اب بھی جلتا شہر بچایا جاسکتا ہے _ راہول گاندھی کا منی پور دورہ اور گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ
سید سرفراز احمد،بھینسہ تلنگانہ
ایک ملک ایک جسم کی مانند ہوتا ہے جس طرح جسم کے کسی ایک حصہ میں بھی معمولی خراش آجائے تو پورے جسم میں اس کا درد محسوس ہوتا ہے اسی طرح ملک کے کسی ایک حصہ میں بھی بگاڑ پیدا ہوجائے تو پورے ملک پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اور پورے ملک کو اس کا درد ہوتا ہے ہونا بھی چاہیئے ورنہ ملک کے اخلاقی اقدار پر سوالات کھڑے ہونگے سوال یہ ہیکہ اگر ملک کی ایک ریاست میں تشدد سلسلہ وار چل رہا ہو اور ملک کے وزیر اعظم کے لب سلے ہوئے ہوں تو اس خاموشی کو ملک کی رعایا کیا نام دے گی؟کیا ملک کی رعایا کی نظر میں یہ وزیراعظم کے عہدےکی توہین نہیں ہے؟کیا وزیر اعظم کی یہ زمہ داری نہیں ہیکہ وہ اس ریاست کا دورہ کرتے ہوئے وہاں کے باشندوں و مظلومین کی بات سنی جائے اور وہاں امن بحال کیا جائے؟سوال یہ بھی ہیکہ جو درد ملک محسوس کررہا ہے وہی درد ملک کے وزیراعظم کیوں محسوس نہیں کرتے؟
دراصل ہم بات کررہے ہیں منی پور کی،3 مارچ 2023 سے منی پور تشدد کی آگ میں جھلس رہا ہے 16 ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے سینکڑوں افراد تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں ہزاروں کی تعداد میں عوام بےگھر اور نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں کئی خاندان ریلیف کیمپ میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں آپ کو یاد ہوگا کہ حدتو اس وقت پار ہوچکی تھی کہ جب دو خواتین کو برہنہ سرے عام گشت کروایا گیااس واقعہ کے بعد ملک کا سر شرم سے جھک گیا تھالیکن آج بھی منی پور میں اکثریتی طبقہ میتی اور قبائلی طبقہ کوکی میں تنازعہ برقرار ہے اس تنازعہ کی اصل وجہ میتی طبقہ کو ایس ٹی کا درجہ دینے کی درخواست ہائی کورٹ میں داخل کی گئی تھی ہائی کورٹ کا فیصلہ میتی طبقہ کی حمایت میں آنے کے بعد فسادات کا سلسلہ پھوٹ پڑا۔
منی پور میں ڈبل انجن سرکار کے باوجود مرکزی و ریاستی حکومت وہاں ہونے والے تشدد پر قابو نہیں پاسکی جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ڈبل انجن سرکار منی پور میں پوری طرح سے ناکام حکمرانی کررہی ہے منی پور تشدد کی گونج نہ صرف ملک بلکہ بیرونی ملک میں بھی سنائی دی جس سے عالمی سطح پر ملک کی شبیہ بھی متاثر ہوئی لیکن حکمرانوں نے وہاں بحالی امن کیلئے مناسب اقدامات نہیں کیئے حتی کہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد انکی مربی تنظیم آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے ہی ماتحتین پر طنزیہ وار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے ایک سال سے منی پور جل رہا ہے لیکن کسی کی توجہ وہاں نہیں ہے انھوں نےوہاں امن کیلئے اقدامات کرنے پر زور دیا پھر بھی حکمرانوں کو ہوش نہیں آیا۔
غور طلب پہلو یہ ہیکہ جو حکومت اپنی ڈبل انجن سرکار میں ایک چھوٹی سی ریاست میں تشدد کو روکنے سےقاصر ہے وہ بھلا پورے ملک کی حکمرانی کیسے چلائی گی؟جبکہ ایک کامیاب حکمرانی وہی ہوتی ہے جسمیں نظم و نسق کی پابندی،عوامی مسائل کا حل و بنیادی ضرورتوں کی تکمیل ہو اور ترقی یافتہ کاموں کو انجام تک پہنچا سکے لیکن اس حکومت سے یہ بھی ہونا مشکل ترین کام ہے اگر کسی ریاست میں ان نکات پر بھی توجہ نہیں دی جاتی ہے تو ایسی حکومت کو آئینہ دکھایا جاتا ہے لیکن اس جمہوری ملک کایہ حال ہوچکا ہے کہ جنھیں آئنہ دکھانا تھا وہ خود حکمرانوں کی گودی میں جھولا جھول رہے ہیں۔
