مضامین

تعلیمی اداروں میں بھید بھاؤ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

ذات کی بنیاد پر آج بھی ہندوستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں بھید بھاؤ برتا جا تا ہے ، جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سائنس او رتحقیق کے میدان میں دلت، آدی واسی، اور پس ماندہ طبقات کے طلبہ وطالبات کی تعداد کم ہو رہی ہے ، اس وقت کے وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نے راجیہ سبھا کے معزز ارکان کو2021ء میں یہ اطلاع دی تھی ، ہندوستان کے معروف سائنسی ادارہ آئی آئی اس سی بنگلورو میں 2016سے 2020کے درمیان پی اچ ڈی میں داخلہ لینے والے اعداد وشمار کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ صرف اکیس فی صد امیدوار اس ٹی نو فی صد امیدوار اس سی اور آٹھ فی صد امیدوار او بی سی زمرہ سے کامیاب ہو پائے ، ملک کے سترہ آئی آئی ٹی میں کل پی ایچ ڈی کے خواہش مند طلبہ وطالبات میں بمشکل تمام7 ء 1فی صد اس ٹی، نو فی صد درج فہرست ذات، 27ء 4فی صد او بی سی زمرے سے آئے، یہی حال سائنسی تحقیقی اداروں میں دلت طلبہ وطالبات کا ہے۔ 2016میں جو اعداد وشمار محکمہ تعلیم نے جاری کیا تھا اس کے مطابق درجہ ایک سے بارہ تک درج فہرست ذات اور قبائل کے طلبہ وطالبات کی تعداد اوسط سے زیادہ تھی ، لیکن تعلیم چھوڑنے کی روایت کی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پچھڑتے چلے گیے، ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے 3ء 24فی صد ہیں، جب کہ دلتوں میں یہ تعداد گھٹ کر صرف 1ء 9فی صد رہ گئی ہے۔

اس صورت حال کی وجہ سے دلتوں میں مایوسی پائی جاتی ہے اور یہ مایوسی انہیں خود کشی پر آمادہ کر رہی ہے ، مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے گذشتہ سال پارلیامنٹ میں دیے گیے اپنے بیان میں کہا تھا کہ گذشتہ سات برسوں کے درمیان اعلیٰ تعلیمی ا داروں کے ایک سو بائیس طالب علم نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، ان میں زیادہ تر طلبہ دلت ، آدی باسی ، پس ماندہ طبقات اور مسلم سماج کے تھے ،2014سے 2022کے اعداد وشمار کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس درمیان تین آدی باسی، چوبیس دلت طلبہ ، اکتالیس او بی سی اور اقلیتی زمرہ کے تین طلبہ نے خود کشی کی۔

ذات کی بنیاد پر یہ بھید بھاؤ اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ بھاجپا ممبر پارلیامنٹ کریٹ پی سو لنکی کمیٹی کی رپورٹ جو 2019-20سے متعلق ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ اس بھید بھاو کی وجہ سے درج فہرست ذات اور قبائل کے طلبہ کو ایم بی بی اس(mbbs) میں بار بار فیل کر دیا جاتا ہے ، تدریسی خدمات سے متعلق ان کی درخواستوں پر بھی اس کے اثرات پڑتے ہیں، اور محفوظ زمرے کی نشستیں اسی بنیاد پر خالی چھوڑ دی جاتی ہیں کہ مناسب امیدوار اس عہدے کے لیے نہیں ملا، یہی وجہ ہے کہ چون(54) مرکزی یونیورسیٹیوں میں صرف ایک (1) وائس چانسلر درج فہرست ذات کا ہے، جب کہ مرکزی تعلیمی اداروں میں درج فہرست ذات اور قبائل کے لیے7ء 5، انوسوچت ذات کے لیے 15او بی سی کے لیے 27اور معذور افراد کے لیے 10فی صد سیٹیں محفوظ رکھی گئی ہیں، اس اعتبار سے چون (54)درج فہرست ذات اور قبائل سے ہونے چاہیے، لیکن فی الوقت ان کی تعداد صرف پندرہ ہے، انوسوچت ذاتی کے پروفیسروں کی تعداد 151ہونی چاہیے جبکہ ابھی ان کی تعداد صرف انہتر(69)ہے، حکومت کو چاہیے کہ آزادی کے نام پر منعقد ’’امرت مہوتسو "کے اس سال میں اس بھید بھاوکو ختم کرنے کا کام کرے تاکہ حکومت کیاس نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کی معنویت سامنے آسکے۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button