ڈاکٹر اوصاف شامیری خرم کا سانحہ ارتحال

بھوپال۔ بے شمار بزرگان دین سے اپنا تعلق رکھنے والے پیرزادہ ڈاکٹر اوصاف شامیری خرم بروز جمعہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ،ال انڈیا مسلم تیوہار کمیٹی کے ذریعے انہوں نے صرف اپنے دم پر پورے ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے سبھی تہوار امن کے ساتھ منائے جائیں اس کی پہل کی ،اس سے پہلے وہ کئی اخباروں کے صحافی رہے اور بڑے بڑے اخباروں میں تہواروں کے موقع پر ان کے ارٹیکل چھپتے تھے،جب بھوپال سے بینک پردیش ٹائم شروع ہوا تو وہ باقاعدہ اس کے ایڈیٹر رہے اور شام کے اخباروں میں اس اخبار کا بڑا ولولہ تھا جتنے نامور صحافی جو دوسرے اخباروں میں تھے وہ صحافت سیکھنے کے لیے اوصاف شاہ میری خرم صاحب کے ساتھ ہوئے اور یہ بھی افسوسناک بات ہے کہ اس میں سے کئی صحافی اج اس دنیا میں نہیں ہیں مگر وہ جب تک زندہ رہے اور صاف شامیری خرم صاحب کے پیٹ چھوتے رہے اور جو مسلم صحافی تھے وہ اج بھی بڑے بڑے اخباروں میں موجود ہیں
روزنامہ پردیش ٹائم کے ایڈیٹر رہتے ہوئے انہوں نے اپنا کالم یوں ہی شروع کیا تھا اور اس میں وہ جس طرح سے حکومت سے طنز کرتے تھے اور کسی بھی سچائی کو بڑے ہی نایاب طریقے سے تنز و مزا میں اس کا خلاصہ کرتے تھے مجھے یاد ہے اس وقت محکمہ جنگلات کے وزیر کا ایک بہت بڑا معاملہ انہوں نے بڑے نایاب طریقے سے خلاصہ کیا تھا اس کے بعد اس وزیر کو استعفی دینا پڑا تھا۔مگر کچھ دن بعد انہوں نے صحافت کی دنیا سے دوری بنائی اور اپنی زندگی صوفی لائن میں تبدیل کی ان کا تعلق سادات خاندان سے تھا اور حضرت خواجہ پیر فتح فتح اللہ شاہ رحمت اللہ علیہ رائے سہن سے اپنا تعلق رکھتے تھے اس کے بعد انہوں نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور جہاں بھی اولیاء کرام ہندوستان کے استانے موجود ہیں وہاں پر گئے اور بزرگان کی اہمیت کو سمجھا ڈاکٹر اوصاف شامیری خرم نے ال انڈیا مسلم تہوار کمیٹی بنا کر سبھی فرقوں کی مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ کچھ چیزیں شریعت میں نہیں ہیں مگر روایت کے اندر جو چیز چلی ا رہی ہے قوم کو ایک جہد ہونے کے لیے یہ ضروری ہے اس کی شروعات انہوں نے کی اور جو روایت بھوپال بیگمات اور نواب بھوپال کے زمانے میں تھی اس کو دوبارہ سے شروع کیا چاہیے عید میلاد النبی کا جلوس ہو یا محرم کا جلوس شب برات کا پروگرام ہو یا پھر عید کا تہوار عید الاضحی کا موقع ہو یا پھر کوئی اور تہوار،اس کے علاوہ بھوپال کا تبلیغی اجتماع ہو یا پھر خواتین کا اجتماع سبھی موقعوں پر مسلم تہوار کمیٹی کے نمائندے کام کرتے تھے اور یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ قوم اور ملت کے نام پر سب مسلمان ایک ہیں۔پیرزادہ اوصاف شاہ میری خرم نے اپنے خطوط کے ذریعے بھوپال کے معمولی سے افیسران سے لے کر چیف جسٹس اف انڈیا اور راشپتی تک کو بڑے بڑے موقع پر اپنی خطوط نویسی سے بڑے بڑے معاملوں میں ان کو ذہن نشین کرایا
