مضامین

آپسی رواداری کیلئےمذہبی امتیازات سے سمجھوتہ ضروری نہیں

ذکی نور عظیم ندوی-لکھنؤ

وطن عزیز ہندوستان کی عناصر ترکیبی میں مختلف مذاہب، طبقات ، زبانیں، علاقے، رنگ و نسل اور تہذیب و ثقافت شامل ہیں  ۔ ان مختلف اور گوناں گوں خوبیوں اور اختلاف کے باوجود آپس میں صدیوں سے پیار و محبت اور الفت و انسیت کے ساتھ رہنا یہاں کا امتیاز بھی ہے اور تاریخی حقیقت بھی۔ لیکن ان کے درمیان مختلف امور ، رہن سہن اور طور و طریقوں میں باہمی فرق اوراختلاف و تنوع سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتاجس میں غیر ضروری شدت اور کبھی کبھی تعصب کی وجہ سے مختلف موقعوں پربعض مسائل بھی پیدا ہوتے رہے ، لیکن اس ملک اور یہاں کے باشندوں نے کبھی اسے دائمی نہیں بننے دیا ۔ اور اس کی بہتری و اصلاح کے لئے حکومتی ،مذہبی ،طبقاتی ، لسانی ، علاقائی اور انفرادی طور پر قابل قدر کاوشیں ہوتی رہیں اور اس کے خاطر خواہ نتائج اس طور پر سامنے آئے کہ صورت حال بے قابو اور آپسی بھائی چارہ  و سدبھاؤنا پوری طرح متاثر نہیں ہو سکا ۔
پچھلے چند سالوں سے مذہبی بنیادوں پر نفرت میں اضافہ ہوا ،اس کی بنیاد پر سیاست نے زور پکڑا، حکومتوں کا قیام یا ان کا زوال اس بنیاد پر ہونے لگا، جس کی وجہ سے نفرت کی چنگاری آگ کے شعلوں میں تبدیل ہونے لگی، مختلف سیاسی شخصیات اور بعض پارٹیوں  و تنظیموںنے اس کو اپنی وجود و بقا بلکہ عروج و ترقی کا آسان طریقہ سمجھ لیا ، پیار ومحبت اورامن وسلامتی کے ماحول کو برقرار رکھنے یا بحال کرنے کی کوششیںمشکل اور کمزور پڑتی گئیں، یہاں تک کہ اس صورتحال کی وجہ سے ملک کو سفارتی و ملکی سطح پر رسوائی کا بھی سامنا کرنا پڑا اور چند ماہ قبل تو عظیم مذہبی پیشوا کے تعلق سے ہونے والی گستاخی سے حکومت کو اس قدر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کہ اسے اس پر بادل ناخواستہ وضاحتی بیاناور صفائی بھی دینی پڑی لیکن صورتحال کو کنٹرول کرنے اور آپسی سدبھاؤنا کو نقصان پہنچانے والے افراد اور حرکتوں پر لگام لگانے کی سنجیدہ کوششیں بالکل نظر نہیں آئیں ، ہاں اس سلسلہ میں بعض پروگرام ضرور ہوئے جس کا مقصد صرف بین الاقوامی دباؤکم کرنا تھالیکن ملکی پس منظر میں اسے کسی طرح سنجیدہ ، کافی یا مفید قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
گذشتہ چند ہفتوں قبل قومی راجدھانی دہلی میں صوفی کانفرنس کے ذریعہ مختلف مذاہب کے نمائندوں پر مشتمل ایک سدبھاؤنا پروگرام کا انعقاد ہوا جس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال خاص طور پر شریک رہے۔ یوں تو اس پروگرام میں مختلف مذاہب کے لوگ شریک رہے لیکن ان کی تعداد گنی چنی تھی جب کہ مسلمانوں کےبیشتر حلقوں کے  متعدد نمائندوں نے اس میں شرکت اور گفتگو کی، اکثر لوگوں کی گفتگو پروگرام میں شریک اہم ترین شخصیت کی مدح سرائی یا ملک میں موجودہ صورتحال کے لئے اپنی طرف سے صفائی دینے کی نوعیت کی تھی لیکن افسوس اس میں مسلمانوں کے مسائل، پریشانیوں، ظلم و زیادتی اور انہیں نظر انداز کرنے کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں رکھی گئی ۔ اس پروگرام میں اجیت ڈوبھال جی نے ملک کی حصولیابیوں اور آزادی میں مشترکہ طور پر تمام مذاہب اور طبقات کی حصہ داری کا تذکرہ بھی کیا اور سراہا بھی اور ساتھ میں اس طرح کےسدبھاؤنا پروگرام صوبائی اور نچلے سطح پر بھی کرنے پر زور دیا ۔