راہول گاندھی نے حالیہ لوک سبھا میں اپنی دھواں دھار تقریر کے بعد ہاتھرس میں بھولے نارائن بابا ساکار کے ستسنگ میں مچی بھگدڑ میں ہلاک ہونے والے افراد خاندان کو پرسہ دینے پہنچے اور ساتھ ہی ساتھ منی پور کے تشدد زدہ علاقوں کا بھی دورہ کرتے ہوئے متاثرین سے ملاقات کرتے ہوئے انکی باتوں اورانکے دکھ درد کو سنا جسمیں انھوں نے متاثرین کو صاف طورپر کہا کہ آئندہ لوک سبھا اجلاس میں منی پور کے مسلئہ کو اٹھایا جائے گا یہ ایک خوش آئند اقدام ہیکہ اپوزیشن قائد میں لوک سبھا نتائج کے بعد ایک نیاجوش دیکھنے کو مل رہا ہے سچ کہیں تو راہول گاندھی اس وقت میدان کے سیاستداں بنے ہوئے ہیں جس سے انکی سیاسی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے این ڈی اے سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہے سرکار کی بوکھلاہٹ کو دور کرنے کیلئے گودی میڈیا میدان سنبھالا ہوا ہے راہول گاندھی کے منی پور دورے کو لیکر میڈیا ہاؤسس میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور راہول گاندھی کے اس دورے کو سیاست سے جوڑا جارہا ہے حالانکہ ابھی ابھی لوک سبھا کے انتخابات مکمل ہوچکے ہیں لیکن گودی میڈیا اپنی نچلی درجہ کی رپورٹنگ میں مصروف عمل ہے۔
آج تک نے اسکرولنگ چلاتے ہوئے لکھا کہ راہول گاندھی منی پور میں دکھ بانٹ رہے ہیں یا ڈرامہ کررہے ہیں؟ نیوز 18 کا اینکر کہتا ہے
کیا راہول گاندھی سیلکٹیو سیاست کررہے ہیں؟
آج تک کا گودی اینکر سدھیر چودھری کہتا ہے
راہول گاندھی منی پور کی عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کررہے ہیں یا منی پور پر سیاست کررہے ہیں؟ ٹائمس ناؤ کی گودی اینکر کا کہنا ہیکہ جنتا سوال کررہی ہیکہ جب پردھان منتری بیرونی ممالک کے دورے پر ہیں تب منی پور کے معاملہ کو گھسیٹنا کیا ملک پر اس کا منفی اثر نہیں پڑے گا؟جبکہ کانگریس قائد آلوک شرما آج تک پر بیٹھکر ان ہی گودی میڈیا کی گودی رپورٹنگ کا آئنہ دکھایا تو پاپا کی پری انجنا کو غصہ آگیا لیکن سچ یہی ہیکہ آج تک نے اپنی جانب سے راہول گاندھی پر راست الزام عائد کردیا جو ایک میڈیا کی جانبداری کے راز کو فاش کردیتا ہے یہ الگ بات ہیکہ جب کانگریس کا ردعمل سامنے آیا تو گودی میڈیا نے اس اسکرولنگ کو بی جے پی کا الزام بتاکر پیش کردیا۔
تمام گودی میڈیا کے اینکرس اپنے اپنے ایر کنڈیشن روم میں بیٹھ کر حکومت کی چاپلوسی کو شب و روز کا مشغلہ بنا چکے ہیں ٹائمس ناؤ کی گودی اینکر نے تو اپنا سوال خواہ مخواہ جنتا کی طرف پھیر دیا حالانکہ جنتا تو راہول گاندھی کے دوروں کو لیکر پر جوش ہیں اس اینکر نے یہ بھی کہا کہ ایک ایسے وقت میں راہول گاندھی منی پور کا دورہ کررہے ہیں جبکہ ملک کے وزیر اعظم بیرونی دورے پر ہیں کیا یہ سوال گودی میڈیا سے پوچھا نہیں جانا چاہیئے کہ بھلا راہول گاندھی کے منی پور دورے سے وزیراعظم کے بیرونی دورے کا کیا تعلق ہوسکتاہے؟یہ تو ایک اچھی بات ہیکہ منی پور کے باشندوں اور متاثرین کی بات سننے کیلئے اپوزیشن قائد دوڑ و دھوپ کررہا ہے دراصل جو کام حکمران جماعت کو کرنا چاہیئے تھا وہ کام اپوزیشن قائد کررہا ہےکاش کہ کتنا اچھا ہوتا اگر وزیراعظم بیرونی دورے سے قبل منی پور کا دورہ کرتے ہوئے متاثرین سے ملاقات کرتے لیکن ملک کے باشندوں کی اتنی اچھی قسمت کہاں!
