساری الجھنیں دور ہوجاتی ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بارہا ذکر کرتا ہے کہ اس کی کوئی بھی مخلوق بے مقصد پیدا نہیں کی گئی: ’’ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے‘‘(الانبیاء ۲۱: ۱۶-۱۷)۔ یہی مضمون سورة حجر ۱۵: ۸۵-۸۶، سورة یونس ۱۰:۵ اور سورة دخان۴۴: ۳۸-۳۹ میں بھی بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد جوکچھ ہے، سب ایک نہایت گہرا اور پاکیزہ مقصد رکھتےہیں:’’ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق، اور ایک مدتِ خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے‘‘ (الاحقاف ۴۶:۳)۔

 

پس، وہ مقصد کیا ہے اور انسانی زندگی پر کیسے اثرات چھوڑتا ہے؟اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: *’’اُس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘* (الملک۶۷:۲)۔ہم اس دنیا میں اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آزمائے جائیں۔ کیوں؟ اس لیےکہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم نے اللہ تعالیٰ سے عہدکیا تھا کہ وہی ہمارا رب ہے۔ لہٰذا اللہ ہمیں آزما کر دیکھتے ہیں کہ ہم کس حد تک اپنے رب کے وفادار ہیں؟ پھر ہماری وفاداری کے بدلے میں بطور انعام ہمیں جنت ملےگی۔ یہ دراصل ایک سودا ہے: دنیا کی فانی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق، پھر آخرت کی ہمیشگی کی زندگی ہماری مرضی کے مطابق۔

*آپکی زندگی کا مقصد کیـا ہـے…؟*

اچھی ایجوکیشن…؟

اچھی جاب…؟

اچھا لائف پارٹنر…؟

اچھا گھر، گاڑی…؟

لگژری لائف سٹائل…؟

 

یہ سب تو راستے کا سامان اور دُنیاوی زندگی کا دھوکہ ہیں، اِنکو مقصد بنانے والے بھلا دُنیا میں کتنے ہی کامیاب کیوں نہ دِکھتے ہوں واللّٰہ اُس رب کی نظر میں کامیاب نہیں ٹھہر سکتے…!دُنیا کو کامیاب بناتے بناتے آخرت کا ابدی خسارہ نہ مول لیجیے، دُنیاوی زندگی تو ایک خواب اور سراب کی مانند چند لمحوں کی ہے جو موت کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی…!ہمارا اصل گھر تو آخرت میں ہے، ہماری قسمت کا فیصلہ تو روز محشر ہو گا، خُدارا دُنیا کی چند چیزوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کے سودے مت کیجیے ۔

 

 

ہمیں اپنی زندگی اور اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کیا ہم اپنی تخلیق کے مقاصد کو پورا کررہے ہیں ، بندگئی رب کا حق ادا ہورہا ہے اور کیا خدا کے اتنے عظیم احسانات کا شکر ہم سے کسی نہ کسی درجہ میں ادا ہوررہا ہے —- افسوس کہ اللہ کے بے پایاں احسانات اور اس کے غیر معمولی انعام و اکرام سے استفادہ ہم شب و روز کرتے ہیں ، مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس ذات نے ہمارے اوپر اتنا انعام کیا اور جس کے احسان سے ہم کبھی سبکدوش اور بے نیاز نہیں ہوسکتے اس کی عبادت اور دئیے گئے ضابطۂ حیات کے مطابق زندگی گذارنے کے ہم پابند ہیں ، تھوڑی سی پریشانی سے عبادت کا سارا نظام بکھر جاتا ہے ، کیا یہی ایمان و عمل کا تقاضہ ہے اور کیا یہی مقصد تخلیق کی تکمیل کی کوشش ہے ؟ یاد رکھئے ! ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے جب تک کہ خدا کی عبادت ، اس کی بندگی اور اس کی رضاکے لیے اپنے وجود کو نہ مٹادیا جائے … بقولِ اِس شعر: *میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی*

*میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی*

اسی کے لیے کائنات کا نظام جاری ہے اور اسی کے لیے اس کے احسانات کی بارش ہم پر ہورہی ہے ، سوچئے اور ہزار بار سوچئے … کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کی رضامندی حاصل کئے بغیر ہمارے جسم سے روح کا رشتہ ختم ہوجائے اور بے سرمایہ ہمیں اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا پڑے ، پھر وہاں کی ذلت اور ابدی مشکلات سے ہمارا استقبال کیا جائے ، ہم وہاں پکاریں اوروہاں کوئی ہماری فریاد رسی کرنے والا نہ ہو ، آج مہلت ہے ، اس سے فائدہ اٹھائیے اور عمل کے لیے کمر بستہ ہوجائیے ۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button