دیگر مذاہب کی طرف سے اس طرح کے پروگرام کی مجھے بالکل جانکاری نہیں لیکن مسلمانوں کی ایک بڑی قومی تنظیم نے ملکی سطح پرکئی پروگرام کئے اورمستقبل میں سیکڑوں پروگرام کرنے کا ارادہ ہے ۔ عام طور پر دیکھا گیا کہ ان پروگراموں میں عام طور پر مختلف مذاہب کےبعض ایسے افراد مدعو کئے جاتے ہیں جو اپنے سماج میں مذہبی حیثیت سے کم اور مذہب بیزاری کے لئے زیادہ جانے جاتے ہیں اور زیادہ ترمذہبی حدود سے بلند ہو کر اور کبھی کبھی اپنے مذہب یا طبقاتی نظام پر اس طرح سوال اٹھاتے ہیں جو حکمران طبقہ اور تنظیموںاور شدت پسند مذہبی طبقہ سے ٹکراوکا سبب بن جاتا ہےاور وہ اپنے اسی موقف  کے لئے شہرت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے مذہب پرست افراد ان کو قابل توجہ نہیں سمجھتے۔
اس طرح کے پروگراموں میں عام طور پر مندر ،مسجد ،گرجا گھر اور گر دواروں میںالگ الگ جگہ کی گئی عبادت کا مقصد اور منزل ایک قرار دیا جاتاہے،  رام اور رحیم کو بھی ایک ساتھ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا دونوں ہم رتبہ ہی نہیں بلکہ ایک ہی ذات کے دو نام ہیں۔اس طرح کی باتوں سےسدبھاؤنا پروگراموں میں
مذہبی بنیادوں پر پیار و محبت بڑھانے کی کوشش سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی،  لہذا مسلمانوں کے عقیدۂ توحید اور غیر مسلموں کے تعدد الہ کےحقیقی اور نا قابل تردید نظریے کے فرق کو قبول کرتے ہوئے سدبھاؤنا کے لئے مثبت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلی صدی کی آخری دہائی میں جب بابری مسجد کی وجہ سے حالات بہت کشیدہ ہوگئے تھے تو مولانا علی میاں کی قیادت میں ملکی سطح پرپیام انسانیت کے بینر سے اس سلسلہ میں کافی مثبت اور مؤثر کوششیں دیکھنے کو ملی تھیں جسمیں شنکر آچاریہ ،دوسرے مذاہب کے اعلی رہنما اور مختلف تعلیمی، سماجی اورسیاسی قائدین متعدد پروگراموں میں جمع ہوکر اس سلسلہ میں پورے ملک میںمنظم کوششیں کرتے تھے اس سلسلہ میں لکھنؤ میں منعقد وہ پروگرام آج بھی مجھے یاد ہے جس میںمادھو راؤ سندھیا ، غلام نبی آزاد، راجیش پائلٹ،سلمان خورشید ، ریاستی گورنر ،وزیر اعلی، دیگر ریاستی وزرا اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور بہت سے سماجی، تعلیمی رہنما اورصحافی بھی شریک ہوئے تھے اور راجیش پائلٹ نےاپنے تمام اعلی مناصب کے باوجود ایسی تنظیم کے ساتھ منسلک ہونے کو اپنے لئے سب سے زیادہ باعث فخر قرار دیا تھا۔موجودہ صورت حال میںپیام انسانیت کی سرگرمیوں کی تفصیلات سے میں ناواقف ہوں لیکن بلڈ ڈونیشن کیمپ،مختلف موقعوں پر پولیس افسران، ڈاکٹروں اور صحافیوں کو اعزاز دینے کی خبریں اخبارات میںدیکھنے کوضرور ملتی ہیں۔ لیکن اس کے سابقہ کرداراور کاوشوں کی احیا کی اس وقت پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
