مضامین

مولانا شفیق قاسمی ؒ 

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے سابق رکن، کانگریس اقلیتی سیل ضلع بیگوسرائے ، غیر منقسم مونگیر جمعیت علماءکے سابق صدر، جامعہ رشیدیہ بیگو سرائے کے بانی ، مدرسہ بدر الاسلام کے سابق استاذ حضرت مولانا شفیق عالم قاسمی براسی (82) سال کی عمر میں قلب کے آپریشن کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جاملے، اطلاع کے مطابق دوروز قبل انہیں دل کا دورہ پڑا تھا، میڈی ورسل ہوسپیٹل میں ڈاکٹر نلنی رنجن کی نگرانی میں علاج شروع ہوا، پیس میکر لگانے کی تجویز آئی، چنانچہ فوری کارروائی شروع ہوئی اور آپریشن ہو گیا، پیس میکر لگا دیا گیا، لیکن بے ہوشی دور نہیں ہوئی 23 جنوری 2023 مطابق یکم رجب 1444ھ بوقت سات بجے شام حادثہ پیش آگیا، اہلیہ پہلے ہی انتقال کر گئی تھیں، پس ماندگان میں تین بیٹے، محمد افروز، ڈاکٹر معراج الحق، محمد اعزاز اور پانچ لڑکیوں کو چھوڑا، ان میں سے ایک نامور عالم دین، بڑے محقق، مفسر اور لجنة اتحاد علماءالمسلمین قطرکے مفتی مولانا خالد حسین نیموی کے نکاح میں ہیں، مولانا خالد حسین نیموی امارت شرعیہ کے دار العلوم الاسلامیہ کے سابق اور مدرسہ بدر الاسلام بیگو سرائے کے موجودہ استاذ ہیں۔

چوکہ ان کی رہائش ہرّک بیگو سرائے میں تھی ، اس لیے دوسرے دن ڈھائی بجے جنازہ کی نماز ہرک میں ادا کی گئی اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ہرّک قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ کی امامت ان کے داماد مولانا مفتی خالد حسین نیموی نے فرمائی، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم سے مفتی سعید الرحمن صاحب مفتی امارت شرعیہ کی قیادت میں امارت شرعیہ کے ایک مو قر وفد نے تدفین میں شرکت کی اور حضرت امیر شریعت کا پیغام سوگوار خاندان تک پہونچایا۔یکم فروری 2023 کو منعقد بیگوسرائے کی ایک تعزیتی مجلس میں احقر محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کی بھی شرکت ہوئی اور بُجھے ہوئے دل سے کچھ تعزیتی کلمات کہے گیے۔

مولانا شفیق عالم قاسمی بن مقصود عالم کی جائے پیدائش نیما چاند پورہ ضلع بیگو سرائے ہے۔ 1940 میں اسی گاؤں میں آ پ نے آنکھیں کھولیں، ناظرہ دینیات اور ابتدائی فارسی کی تعلیم مدرسہ بشارت العلوم نیما میں حافظ وقاری محمد صدیق ؒ صاحب سے حاصل کرنے کے بعد ڈھاکہ (موجودہ ضلع بنگلہ دیش) میں حضرت مولانا محمد اللہ صاحب عرف حافظ جی حضور خلیفہ حضرت تھانوی ؒ کے سامنے حفظ قرآن کے لیے زانوے تلمذ تہہ کیا اور چودہ پارے ان سے حفظ کیے، وہاں سے پھر مولانا محمد ادریس نیموی ؒ کی تحریک پر پہلے مدرسہ تجوید القرآن مونگیرمیں مولانا سعد اللہ بخاری صاحب کی زیر سر پرستی تعلیم حاصل کی اور پھر جامعہ رحمانی مونگیر میں داخلہ لیا، ایک سال وہاں قیام کے بعد پھر جامعہ عربیہ قرآنیہ لال باغ ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش)چلے گیے اور حافظ جی حضور کی زیر سر پرستی قاری مفیض الرحمن نواکھالی اور حافظ نور الہدیٰ سے حفظ قرآن کی تکمیل اور دور کے مراحل طے کیے، اس کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی، علامہ ظفر احمد تھانوی اور مولانا احتشام الحق تھانوی کے دست مبارک سے آپ کے سر پر دستار باندھی گئی۔

عربی کی تعلیم کا آغاز مدرسہ بدر الاسلام بیگو سرائے سے ہوا، یہاں آپ نے 60-1956کے دوران عربی اول سے عربی پنجم تک کی تعلیم پائی، 1961میں آپ دار العلوم دیو بند تشریف لے گیے، 1964تک آپ کا وہاں قیام رہا، انہوں نے بخاری شریف فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الحسنؒ سے پڑھی ، آپ کو اس وقت کے بڑے علماءومشائخ کی خدمت کا موقع ملا اور آپ نے سب سے کسب فیض کیا، مسلسلات حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور حجة اللہ البالغہ کا درس قاری محمد طیب صاحب رحمہما اللہ سے لیا، دوران طالب علمی بلکہ دار العلوم دیو بند جانے سے قبل ہی آپ کا نکاح مشہور حکیم اور معالج حکیم یٰسین صاحب کی اکلوتی صاحب زادی صفورہ خاتون سے ہو گیا تھا۔

