خبر پہ شوشہ “بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا”

ریاض ۔ کے این واصف
بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔ یہ ایک پرانی کہاوت ہے۔ ہمارے سماج میں بہت سے ایسے سے لوگ ہیں جو اپنی قابل مذمت اور نیچ قسم کی حرکات کی تشہیر کرتے نہین شرماتے۔ اپنی شرمناک حرکتوں کی ویڈیو بناکر بے شرمی کے ساتھ سوشیل میڈیا پر جاری کرتے ہیں۔ شاید ان کے ذہن میں یہی بات رہتی ہوگی کہ “بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا”
نیوز پورٹل “INS خبر نامہ” اور اردو لیکس پر ایک خبر نشر ہوئی جس میں بتایا گیا کہ پرگیری تعلقہ، مہاراشٹرا کے کرشنا دیو منڈے نے دسویں جماعت امتحان میں دس مرتبہ ناکام رہ کر اپنی کوشش جاری رکھی اور گیارھویں مرتبہ امتحان دیکر کامیابی حاصل کی۔ ظاہر ہے یہ بیچارہ دس سال تک گاؤں میں رسواء و شرمندہ رہا ہوگا۔ مگر اس کی دیانتدارانہ کوشش اور کامیابی پر نہ صرف کرشنا بلکہ گاؤں والے بھی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کرشنا کی گلپوشی کی اور اسے کاندھوں پر بٹھاکر جلوس کی شکل باجے گانے کے ساتھ گاؤں میں گھمایا۔
عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ امتیازی کامیابی حاصل کرنے والے طلباء کے والدین اپنے بچوں کے کامیابی کی خبر و تصویر اخباروں اپنے خرچہ پر شائع کرواتے ہیں۔ مگر نہ ان کا جشن منایا جاتاہے نہ جلوس نکلتا ہے۔ لیکن دس سال گاؤن مین رسواء اور بدنام ہونے والے کرشنا دیومنڈے خوش قسمت رہے کہ ان کی کامیابی سارا گاؤن خوش ہوا اور جشن منایا۔ اس طرح پرانی کہاوت سچ ثابت ہوئی کہ
“بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا”