وقف ترمیمی بل کا مقصد وقف امور میں غیر مسلموں کی مداخلت کی راہ ہموار کرنا : نوید اقبال

نظام آباد۔9 /اگست (اردو لیکس) صدرضلع اقلیتی سیل بھارت راشٹرا سمیتی مسٹر نوید اقبال نے کہا کہ مودی حکومت کی جانب سے قانون وقف میں 44 ترامیم کے ساتھ مجوزہ بل کی لوک سبھا میں پیشکشی کا مقصد صرف اربوں روپے مالیت کی اوقافی جائیدادوں سے مسلمانوں کو محروم کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اوقافی امور میں مداخلت کے ذریعہ بالواسطہ طور پر شریعت میں مداخلت کرنا ہے اوروقف امور میں غیر مسلموں کی مداخلت کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ترمیمی بل پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کردیاگیاہے مگرایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں پر اٹل ہے اس لئے مسلمانان ہند کو چاہئے کہ وہ مطمئن ہوجانے کی بجائے ہر ایک ریاست سے اس مجوزہ بل کی خامیوں اورقانونی نکات پرمشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے نمائندگی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام 32 وقف بورڈس کو چاہئے کہ وہ اس بل کا جائزہ لے اورہر دفعہ میں پائے جانے والے نقائص کو نمایاں کرے۔ مسٹر نوید اقبال نے کہا کہ کسی بھی قانون میں ترمیم اس وقت کی جاتی ہے جب اس کے نفاذ میں دشواریاں پیش آئیں یا اس قانون کی تدوین کے مقاصد پورے نہ ہونے پائے۔
ایسی صورت میں نفاذ کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور اس قانون کی دفعات میں پائی جانے والی کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس قانون کو مزید مستحکم اور مؤثر بنانے کے لئے ترامیم کی جاتی ہیں مگر مودی حکومت نے جن ترامیم کو پیش کیا ہے اس سے موجودہ قانون میں پائے جانے والے نقائص تو دور نہیں ہوئے بلکہ الٹا ان ترامیم کے ذریعہ نہ صرف قانون کو مجہول بنادیاگیا بلکہ اس قانون کو نافذ کرنے والے ادارہ وقف بورڈ کے بھی اختیارات سلب کرلئے گئے ہیں جس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ مودی حکومت‘ اوقافی جائیدادیں مسلمانوں سے چھین لینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب مندروں کی جاتراؤں کے دوران لگنے والے بازاروں سے مسلم تاجروں کومار بھگایا جارہا ہے‘ مودی حکومت اس بل کے ذریعہ وقف بورڈس میں غیر مسلموں کے داخلے کی راہیں ہموار کرنا چاہتی ہے۔ مسٹر نوید اقبال نے کہا کہ تشکیل وقت بورڈس میں مسلم ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے لزوم کو برخاست کرتے ہوئے صرف ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کوبہ طور رکن رکھنے کی گنجائش فراہم کردی گئی ہے‘ اسی طرح اگر مجوزہ ترامیم کو قانون کی شکل دے دی جاتی ہے تو وقف بورڈ کا سی او بھی کوئی غیر مسلم ہوسکتا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آیا حکومت اسی اصول پر قائم رہتے ہوئے انڈومنٹس میں غیر ہندؤں کو نمائندگی دینے کی راہ ہموار کرتی ہے؟انہوں نے کہا کہ آثار اور ظواہر کی بنیاد پر وقف بورڈ کو کسی بھی ڈھانچہ یا ادارہ کو اوقافی قرار دینے کا حق حاصل تھا مگر اب اس حق چھین لیا گیا ہے اور وقف بورڈ کو غیر محسوس طور پر ضلع کلکٹر کاماتحت کردیا گیا
۔ مسٹر نوید اقبال نے کہا کہ اس بل کے مطابق واقف کے لئے لازم ہوگا کہ وہ پانچ برس سے باعمل مسلم ہویعنی ایک نو مسلم کو اس کے قبولیت اسلام کے پانچ برس تک اپنی جائیداد کو وقف کرنے سے باز رکھا گیا ہے۔یہ اسلام قبول کرنے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے جو دستور میں دی گئی آزادی کے مغائر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے مودی حکومت دیگر قوانین کے ذریعہ یہ بھی مذہب تبدیل کرنے والوں کو ان کی ملکیت سے ہی محروم کردیا جائے۔ جہاں تک خواتین کو وقف بورڈس میں نمائندگی کا معاملہ ہے
یو پی اے حکومت نے 2013ء کی ترامیم میں اس کی گنجائش فراہم کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف فنڈس کی شرح کو 7% سے گھٹا کر 5% کردیا گیا جس سے وقف بورڈ کا مالیاتی مؤقف مزید کمزور ہوجائے گا۔ انہوں نے بی جے پی کو چالینج کیا کہ وہ ان ترامیم پر عوامی مباحث رکھے اور ثابت کرے کہ ان ترامیم کا مسلمانوں کو فائدہ ہوگا۔