دیو بند سے واپسی کے بعد آپ نے تدریسی زندگی کا آغاز اپنی مادر علمی مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے سے کیا، ملی، سماجی اور سیاسی سر گرمیوں میں مشغولیت کی وجہ سے بعد میں بدر الاسلام کی تدریسی زندگی کو آپ نے خیر باد کہہ دیا ، لیکن کم وبیش بیس سالوں تک مدرسہ کی خدمت صدر کی حیثیت سے کرتے رہے۔ جمعیت علماءکے پلیٹ فارم سے بحیثیت صدر وسکریٹری مولانا کی خدمات انتہائی وقیع ہیں، سیاست کی بات کریں تو کانگریس اقلیتی سیل کے صدر کی حیثیت سے مدتوں خدمات انجام دیں، تدریسی زندگی کو خیر باد کہنے کے بعد ذریعہ معاش تجارت کو بنایا اور اس میں اس قدر نام کمایا اور شہرت حاصل کی کہ بیگو سرائے چیمبر آف کامرس کے صدر منتخب ہوئے۔ امارت شرعیہ کی شوری کے ممبر رہے اور وفود کے دوروں کے موقع سے ان کا خصوصی تعاون ہمیشہ امارت شرعیہ کو ملتا رہا ، پوری زندگی ، توانائی اور انرجی ملت کے لیے وقف کر دیا، جامعہ رشیدیہ بیگو سرائے قائم کرکے دینی تعلیم کی ترویج واشاعت کا انتظام کیا، بہت سارے مکاتب ومدارس کے سر پرست ونگراں رہے، اللہ نے خوب کام لیا، عزت بھی دی اور شہرت بھی دی ، جہاں رہے نیک نام رہے، اور آخری حد تک اپنی صلاحیت کو صالحیت کے ساتھ دینی خدمات کے لیے وقف رکھا۔

مولانا سے میری ملاقات پرانی تھی، بیگو سرائے میں مولانا کا قائم کردہ جامعہ رشیدیہ وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ سے منسلک ہے، کبھی جائزہ یا کسی اور پروگرام میں جانا ہوتا تو مولانا سے ملاقات ضرور کرتا، مولانا اسم بامسمی تھے، شفیق نام تھا اور چھوٹوں پر شفقت بہت کیا کرتے تھے، میری آخری ملاقات گذشتہ ماہ ہی دہلی میں ہوئی تھی، موقع مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن اور فخر المحدثین مولانا سید فخر الحسن رحمہما اللہ پر سمینار کا تھا، جو صد سالہ تقریب کے عنوان سے جمعیت علماء(مولانا محمود مدنی گروپ) نے کروایا تھا، مولانا نے اس سمینار میں انتہائی جذباتی انداز میں مولانا فخر الحسن صاحب پر اپنا مقالہ سنا یا تھا، ان کے ساتھ مولانا خالد نیموی بھی تھے، دستر خوان پر ہم لوگ الگ سے ان کی باتوں سے مستفیض ہوتے رہے ، ان کے اندر بزرگانہ خشکی نہیں تھی، اور نہ ہی بزرگی کا رعب تھا، اس لیے ہم لوگ کھل کر باتیں کرتے رہے، مولانا خالد حسین نیموی سے میں نے اسی مجلس میں یہ درخواست بھی کی تھی کہ ان کی سوانح جو آپ نے مرتب کرنا شروع کیا تھا اور جس کی کئی قسطیں سوشل میڈیا پر آئی بھی تھیں کو مکمل کر دیں، تاکہ مولانا کی زندگی میں ہی یہ کام مکمل ہوجائے، مفتی خالد حسین صاحب نے وعدہ بھی کیا تھا کہ دہلی سے جا کر لگوں گا، لیکن کیا معلوم تھا کہ اس کتاب کی تکمیل کے قبل ہی ان کی حیات کا آخری ورق الٹ جائے گا اور ہم سب ان کے فیوض وبرکات سے محروم ہو جائیں گے۔ گذشتہ دنوں تعزیتی جلسہ میں جانا ہوا تو کئی مقررین نے اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر کیا کہ وہ میری تحریروں کے بڑے مداح تھے اور اپنے عزیز و رفقاءکو اسے پڑھنے کی تلقین کیا کرتے، بعضوں کو وھاٹسپ کے ذریعہ خود منتقل کرتے۔میں یادوں کے چراغ ضرور جلاتا ہوں ، لیکن مولانا طلحہ نعمت ندوی کی رائے ہے کہ میں اسے مرثیہ بنانے سے گریز کرتاہوں اور کسی کی جدائی پر ماتم کا میرا مزاج نہیں ہے ، لیکن کیا کروں مولانا کی جدائی پر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور جب ہم دور والوں کا یہ حال ہے تو ان کے بچوں پر کیا گذر رہی ہوگی ، مولانا خالد حسین نیموی پر کیا گذر رہی ہوگی، جن کے کم سنی میں والد کے گذر جانے کے بعد سارا کچھ ایک والد کی طرح انہوں نے کیا تھا، اور مفتی صاحب سے کی زندگی پر سکون رہے اس کے لیے اپنی تربیت یافتہ لخت جگر ان کے نکاح میں دیا۔ اب مفتی صاحب زیادہ کون اس بات کو جانے گا کہ صبرآتے آتے آتا ہے، لیکن صبر صدمہ اولیٰ کے وقت کا ہی معتبر ہے، روپیٹ کر تو سب کو صبر آجاتا ہے۔

اللہ پورے خاندان اور مفتی خالد صاحب ان کی اہلیہ، مولانا کے تلامذہ، رفقاءاور معتقدین کو صبر وثبات کی توفیق بخشے، مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کا بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ آمین۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button