یہاں ایک بات غور طلب یہ بھی ہیکہ گودی میڈیا کی سوچ بالکل واضح ہوچکی ہے کہ انھیں منی پور کے متاثرین کی ذراسی بھی فکر نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کی خوشامدی میں مگن ہے اگر گودی میڈیا منی پور کے متاثرین کا بھلا چاہتی وہاں امن کی برقراری کیلئے کوشاں ہوتی حکومت کو آئنہ دکھانا چاہتی تو راہول گاندھی کے اس دورے پر بجائے منفی پروپیگنڈہ چلانے کے مثبت ردعمل دکھاتی لیکن بار بار گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ سامنے آہی جاتا ہے گودی میڈیا کے نمائندوں کو اس وہم و گمان میں ہرگز بھی نہیں رہنا ہوگا کہ انھیں عوام کی تائید حاصل ہے سوشیل میڈیا اور منجھے ہوئے یوٹیوب رپورٹرس حق گوئی سے اپنی صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں جو ہر گھڑی ملک کی عوام کے سامنے جھوٹ کے نقاب اٹھا رہے ہیں بلکہ ملک کی عوام بھی گودی میڈیا کی حرکتوں کو بہترین طریقے سے جان چکی ہے کہ ملک کا قومی و گودی میڈیا کس حد تک گر چکا ہے۔
منی پور میں تشدد کے بعد راہول گاندھی کا یہ تیسرا دورہ ہے لیکن ملک کے وزیراعظم کو بیرونی دورے کرنے کیلئے وقت ہی وقت ہے پر اپنے ہی ملک کی متاثرہ ریاست کا دورہ کرنے کیلئے وقت نہیں ہے لیکن مجال ہے گودی میڈیا کبھی وزیراعظم کو سوالات کے کٹگھرے میں کھڑا کرے حالانکہ جمہوری ملک کی خوبی یہی ہیکہ سوالات حکمرانوں سے پوچھے جاتے ہیں لیکن گودی میڈیا کا یہ حال ہیکہ وہ اپوزیشن سے سوالات کررہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہیکہ کہ راہول گاندھی آئندہ لوک سبھا اجلاس میں کن کن مسائل کو اٹھاتے ہیں یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی بےجا نہ ہوگا کہ لوک سبھا انتخابات کے بعد مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ایک درجن سے زائد ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوچکے ہیں جسطرح سے نریندر مودی 3 کی حکمرانی کررہے ہیں ویسے ہی ہجومی تشدد 3 لوٹ آیا ہے سوال یہ ہیکہ کیا ہجومی تشدد پر اپوزیشن قائد کو لوک سبھا میں حکومت سے سوالات نہیں کرنا چاہیئے؟کیا اپوزیشن قائد کو ہجومی تشدد کا نشانہ بننے والے مسلم افراد خاندان سے ملاقات نہیں کرنا چاہیئے؟ کانگریس اورانڈیا اتحاد کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ انھیں مضبوط اپوزیشن بنانے میں سب سے بڑا کردار مسلمانوں کا رہا ہے لہذا اپوزیشن قائد اور انڈیا اتحاد کی پارٹیاں لوک سبھا اجلاس ہوکہ یا زمینی کام ان تمام میں توازن برقرار رکھیں تب ہی آپ اپوزیشن سے حکمرانی میں بھی جاسکتے ہیں چونکہ آپ نے دستور کو بچانے اور ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اسی لیئے آپکا کام تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ یکساں و عدل کے تقاضے پر کھرا اترنا چاہیئے بقول عباس تابش؎
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جاسکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جاسکتا ہے