مضامین

مزاحیہ مضمون ۔آخری خواہش

انس مسرورؔانصاری

ایک پھول سے آجاتی ہے ویرانے میں رونق
ہلکا سا تبسّم بھی مری جا ن بہت ہے
بھارت میں سب سے زیادہ بڑی ۔سب سے زیادہ غورطلب۔موذی،مہلک اوروبائی صورت میں پھیلنے والی بیماری کانام ‘‘نیتاگیری’’ہے۔یہ ایسی بیماری ہے کہ جسے لگ جاتی ہے اُس کی جان لے کرٹلتی ہے۔یہ بیماری کبھی خودلگتی ہے اور کبھی لگائی جاتی ہے۔سیاسی بیماری جب ترقی کرکے لاعلاج ہوجاتی ہے تواُسے نیتاگیری کہتے ہیں۔ہمارے ملک میں اسّی فی صدی آبادی اسی مرض میں مبتلاہے۔ہربستی ،ہرگاؤں، ہرشہراورہرنگرمیں یہ شہزادی راج کرتی ہے۔اس کے عشق میں ہرنیتاپاگل ہے۔اس شہزادی نے بہتوں کوآبادکیااوربہتوں کوبربادکیاہے۔

ہمارے ملک کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اکثرنااہل اپنے آپ کوقیادت کااہل پاتے ہیں۔ہرکوئی قوم کی قیادت اوراپنی خدمت کرناچاہتاہے۔ پہلے زمانے میں وہی لوگ سیاسی میدان میں قدم رکھتے تھے جن کے دل گردے بہت بڑے اورمضبوط ہوتے تھے۔وہ ملک اورقوم کی ترقی کے لیے سوسوجتن کرتے اوراپناگھرپھونک کرتماشہ دیکھتے تھے۔موجودہ زمانہ میں سیاست ایک پروفیشنل بزنس کی طورپر سامنے آئی ہے۔اب نیتاگیری کامیاب ہوجاتی ہے تولاکھوں کروڑوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔اس لیے عام آدمی کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نیتابن جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب نیتاگیری سے پہلے داداگیری سیکھنی پڑتی ہے۔بدمعاشوں اوراُٹھائی گیروں کاایک ہجوم اپنے ساتھ رکھناپڑتاہے۔نیتاگیری تب کامیاب ہوتی ہے جب چمچے اورخوشامدیوں کی تعدادزیادہ ہو۔ جرائم میں مہارت حاصل ہو۔سیاسی تجارت کے لیے بھارت کی زمین بڑی زرخیزہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثرغنڈے،موالی،بلیک میلراو رمافیا والے اپنااپنادھندہ چھوڑکرراج نیت میں آگئے کہ اس میں راجہ اورمہاراجہ بننے کے چانسزبہت زیادہ ہیں۔یہاں رام رام جپ کے پرائے مال کواپنابنالینابہت آسان ہے۔خاص بات یہ بھی ہے کہ جب کوئی نیتامنتری بنتاہے تووہ تنہامنتری نہیں بنتابلکہ گھروالی،سالے،سالی، اینڈسنزاینڈبرادرزسمیت منتری بنتاہے۔پھراُس کے پی،اے اورپیابھی ہوتے ہیں۔پرسنل سکریٹری ہرچند کہ سرکاری ہوتے ہیں مگر اصل سکریٹری تواس کے اپنے ہی خاص لوگ ہوتے ہیں۔انھیں کے رائے مشورہ سے ٹینڈرپاس ہوتے اور افسروں کے تبادلے ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتاہے۔ نیتاگیری میں قومی املاک نیتاؤں کے لیے ‘‘جملہ حقوق محفوظ’’کے زمرے میں آتی ہیں۔

