مضامین

والدین اپنے بچوں کو ڈرانے دھمکانے کے بجائے پیار ومحبت سے سمجھائیں _عالمی یوم انسداد بچہ مزدوری کے موقع پر ڈاکٹر محمد قطب الدین سے گفتگو

از : ڈاکٹر تبریز حسین تاج

فیکلٹی شعبہ تعلیم نسواں حیدرآباد

 

بچوں کی نفسیات اور اُنکی تعلیم و تربیت کے اہم تقاضے

والدین اپنے بچوں کو ڈرانے دھمکانے کے بجائے پیار ومحبت سے سمجھائیں 

عالمی یوم انسداد بچہ مزدوری کے موقع پر ڈاکٹر محمد قطب الدین سے گفتگو

قارائین کرام آپ کا میزان ڈاکٹر تیریز حسین آج یوم انسداد بچہ مزدوری کے موقع پرنتہائی اہم اور حساس موضو ع کے ساتھ آپکی خدمت میں مشہور امریکی پروفیسربرائے نفسیات ڈاکٹر محمد قطب الدین کے ساتھ حاضر ہے۔ بچہ مزدوری کے موقع پر ہم نے سب سے اہم یعنی بچوں کی پرورش اور والدین کی ذمہ داری پر ڈاکٹر محمد قطب الدین سے بات چیت کی ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر قطب الدین ماہر نفسیات خاص کر بچوں کے نفسیاتی اُمور اور والدین کی کونسلنگ میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں والدین اُن سے اپنے ابچوں کے درخشاں مستقبل کے بارے میں رجوع ہوتے ہیں ڈاکٹر صاحب کی کامیاب کونسلنگ کا نتیجہ ہے کہ کئی بچہ سماج میں اونچا مقام ورتبہ حاصل کرچکے ہیں۔اِس عنوان پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قطب الدین نے کہا کہ بچوں کی پرورش والدین کی سب سے اہم اور اولین ذمہ داری ہے۔

 

ڈاکٹر محمد قطب الدین نے تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج کے بچے ہی کل کا مستقبل ہیں۔کامیاب اور اچھے مستقبل کا دارومداروالدین کی تربیت پرمنحصر ہوتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ بچوں کی پرورش دراصل تخم ریزی (بیج بونے) کے مترادف ہے۔جیسا آپ بوتے ہیں ویسا آپ کاٹتے ہیں یعنی as you sow so you reap اسی لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اچھے کل اور درخشاں مستقبل کیلئے بہترین اور مناسب انداز سے تخم ریزی کریں اور تاکہ پھل بھی اچھا حاصل ہو۔

 

جس طرح کاشت کار تخم ریزی سے قبل اور تخم ریزی کے بعد اچھی فصل کیلئے محنت کرتا ہے ٹھیک اُسی طرح والدین کو بھی اپنے بچوں کی بہترین تربیت کیلئے محنت کرنی ہوتی ہے۔جیسے فصل کے بونے کیلئے کھیت کی زمین کو ہموار بنایا جاتا ہے ہل چلاکر اُسے نرم قابل کاشت بنایا جاتا ہے تخم ریزی کے بعد بیج کی پرندوں چرندوں اور درندوں سے حفاظت کی جاتی ہے وقت کے مناسبت سے پانی سیراب کیا جاتا ہے کھاد اور روشنی کا انتظام کیا جاتا ہے۔اور تیار فصل کی بھی کٹوائی تک حفاظت کی جاتی ہے۔ایک کامیاب کاشت کار وہ ہی ہوتا ہے جو سنجیدگی اور سادگی سے اِن تمام مراحل کے تکالیف کو برداشت کرتا ہے۔اسی لئے والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش و تربیت میں سنجیدگی اور سادگی کو اپنا ئیں کیونکہ والدین کی تربیت اور گھر کے ماحول کا بچوں کی نشونما میں کلیدی اثر پڑتا ہے۔والدین کا حد سے زیادہ لاڑ پیاربچوں کی صحیح پرورش کیلئے ٹھیک نہیں ہے کیونکہ حد سے زیادہ لاڑ پیار بچوں کو بزدل اور کمزور بنادیتے ہیں۔ایسے بچے سماج میں اپنے آپ کچھ کرنے کے کے قابل نہیں ہوتے ہیں اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔لہذا والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی پرورش میں حسُن سلوک سادگی سچائی حق پرستی حقوق العبادکی اہمیت کو شامل کریں۔کیونکہ بچوں کو جو بچپن میں سیکھایا سمجھایا جاتا ہے وہ تاحیات اُنکی رہبری اور رہنمائی کاسبب بنتا ہے۔کیونکہ بچے اِسی کو بنیاد بناکر اپنے مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔

