مضامین

ابن کنول خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو مشہور ادیب، شاعر، افسانہ و خاکہ نگار، ناصر محمود کمال قلمی نام ابن کنول کا ۱۱/ فروری2023 کو علی گڑھ میں انتقال ہو گیا، وہ دہلی سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ اردو کے پی ایچ ڈی کے وائیوا کے سلسلے میں علی گڑھ گئے تھے، وائیوا سے فارغ ہو کر وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے جمال پورگئے تھے، اسی درمیان دل کا دورہ پڑا، فوراً ہی جواہر لال نہرو میڈیکل کالج علی گڈھ لے جایا گیا، لیکن وقت موعود کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے، سو آکر رہا تدفین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قبرستان میں ہوئی۔ ابن کنول معروف قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی بن قاضی شریعت اللہ (متوفی 1930)بن قاضی ادہم علی کے صاحب زادہ تھے، انہوں نے اپنا قلمی نام والد کے تخلص سے نسبت پیدا کرتے ہوئے ابن کنول رکھا تھا، اور اسی نام سے مشہور تھے، 15/ اکتوبر1957 کو بہجوئی، ضلع مرادآباد میں آنکھیں کھولیں، ابتدائی تعلیم گنور، بدایوں کے اردو میڈیم اسلامیہ اسکول میں ہوئی، 1962ءمیں وہ پہلی جماعت میں داخل ہوئے، اور حاجی صفدر علی مرحوم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، پانچویں جماعت تک یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد منٹوسرکل اسکول علی گڑھ میں داخل ہوئے، اس اسکول کا دوسرا نام سیف الدین طاہر ہائی اسکول بھی ہے، 1972ءمیں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل ہوئی، 1978ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا، انہوں نے یہاں کے دوران قیام ادب کی نامور شخصیات قاضی عبد الستار، خلیل الرحمن اعظمی، عتیق احمد صدیقی، پروفیسر شہر یاراور نور الحسن نقوی جیسے علم و ادب کے ماہرین سے کسب فیض کیا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی دہلی یونیورسٹی سے1978 سے 1984ء کے درمیان کیا۔ ان کے مقالہ کا عنوان ”بوستان خیال کا تہذیبی و لسانی مطالعہ“ تھا، اس مقالہ کی تکمیل انہوں نے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی نگرانی میں کیا۔ 1985میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا، اور ترقی کرتے ہوئے صدر شعبہ اردو کے مقام تک پہونچے۔ اکتوبر2022ء میں اسی عہدے سے سبکدوشی عمل میں آئی۔

ابن کنول کے اجداد عہد شاہ جہانی میں ہندوستان وارد ہوئے اور اپنی علمی عبقریت و عظمت کی وجہ سے قاضی کے منصب پر فائز ہوئے، اور قصبہ ڈبائی میں رہائش اختیار کی، آپ کے دادا مشہور وکیل تھے، اور پر دادا فارسی اور سنسکرت کے مشہور عالم ، والد کی شاعری کے دو مجموعے بساط زیست اور سوز وطن ان کی زندگی میں شائع ہو کر مقبول ہو چکے تھے۔ ابن کنول نے انہیں کلیات کی شکل میں ”مضراب“ کے نام سے بھی شائع کیا ہے، ابن کنول کی نشو و نما ادبی ماحول میں ہوئی، اس لیے ان کے اندر شعر و ادب کا ذوق بڑی حد تک فطری اور موروثی تھا، چنانچہ ابن کنول نے دوران طالب علمی ہی سے کہانیاں لکھنا شروع کیا، بعد میں افسانہ نگاری میں انہوں نے بڑا نام کمایا، ان کے افسانے ملک کے مؤقر اخبارات و رسائل میں مسلسل شائع ہوتے رہے، ان کی تصانیف و تالیفات میں ”تیسری دنیا کے لوگ، بند راستے، بوستان خیال؛ایک مطالعہ، آؤ اردو سیکھیں، انتخاب سخن، تحقیق وتدوین، اردو لوک ناٹک؛ روایت اور اسالیب“ خاص طور پر مشہور و معروف ہیں۔ ابن کنول نے اپنی کہانیوں میں اسلامی واقعات و تلمیحات کا سہارا لے کر قاری تک حقائق پہونچانے کی کوشش کی ہے، ”ایک شب کا فاصلہ“ میں اصحاب کہف کے واقعہ سے پلاٹ تیار کیا گیا ہے، ”سویٹ ہوم“ میں حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ذریعہ وادی غیر ذی زرع میں بچوں کو چھوڑ جانے کے واقعہ سے مواد اخذ کیا گیا ہے، ”تیسری دنیا کے لوگ“کی کہانی بدر کے تین سو تیرہ والے واقعہ کی تلمیح کے سہارے کھڑی ہے۔ابن کنول کی تخلیقات کی پذیرائی غیر ممالک میں بھی ہوئی، انہوں نے امریکہ، ماریشس، انگلینڈ، پاکستان اور روس کے اسفار کیے اور وہاں کے سیمینار اور سمپوزیم میں شرکت کی، ان کی خدمات کے اعتراف میں ہریانہ، بہار، مغربی بنگال کی اردواکیڈ میوں نے مختلف ایوارڈ اور انعامات سے نوازا، جن میں سر سید ملینیم ایوارڈ دہلی برائے اردو فکشن ایوارڈ(2001ء) کنور مہندرسنگھ بیدی ایوارڈ ہریانہ(2007ء) دہلی اردو اکادمی فکشن ایوارڈ(2008ء) عبد الغفار نساخ ایوارڈ کولکاتہ(2017ء) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ابن کنول نے افسانوں کے علاوہ خاکے، انشائیے، ڈرامے اور سفر نامے وغیرہ بھی لکھے، تنقید نگاری میں بھی انہوں نے اپنا ایک مقام بنایا۔

ابن کنول کا سانحہ ارتحال علمی و ادبی دنیا کے بڑے خسارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور تصنع سے پاک زندگی گزارنے کے عادی تھے، ان کی تحریر صاف ستھری، مشکل اور پیچیدہ ترکیب اور الفاظ سے شعوری گریز کے مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے، وہ اپنے شاگردوں پر بہت مہربان تھے ، سماجی زندگی گزارا کرتے تھے، اس لیے ان کا سماجی دائرہ غیر معمولی طور پر وسیع تھا، ان کی تحریروں سے مطالعہ کی گہرائی اور مشاہدات کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔

دہلی یونیورسٹی سے سبکدوشی کے بعد حال میں ہی ان کی عمرہ سے واپسی ہوئی تھی، اور دھیرے دھیرے وہ مذہبی اعمال کی طرف بڑھ رہے تھے، ایسا معلوم ہو تا تھا کہ اب انہیں آخرت کی فکر دامن گیر ہے، سبک دوشی کے بعد ایسا عموماً ہوتا بھی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ جانے والا اس قدرجلد چلا جائے، جلد بھی ہمارے اعتبار سے ہے، ورنہ اللہ رب العزت کے نزدیک سب کا وقت مقرر ہے، جب بلاوا آئے چل دینا ہے، ہمیں چوں کہ وقت موعود کا علم نہیں، اس لیے جب کوئی گزرتا ہے تو ہمارے احساسات اسی قسم کے سامنے آتے ہیں، اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے، آمین!

بلا کی چمک اس کے چہرے پہ تھی

مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button