ماسٹرپیارے لال جب منتری ہوئے توگاؤں میں اُن کی ان پڑھ،جاہل،گنوارانگوٹھاچھاپ دھرم پتنی آپ سے آپ منترائن بن گئیں اوراُن کی سکھی سہیلی جن کی سات پشتوں میں بھی کوئی چودھری نہیں تھا،گاؤں والے اُنہیں جوکھنی،سکھاری،بدھنی کے بجائے ڈرکے مارے اچانک چودھرائن کہنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تین سال کے اندرماسٹرپیارے لال کامعمولی مکان عالی شان بلڈنگ میں بدل گیا۔ ان کامکان بن جانے سے گاؤں کی شوبھابہت بڑھ گئی۔ایک بارجب وہ فارن ٹورسے گھرواپس آئے تو ان کے کتوں نے ان کازبردست ، پُرجوش اورپُرخروش استقبال کیا۔وہ اتنابھونکے اتنابھونکے اوراس قدراپنی دُمیں ہلائیں کہ نیتاجی کوکہناپڑا۔‘‘بســ……بس……بہت ہوگیا۔اب مجھے اورشرمندہ نہ کریں۔’’
بعض لوگوں کاخیال ہے کہ ہمارے دیش کے نیتاکام کچھ نہیں کرتے،بس وعدے کرتے ہیں اورآرام کرتے ہیں،لیکن ایسانہیں ہے۔وہ محنت بھی بہت کرتے ہیں۔ہمارے دوستوں میں ایک سردارجی نے بتایاکہ اُن کی وائف امریکہ کی بڑی تعریف کرتی ہیں۔کہتی ہیں کہ امریکہ ایک دولت منداورمہان دیش ہے۔’’ہمارے دوست نے ایک دن جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا:‘‘کی ہوتاہے دولت سے۔؟کوئی امریکن لیڈرایک دن سے زیادہ بھوک ہڑتال کرسکتاہے؟ہمارے دیش میں ساڈھا ہرنیتا ہر سال کئی کئی مرن برت رکھتاہے۔مہان ہے ہمارادیش اوراس کے نیتا۔’’

انسان غلطیوں کاپُتلاہے۔کبھی کبھی ہم سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ایک سیاسی جلسہ میں شرکت کی غلطی ہوئی تودیکھا۔منچ پربہت سارے نیتابراجمان ہیں۔راجدھانی سے آئے ہوئے ایک بڑے نیتاکا بھاشن تھا۔پبلک بھی بہت تھی(پبلک بیچاری کیاکرے۔اُسے بھی توتفریح چاہئے)شہرکے نیتاباری باری منچ پرآتے اورمہمان لیڈرکے گن گان کرکے بیٹھ جاتے۔شہرکے ایک اورنیتاقصیدہ خوانی کے لیے جیسے ہی مائک پرآئے۔مائک والے نے اُن کے سامنے سے مائک ہٹالیا۔
‘‘کیوں ۔؟تم نے میری باری پرمائک کیوں ہٹالیا۔؟؟’’نیتاجی نے مائک والے پربرہم ہوتے ہوئے پوچھا۔
‘‘نیتاجی !تم مکھن بہت لگاتے ہو،اتناکہ میرامائک بلکہ ساراسِٹ چکناہٹ سے خراب ہوجاتاہے۔میں اپنے مائک میں تمھیں نہیں بولنے دوں گا۔’’
سارے نیتاؤں کی خصوصیات قریب قریب مشترک ہیں۔جب بھی وہ بھاشن دیں گے توساری جنتاکواپنے بھائی ،بہن،ماں ،باپ اورجانے کیاکیا بتائیں گے۔ان کی تقریرمیں سارے انسانی رشتے جمع ہوکرماں،باپ،بہن،بھائی ہوجاتے ہیں۔اسی لیے وہ اپنے ہربھاشن کی ابتداء ہمیشہ ‘‘میرے بھائیو،بہنوں اورماتاؤں’’سے کرتے ہیں۔چنانچہ شامتِ اعمال کہ ایک بار اورغلطی ہوئی اورہم ایک سیاسی جلسہ میں چلے گئے۔کسی نیتاکے اعزازمیں توصیفی تقریب تھی۔بہت دیرتک نیتاجی لگاتارجھوٹ بولتے رہے۔اپنی تعریف کرتے رہے۔عوام کوبیوقوف بناتے رہے۔جلسہ ختم ہواتومنچ سے نیچے آئے ۔بھیڑکافی تھی۔وہ لوگوں سے ہاتھ ملاتے، ہاتھ جوڑکر نمشکارکرتے ۔ لگاتارمسکراتے ہوئے ،پھول مالاؤں سے لدے پھندے پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔ اچانک اس وقت ایک میڈیاوالے نے اُ ن سے سوال کیا۔‘‘شری مان جی!ابھی تک آپ نے شادی نہیں کی ۔؟کیااس کی وجہ آپ بتاسکتے ہیں۔؟’’
‘‘کیوں نہیں بھائی!’’وہ مسکراتے ہوئے بڑے شرمیلے انداز میں گویاہوئے۔‘‘تین چاربہنوں کے رشتے آئے ہوئے ہیں اورایک بہن جی سے توبات بھی چل رہی ہے۔’’
بھارت کاہرنیتاجب مرتاہے توہمیشہ سورگ واس ہی ہوتاہے۔کبھی نرک واس نہیں ہوتا۔ہم نے اخباروں میں ہمیشہ یہی پڑھا۔تمام نیتاؤں کی خواہشیں بہت بڑی بڑی ہوتی ہیں مگرایک مشترکہ خواہش سب سے بڑی ہوتی ہے۔

