مضامین

موبائل فون اورمعصوم بچے… ماں باپ کے لےء لمحہ فکریہ

رشحات قلم
عبدالقیوم شاکر القاسمی
جنرل سکریٹری جمعیت علماء ضلع نظام آباد. تلنگانہ
9505057866

 

گذشتہ کچھ ایام سے باربار دل میں خیال آرہاتھاکہ موبائل فون سے معصوم بچوں کے بڑھتے ہوے لگاواورمختلف پروگرام دیکھنے کے ذوق سے متعلق کچھ مشاہدات ومعلومات رقم کروں بالآخر رات تقریبا بارہ بجے کے بعد ایک سفر کے دوران اس موضوع پر اپنے خیالات کے اظہارکاموقع اوروقت میسرآہی گیاتو غنیمت جانتے ہوے اس تحریر کو ضبط کررہاہوں ۔۔۔۔۔

 

 

ہم اورآپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ موبائل فون جہاں ہماری ایک بہت بڑی ضرورت کی تکمیل کااہم و سیلہ ہے وہیں وبال جان اورمصیبت کا سامان بھی ہے ہر مصروف اوروقت کا قدر داں انسان اس معاملہ میں میراحامی بنے گا کہ موجودہ ماحول اورانتہای مصروف ترین زمانہ میں فاصلوں کوسمیٹنے اوررابطوں کو آسان بنانے میں موبائل فون کا بہت ہی اہم کردارہے کہ انسان اس آلہ صوتی کے ذریعہ بعدمسافت اوردوریوں کو لمحوں میں ختم کرتا ہے اور گھنٹوں میں ہونے والے کاموں کو چند ساعات میں مکمل کرلیتاہے
لیکن

 

میں آج موبائل فون کے مفاسد ومضرات اور عام مشاہداتی نقصانات کو شمار کراتے ہوے یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس موبائل نے سب سے پہلےتولوگوں کو ضیاع وقت کا عادی بنادیا نیز اسی کے ذریعہ بے حیای کا شیوع ہورہا ہے انسانوں سے جھوٹ بولنے کے گناہ عظیم کا احساس ختم کررہاہے
اس فتنہ موبائل نے یقینا جہاں بڑوں کو متاثر کیا ہے وہیں چھوٹے بچوں کے سلسلہ میں بھی کوی کسرنہیں چھوڑا
راقم الحروف نے اپنے ہی جاننے والوں رشتہ اعزاء واقرباء اوردوست احباب اہل علم وبے علم سب گھرانوں کی حالت دیکھی کہ والدین اپنی ذمہ داریوں میں لگے ہوے ہیں اوربچے ہیں کہ موبائل فون میں مگن ہیں کوی گیمس کھیلنے کو مشغلہ بنایاہواہے تو کسی نے کہانیاں لگاکر بالکل چہرہ کے قریب کیا ہواہے ایک دونہیں گذشتہ ایک ماہ کے دوران کئ ایک گھرانوں میں جانے اوربچوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہر گھر کا وہی حال بناہواہے جو انتہای سنگین توہے ہی مگر مستقبل میں یقیناان بچوں کےلےء خطرناک ثابت ہوسکتا ہے
آج سے شاید دوبرس قبل شہرنظام آباد کے قرب میں واقع ایک منڈل کی خبر اخبارات میں شائع ہوی تھی کہ ایک 4/سالہ بچی جس کو کھاناکھاتے وقت موبائل میں اپنے پسندیدہ کارٹوں دیکھتے ہوے ہی کھانا کھاتی ہے اوریہ جنون اتنا بڑھا کہ وہ کسی قیمت پر بناموبائل ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے نہیں اتارتی ہے ڈاکٹرس سے رجوع کیا گیا تو معلوم ہواکہ یہ بچی اب نفسیاتی طورپر ایسی ہی رہے گی جس کا علاج ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور رہے گا۔
بہت افسوس اوررنج ہوا اس خبر کو پڑھ کر لیکن جب حقیقت حال سے واقفیت ہوی تو معلوم ہواکہ اکثر وبیشتر گھرانوں میں بچوں کا یہی حال ہے
الامان الحفیظ

 

اب اس معاملہ میں کس کو مجرم قراردیا جاے اورکس کو غیر ذمہ دار بتلایا جاے سمجھ میں نہیں آتا چونکہ والدین اپنے بچوں کو دیگر شرارتوں سے بچانے اوراپنی گھریلو ذمہ داریوں اورمصروفیات میں رکاوٹ بتاکر بچوں کو موبائل میں مشغول کررہے ہیں کوی صوفہ پہ بیٹھا ہوا مست ہے کوی بستر پر لیٹا ہوا مست ہے کوی گھر کے کسی کونہ میں موبائل تھامے ہوے مگن ہے سفروحضر کا ساتھی بن کر ہرحال میں موبائل ان کے ہمراہ ہے حتی کہ ان بچوں کو گھر میں آنے جانے والوں کی بھی کوی خبر ہے نہ پرواہ بس ایک ہی دھن لگی ہے اوروہ ہے موبائل فون

 

اس کے علاوہ بھی اگر غورکیا جاے تو جہاں موبائیل سے ان کے اخلاقیات کا بگاڑ عروج پر ہے تو وہیں طبعی اورطبی طورپر یہ بچے کوی آنکھوں کے مریض بن رہے ہیں تو کوی ہاتھوں میں لرزہ کے شکار تو کوی دماغی امراض سے متاثر ہورہے ہیں

 

میں بس اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدارااپنے بچوں کو ان موبائیل فون کے گیموں اورکارٹونوں ودیگرپروگراموں سے دوررکھیں جوترکیب ممکن ہوں اس کو اختیارکرکے بچوں کی اس عادت پر روک لگانے کی ہرممکنہ کوشش کریں ورنہ بعد میں محض کف افسوس ملنے اورخون کے آنسو بہانے کے سواکچھ ہاتھ نہ آے گا حالانکہ گذشتہ دس بارہ سال قبل تک بھی بچوں کواس سلسلہ کوی خاطر خواہ دلچسپی محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن اب حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں نہ بس اسٹیشن نہ ریلوے اسٹیشن نہ گھر نہ پارک کوی جگہ ایسی نظر نہیں آرہی ہے جہاں بچے موبائیل فون میں مصروف نہ ہوں والدین اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اوربہترسے بہتر تدابیر اختیارکرکے اس مہلک ومضر عادت سے بچوں کو بچائیں راقم الحروف نے بہت سارے دوست احباب کو اس جانب توجہ دلای انہوں نے اس کو قبول بھی کیا اور اپنی بساط کے مطابق انہوں۔نے بچوں کوسمجھاکر یا ڈراکر موبائل فون سےدوررکھنے کی فکر کی اورکامیاب بھی رہے اسی درد کے پیش نظر اس نظریہ کو رقم کیا ہوں ۔اللہ پاک ہم سب کو توفیق فہم وعمل نصیب فرماے آمین

متعلقہ خبریں

Back to top button