 

ڈاکٹر محمد قطب الدین نے کہا کہ بچوں کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ والدین سے زیادہ سوالات کرتے ہیں۔بچوں کو اُنکے سوالات کا جواب پیار بھرے لہجے میں دیں تاکہ بچوں کو صحیح نالج مل سکے۔ اگر والدین بچوں کو کنفیوز کرتے ہیں تو ایسے بچے اُلجھن کا شکار ہوجاتے ہیں وہ صحیح رائے قائم نہیں کرپاتے ہیں۔اگر سوال کرتے ہیں تو اُنھیں ڈرانا نہیں چاہئے بچوں کو ڈرانے سے اُنکے اندر موجود تخلیقی صلاحیت فوت ہوجاتی ہے وہ مثبت سوچ وفکر کے بجائے منفی کیفیت کے حامل بن جاتے ہیں جو بچوں کی نشونما کیلئے کافی مضر ثابت ہوتی ہے۔

 

ڈاکٹر محمد قطب الدین نے ایک امریکی مفکر کے قول "The Hand That Rocks the Cradle Is the Hand That Rules the World” کی روشنی میں کہا کہ ماں کی لوریوں میں ہی وہ اثرہوتا ہے کہ وہ مجاہد، سائنسداں، انجینئر،استاد، مفکر، مقرر،رہنما،رہبر، قائدپیدا کرسکتی ہے۔اور یہی طاقت ہے جو دنیا کو ہلاسکتی ہے اور دنیا کو اپنے بس میں کرسکتی ہے۔ڈاکٹر قطب الدین نے کہا کہ دنیا کے مفکریں اور اہل علم کی اکثریت اِس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ ماں کی گود سے بڑھ کر کوئی دانشگاہ نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ قوموں کی قسمت اور مستقبل ماؤں کی گود وں میں سنورتی اُبھرتی ہے۔اسی لئے ڈاکٹر قطب الدین نے خواتین کی تعلیم کو بھی سماج کیلئے بے حد ضروری قراردیا اور کہا کہ ایک قابل اخلاق اور تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچے کی صحیح انداز سے پرورش کرتی ہے اوراُسکے درخشا ں مستقبل کی ضامن بنتی ہے۔

 

اُنہوں نے کہا کہ جس طرح پرورش میں ماں کا رول ہے اُسی طرح باپ کا بھی رول کلیدی اور اہمیت کا حامل ہے کیونکہ فطری طورپر بچہ اپنے باپ کو ہی اپنا رول ماڈل ماننتا ہے۔بچے کے طبعی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے۔یہ باپ پر فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں میں وہ چیزوں کو منتقل کریں جو اُسے اُسکے اسلاف سے سینہ بہ سینہ حاصل ہوئی ہیں۔بچپن میں پانے والی روحانی تربیت دماغ میں ہمیشہ کیلئے قائم وہ دائم رہتی ہے۔اللہ سے محبت،عشق نبی ﷺ اور اللہ کا انعام پانے والے بزرگوں کی راہ پر چلنے کی نصیحت اس انداز سے کی جائے کہ بچے بڑے ہوکر بھی کبھی اسے فراموش نہ کرسکیں۔بچوں میں بچپن سے سماجی ذمہ داریوں کا احساس، خدمت خلق انسانی فرائض کو سمجھائیں تاکہ بچے ہمدرد انسان دوست اور ایک دوسرے کے مدد کرنے وا لے بنیں۔ ڈاکٹر محمد قطب الدین نے لبنانی نژاد امریکی مصنف خلیل جبران کا قول دہریا کہ“Your children are not your children. They are the sons and daughters of Life’s longing for itself… You may give them your love but not your thoughts, for they have their own thoughts. You may house their bodies but not their souls, for their souls dwell in the house of tomorrow…”