شہرکے ایک بڑے اورمشہورنیتاسورگ واس ہوگئے۔شمشان گھاٹ جانے کے لیے بڑاہجوم اکٹھّا ہوگیا۔تل دھرنے کوجگہ نہیں رہی۔سورگ واسی نیتا کے سوگ میں ایک دن کے لیے سرکاری چھٹی کابھی اعلان ہوگیا۔ارتھی کے ساتھ جانے کے لیے بڑے بڑے نیتا،منتری،سنتری،سرکاری افسران اور ہٹوبچو کے لیے کافی تعدادمیں پولیس فورس بھی حاضروموجودتھی۔جب ارتھی بالکل تیار ہوگئی توسورگ واس نیتاجی کے آخری درشن کے لیے اُن کے عالی شان بنگلہ کے وسیع لان میں ارتھی لاکررکھ دی گئی۔بھیڑاُمنڈپڑی ۔ذراسی دیر میں ارتھی پھول مالاسے بھرگئی۔زندگی میں اتناپھول مالااُنھیں چڑھایا گیاہوتاتومارے خوشی کے پھولوں کے بوجھ سے بے موت مرگئے ہوتے۔اچانک ایک آواز اُبھری ۔
پہلی آوازـ:۔‘‘نیتارگھومل جی کی جئے ہو۔ساری عمردیش اورجنتاکی سیوامیں گزاردی۔’’
دوسری آوازـ:۔‘‘نیتاجی مہان ہیں،مہان تھے اورسدیومہان رہیں گے(کیونکہ نیتاجی نے سدیوجنتاسے زیادہ خوداپنی خدمت کی۔جنتاسے بڑے بڑے وعدے کرکے ووٹ لیتے اور آخری سانس تک جھوٹے وعدوں پرٹرخاتے رہے)
تیسری آوازـ:۔ ‘‘نیتاجی بہت لوک پریئے تھے۔’’ (کیوں نہ ہوتے۔اُنھیں جنتاکواُلّو بنانے کاہنرمعلوم تھا)
چوتھی آواز:۔‘‘آج جمہوریت کے محل کاایک ستون گرپڑا۔جنتاپرپہاڑٹوٹ پڑا(حالانکہ نیتاجی جمہوریت کے معنی تک نہیں جانتے تھے۔نیتاگیری سے پہلے رائی کاتیل بیچتے تھے اورتیل کواصلی ثابت کرنے کے لیے اُس میں پیازکاعرق ملایاکرتے تھے تاکہ سونگھنے پرکڑواہٹ زیادہ معلوم ہواورتیل اصلی لگے)
پانچویں آواز:۔ ‘‘ارتھی کواب اُٹھاناچاہئے۔سب نے درشن کرلیے ہیں۔؟جئے ہونیتارگھومل جی کی۔’’
چھٹویں آواز:۔‘‘اب ارتھی اُٹھانے میں ادِھک سمئے نشٹ نہیں کرناچاہئے۔جلدسے جلددیش بھکت کی راکھ کودیش بھرمیں ہوائی جہازسے اُڑاناہے (تاکہ کھیت کھلیان بنجرہوجائیں،فصلیں تباہ ہو جائیں)آج دیش بھکت کی بھکتی سپھل ہوگئی۔ارتھی اُٹھائی جائے۔جئے ہونیتارگھومل جی کی۔نیتاجی امررہیں۔’’
ساتویں آواز:۔‘‘ابھی ٹھہروبھائیو!تھوڑی دیراورکشٹ کرو۔بس میڈیاوالوں کوآجانے دو۔وہ لوگ آنے ہی والے ہیں۔نیتاجی کی آخری خواہش تھی کہ پہلے ٹی،وی اورپریس والے آجائیں تب ارتھی اُٹھانا۔’’
٭٭
انس مسرورؔانصاری

قومی اُرد وتحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ)
سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰۔
(یو،پی)
رابطہ:۔۰۹۴۵۳۳۴۷۷۸۴

متعلقہ خبریں

Back to top button