حال ہی میں انہوں نے جو لوگ ووٹنگ کرتے ہیں الیکشن کے وقت پر ان کو مت داتا نہ کہتے ہوئے انہیں متعدی کاری لکھنے کا مشورہ دیا ان کا کہنا تھا کہ جس ووٹ سے حکومت بنتی ہے وہ داتا نہیں ہوتا بلکہ اکثر ہوتا ہے اور یہ معاملہ ابھی الیکشن کمیشن کے زیر غور ہے اس معاملے میں انہوں نے راشپتی کو بھی خط لکھا۔اس کے علاوہ ان کے ذریعے ایک تاریخی واقعہ بھی ہوا ہے جس میں فرما روایب ہوپال بیگمات نے جو ربات مکہ اور مدینہ میں ریاست بھوپال کے حاجیوں کے لیے متعین کی تھی اس پر وہ ہمیشہ فکر مند رہے اور مدھ پردیش حکومت سے لے کر سعودی حکومت تک انہوں نے بارہا اس پر اپنی فکر کا احساس کرایا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ ان ربات کا صحیح استعمال ہو اور اس کا حق صحیح سے ملے انہوں نے اس معاملے میں بھوپال نواب کے خاندان کو بھی کٹگرے میں کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس کے حقدار نہیں ہیں انہوں نے نواب پٹودی کو اسلام سے خارج بھی کیا تھا یہ جرات صرف ڈاکٹر خرم کے اندر تھی کہ انہوں نے کئی لوگوں کو اسلام سے خارج کیا جس میں نواب منصور علی خان پٹودی ثانیہ مرزا اور وسیم رضوی اور مصور مقبول فدا حسین کو خارج الاسلام کیا تھا ان کا صاف کہنا تھا کہ جو شخص خدا کی وحدانیت کا انکار کرے اور حرام چیزوں سے پرہیز نہ کرے اس کو اسلام سے باہر کیا جائے اس پر لوگوں نے تنقید بھی بہت کی مگر وہ ہمت اور طاقت صرف خرم بابا کے اندر تھی جو حاکم وقت سے ٹکراتے بھی تھے اور اپنے پھکڑ مزاج کے چلتے کسی سے بھی کسی بھی موضوع پر کسی بھی حد تک اپنی بات رکھتے تھے انہوں نے سینکڑوں مرتبہ ٹی وی ڈیبیٹ میں بڑے بڑے اینکروں کو اور منکر اسلام کو دھول چٹایا۔ان کی خطوط نویسی کچھ ایسی تھی جس پر حکومت اس کا احترام کرتی تھی اور ان کے خطوں کا جواب دیتی تھی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو موجودہ ودھان سوا ہے وہ وقف عباس گڑھ ہے اور اس میں بڑے بڑے اولیاء کی قبریں ہیں اور وہ روحیں ان لوگوں کو پکڑ کر کھینچ رہی ہیں اس خوف کے بعد وزیراعلی ڈگری سنگھ ام بھارتی بابو لال گور شورہ سین چوہان نے ہندو مذہب کے بڑے بڑے ہون کرائے مگر کئی ایم ایل اے اور کئی ودھان سوا ادھیکش کی موت سے یہاں پر ہڑکن اج بھی مچا ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہاں کی روحیں انہیں کھینچ رہی ہیں ۔زندگی کے 62 سال پورا کرنے کے بعد بابا کے نام سے مشہور نہایت خوش مزاج اور اعلی تعلیم یافتہ عاشق رسول اور اللہ رسول کی بات کہتے تھے اشکوار ہو جانا اور ہر کسی کو کلیے سے لگانا چھوٹے بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا الغرض جو ایک صوفی کے اندر صفات انسانی ہوتے ہیں وہ ساری خوبیاں اس درویش میں تھیں جو اج ہمارے بیچ نہیں رہا،ان کے پروگرام میں سابق وزیراعلی شور چوہان سابق وزیراعلی کیلاش جوشی بابو لال گور ہمیشہ اتے رہے اور محبت کا پیغام پھیلاتے رہے،ان کی تمنا بھی یہی تھی کہ ان کے جسم کو کاٹا پیٹا نہ جائے اور گھر پہ ہی رہا جائے اسی تعلق سے وہ کچھ وقت سے بیمار رہے مگر ابھی کچھ دن پہلے محرم کے موقع پر انہوں نے اپنا پریس نوٹ جاری کر کے محرم کی تیاریوں کو لے کر مدھ پردیش حکومت اور ضلع انتظامیہ کو خط لکھا تھا
اور اس راقم الحروف انصار الحسن صدیقی سے لمبی بات چیت کی تھی اور یہ وعدہ کیا تھا کہ جلد ملاقات ہوگی مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ اب وہ وعدہ بابا کا ادھورا نکلا اب ان سے ملاقات نہ ہو سکے گی،ان کے دونوں بیٹے جو حافظ قران ہیں وہ اپنے والد کے نقش قدم پر ہیں اللہ تعالی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے ورثاؤں کو صبر جمیل عطا کرے۔