چندسالوں قبل لکھنؤ میں منعقدہ اس طرح کےایک سے زائد پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا جس میں مندر و مسجد اور رام و رحیم کے درمیان امتیاز کو غلط قرار دیا گیا لیکن توحیدکی بنیاد پر قائم مذہب کے نمائندوں کی طرف سے  جو کہ خود اس پروگرام کے آرگنائزر تھے خاموشی برتی گئی اور جب یہ بات سامنے آئی کہ آپسی سدبھاؤنا اور پیار و محبت کی خاطر مسلمانوں کے لئے مندروں کا دروازہ کھولنا اور دوسرے مذاہب کے لئے مسجدوں میں پوجا کی اجازت یا مسلمانوں سے گوشت ترک کر دینے اور دوسرے مذاہب سے گوشت استعمال کرنے کے مطالبہ، اورایک طرح کی غذا ، لباس اورعبادت کی ایک ہی جگہ ہونے سے ہی رواداری قائم نہیں
ہو سکتی تو بعض لوگوں کی طرف سے اس گفتگو کو بے موقع اور بے محل قرار دیا گیا اسی طرح جب پروگرام میں شریک دیگر مذاہب کے نمائندوں سے ان کے اداروں اور تنظیموں کی جانب سے بھی ایسے پروگرام کے انعقاد کی تجویزرکھی گئی تواس پر بھی مثبت جواب سامنے نہیں آیا ۔
اس طرح کے پروگرام مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کی طرف سے بڑے پیمانے پر منعقد کئے جاتے ہیںجس میں بیشترسامعین بھی مسلمان ہی ہوتے ہیں ہاں اس میں اظہار خیال کے لئے دوسرے مذاہب کےلوگ آتے ہیں اورمذہبی حدود سے اوپر اٹھ کر حالات کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔ جس سے بعض آزاد خیال یا نسبتا دین کی باریکیوں سے کم واقف مسلمان متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے جس کی وجہ سے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے تحفظ کے لئے سرگرم اداروںاور اس کے ذمہ داروں کا اسلام کے بنیادی عقیدۂ توحید کی مخالفت پر خاموشی کا بہت منفی اثر پڑتا ہے ۔ گذشتہ دنوں کرناٹک عید گاہ میں گنیش چترتھی پروگرام کے انعقاد پر جو افسوسناک صورتحال سامنے آئی اس سے زیادہ تشویشناک بات بین الاقوامی شہرت یافتہ ممتاز ماہر قانون فیضان مصطفی کی مسلمانوں سے آپسی رواداری کے نام پر گنیش چترتھی کے پروگرام کی خود ہی اجازت دینے کی اپیل ہے ۔اسی طرح چند سال قبل قومی سطح کی ملی جمعیت کی طرف سے منعقد ہ اس طرح کے ایک پروگرام میںجب ایک ہندو مذہبی رہنما نے تنظیم کے صدر کو اس زمانہ میں شنکر جی کا اوتار قرار دیا تواس ادارہ کے دوسرے پروگراموں کے اشتہار میں اس ہندو مذہبی رہنما کے قول کو فخریہ لکھا گیا اور اسلامی تعلیمات پر آنےوالے فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔
میں ملکی سطح پر آپسی رواداری اور سدبھاؤنا اور اس کی خاطر وسیع پیمانے پر بیداری مہم کے خلاف نہیں بلکہ یہ وقت کی بڑی ضرورت ہے لیکن اس میں بے بنیاد اور غیر حقیقی باتوں اور کبھی کبھی شرکیہ حد تک کی گئی گفتگو سے بچنا ضروری سمجھتا ہوں، تاکہ تمام مذاہب ملکی دستور کے مطابق اپنے اپنے مذہب پر مکمل آزادی سے عمل کرسکیں اور آپسی رواداری ،پیار و محبت اور امن و سکون سے ملک کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔اسی طرح اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اس طرح کے پروگراموں میں مختلف مذاہب سے ایسے نمائندوں کا انتخاب کیا جائے جو اپنے مذہبی حلقوں میں بھی قابل اعتماد ہوں اور ہر طرح کے تعصب اور بیجا شدت پسندی سے بھی دور رہتے ہوں اوران کی حیثیت ان کی قوم میں وہ نہ ہو جو مسلم قوم میں عارف محمد خان، مختار عباس نقوی،طارق فتح، وسیم رضوی، سلمان رشدی یا تسلیمہ نسرین کی ہے۔
[email protected]

متعلقہ خبریں

Back to top button