 

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ خلیل جبران کی سوچ یہ درس دیتی ہے بچے گزراہواکل نہیں بلکہ آنے والا کل دیکھتے ہیں۔اس نظم کا یہی مفہوم ہے کہ ہم نے جو دیکھا ہے وہ بچے نہیں دیکھتے بلکہ بچے آئندہ آنے والے کل کا دیکھتے ہیں۔

 

بچوں کی نگہداشت اورپرورش میں ایک اہم ذمہ داری شیریں زبان اور سادہ زندگی کو پروان چڑھانے کی بھی ہوتی ہے۔والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے لئے بہتریں لائبریری کا نظم کریں اور ڈیجیٹل دور میں چنندہ ویڈیوز جن سے بچوں میں اخلاقیات پروان چڑھتے ہیں اُس کا انتظام کریں۔سائنیسی سوچ وفکر کو پروان چڑھائیں۔ خاص کر بچوں کو سیل فون اور ویڈگیمس سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔کھلونوں کا اثر بھی بچوں کے ذہنوں پر پڑھتا ہے لہذا بچوں کو ایسے کھلونوں سے محفوظ رکھیں جس کا ذہنوں پر منفی اثر پڑھتا ہے اپنے بچوں کو شجاعت اور ہمت والا بنائیں لیکن تخریبی ذہنیت کا حامل نہ بنائیں Selfishنہ بنائیں بلکہ سماج دوست بنائیں انسانیت کا علمبردار بنائیں پیار محبت بانٹنے والا بنائیں ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھنے والا بنائیں۔ایسے بچے ہی سماج میں پنپنے والے برائیوں کا خاتمہ کریں گے۔

 

اُبھرنے والے بچوں میں غدائیت کے بارے میں جب ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ تغذیہ بخش غذائیں بچوں کے ذہینی اور جسمانی نشمونما کے لئے بے حد ضروری ہیں۔اچھی ریشہ دار اور وٹامن والی غذائیں بچوں میں خون کی کمی کی شکایتوں کو دور کرتے ہیں۔لہذا والدین کو چاہئے کہ بچوں کے کھانے کے معاملوں میں بھی خاص توجہ مرکوز کریں۔کیونکہ بچہ جسمانی طور پر مضبوط ہوگا تو وہ ذہنی طورپر بھی مستحکم ہوگا اور ایسے تندرست بچے ہی تعلیم پر توجہ دے سکتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ بچوں کو ٹھنڈے مشروبات فاسٹ فوڈ کا عادی نہ بنائیں۔اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کھانے بچوں کی نشونما میں منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔اس طرح کے کھانوں سے بچوں کے دماغ پر بھی اثر پڑھتا ہے۔صحت متاثر ہوتی ہے خون کی کمی اور دیگرعارضہ کا خدشہ رہتا ہے۔اسی لئے بچوں کوگھر کا کھانا اور صاف ستھرا کھانا کھلائیں۔

 

کسی بھی قوم کا مستقبل اُن کے آج کے بچے ہیں۔اُنکی پرورش پر کیا جانے والا خرچ ایک ایسی منفع بخش سرمایہ کاری ہے جو مستقبل میں نسل درنسل فائدہ پہنچاتی ہے۔اسلامی تعلیمات میں بھی بچوں کی پرورش پرخاص توجہ دی گئی ہے۔ڈاکٹر محمد قطب الدین نے کہا کہ اقوام اگرترقی کے خواب دیکھتے ہیں اور انھیں شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں توانھیں چاہئے کہ وہ اپنی نوخیز نسل کو اپنے خوابوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔تعلیم بچوں کا بنیادی حق ہے۔والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے بہتر سے بہتر انتظام کریں۔ڈاکٹر صاحب نے مملکتوں پر بھی زور دیا کہ وہ بچوں کی تعلیم کیلئے وسیع پیمانے پر انتظام کریں کیونکہ آج بچوں کو بہترین وسائل فراہم کیے جاتے ہیں تو کل یہی بچے مملکت کی ترقی کیلئے بہترین اسباب بنائیں گے اور قوم کیلئے قیمتی اثاثہ ثابت ہونگے۔نئی کھوج نئی سوچ اسکولوں اوردرسگاہوں میں پیدا ہوتی ہے۔اچھی اور معیاری بنیادی تعلیم پانے والے بچے ہی کل اپنی عمدہ اختراعی سوچ وفکر سے نئے نئے ایجادات کرتے ہوئے قدرت کے انمول خزانوں کوپانے کی چابیاں پیش کریں گے۔ ڈاکٹر قطب الدین کا کہنا ہے کہ ہربدلتے وقت کے ساتھ انسان کی طرززندگی میں بدلاؤ آتا ہے۔ لیکن اخلاقیات اور آداب کے جو بنیادی اصول ہیں وہ جوں کا توں برقرار رتے ہیں۔ہر والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی نگہداشت تعلیم و تربیت میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اُسکی جو شائشتہ تہذیبی وراثت ہے وہ برقرار رہے۔اِس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ تعلیم اور ترقی کے نام پر بچوں کو اخلاق آداب اور شائستگی کے بنیادی اُصولوں سے محروم نہ کیا جائے۔بلکہ اُن میں حُسن اخلاق کوپروان چڑھائیں یعنی بچوں کو تعلیم بھی ملے اور ترقی کی راہیں بھی ملے اورساتھ ہی ساتھ وہ اپنے تہذیب و تمدن کا محافظ بنے اور سفیر بنے۔اگر والدین بچوں میں اپنی تہذیب کے بارے میں صحیح معلومات فراہم نہیں کرتے ہیں تو ایسے حالات میں بچوں کے ذہنوں میں ایک قسم کی احساس کمتری پیدا ہوسکتی ہے۔لہذا والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی تہذیب کی خوبیوں اور کمالات سے اپنی نسل کو مالامال کریں تاکہ اُنکے ذہنوں میں دور دور تک بھی احساس کمتری کا تصور تک نہ آسکے۔ مذکرہ مضمون کے اوپر سطور میں تحریر کرچکے ہیں کہ بچوں کو ڈرانے دھمکانے سے وہ خوف میں مبتلہ ہوجاتے ہیں۔لہذا والدین اپنے بچوں کو غصہ کرنے کے بچائے اُنکی غلطیوں کو پیار بھرے لہجے سے سدھانے کی کوشش کریں۔بچے موم کی طرح ہوتے ہیں اُنھیں پیارو محبت سے تھوڑا ملائم بناکر اپنے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔

 

امریکی پروفیسر برائے نفسیات ڈاکٹر محمد قطب الدین سے آج کی بات چیت کا خلاصہ یہی ہے کہ جاگنے والی قوم ہی اپنے بچوں کی پرورش بہترین انداز سے اپنے تہذیب وتمدن کے سانچے میں کرتی ہے۔جبکہ سوئی ہوئی قوم خواب غفلت میں رہتی ہے۔لہذا بچوں کی نفسیات کا خیال کرتے ہوئے اُس کے مطابق اُنکی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کرنا والدین اور سرپرستوں کیلئے ایسی منافع بخش سرمایہ کاری ہے جوبچوں کے درخشان مستقبل کی ضمانت ہے۔اس سے قوم بھی سرخ روح ہوگی تہذیب و تمدن کا بھی تحفظ ہوگا۔ورنہ آج کی یہ غفلت کل ایک بڑے خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button