اقبال اکیڈمی جدہ کے زیر اہتمام “عصر حاضر میں کلام اقبال کی اہمیت اور ضرورت” مجاہد سید کا خطاب
ریاض ۔ نمائندہ اردو لیکس
عربی، فارسی، ترکی اور اردو زبان کی شاعری میں عشق رسول ؐ کے اظہار کی ایسی پختہ روایت رہی ہے کہ ماضی سے حال تک غیر مسلم شعراء تک اپنے کلام میں والہانہ اندازسے اس کی پیروی کرتے اور اس روایت پر فخر کرتے نظر آتے ہیں۔ اقبال کا زجاج حریف سنگ تھا۔ اس زجاج کو چمک اور پائیداری عشق رسول ؐ کی آنچ سے حاصل ہوئی۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشور و ماہر اقبالیات محترم مجاہد سید نے کیا۔ وہ "عصر حاضر مین کلام اقبال اہمیت و ضرورت” کے عنوان پر کلیدی خطبہ پیش کررہےتھے۔
سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے مجاہد سید نے کہا کہ دنیا میں مختلف اقوام آباد ہیں اور ان کی تہذیبیں بھی جداگانہ ہیں جن پر نظر ڈالین تو مادیت پرستی کا اثر نظر آتاہے۔ فلسفی سیموئل ہنٹگٹن Samuel Huntigton کے علاوہ دیگر فلسفیوں کا یہ ماننا تھاکہ فلسفہء اسلام میں موجودہ دور کے تقاضوں کا مکمل حل نظر نہیں آتا مگر علامہ اقبال نے ان فلسفیوں کے خیال خام کو ضرب کلیمی سے رد کیا اور clash of civilization کا حل اسلا می تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا کہ مخلوق کی ضروریات کو خالق ہی بہتر جانتا ہے اور دنیا میں امن وسکون اور عظمت انسان کو بحال کرنے کا واحد ذریعہ قرآن ہے۔
مجاہد سید نے فرمایا کہ اقبال تصوف اور فلسفے کے رمز شناس ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی اور دیگر زبانوں کی شاعری میں واقع ہونے والے اس انقلاب سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اردو شاعری میں اس کے پیشرو ثابت ہوئے۔ تھامس کارلائل کی تقابل ادیان کےضمن میں مشہور تصنیف "دی ہیروز اینڈ ہیروز ورشپ” (The Heroes and Hero’s Worship) میں دوسرے لیکچر سے آخری لیکچر تک محمد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالہ جات کے رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔ انھوں نے کہا کہُ اقبال کی بانگ درا سے ارمغان حجاز تک بھی اسی نور کا سلسلہ ہے جو کہیں ہویدا ہے تو کہیں پوشیدہ۔ اقبال کا عشق ہزار شاخہ ہے یہ صرف تصور کا آئینہ خانہ ہی نہیں احساس کی محفل بھی ہے۔
عشق رسول ؐ ہی اس کی قوت نمو ہے۔ انھوں نے کہا کہ خود اقبال کے الفاظ میں ؎
قبائے علم و ہنر لطف خاص ہے ورنہ
تیری نگاہ میں تھی میری نا خوش اندامی
اقبال اکیڈمی جدہ کے زیراہتمام شاداب ہو ٹل میں منعقد اس محفل میں ہندوستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے اور مقامی تنظیموں کے عہدیداران کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
جلسے کا آغاز خوش لحن قاری محمد جواد رشید کی قراءت کلامُ پاک سے ہوا۔ جبکہ "خودی کا سر نہاں” کلام اقبال نونہالان اکیڈمی، حسن اور حسین آصف قادری نے خوبصورت اندازمیں پیش کیا۔ علامہ کے چند نعتیہ اشعار نعت خواں سید مصطفیٰ معظم اور محمد نواز جونیجو پیش کئے۔
اس بابرکت و پر اثر محفل کی نظامت کے فرائض جناب محمد فہیم الدین (نائب صدر) بخوبی سر انجام دئیے اور پیام اقبال پر اپنے مخصوص انداز میں فکری جملوں اور برجستہ اشعار پیش کر تے ہوے سامعین کو باندھے رکھا۔
خطبہء استقبالیہ رکن عاملہ جناب محمد عبدالمجیب صدیقی نے پیش کیا اور جناب توصیف خان نے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔
میڈیا ٹیم محمد آصف قادری، محمد معزالدین، سید عرفان حسین اور محمدحسیب سرور صاحبان نے ان یاد گار لمحات کو محفوظ کیا۔
مہمانوں کا استقبال و دیگر انتظامات کی نگرانی اکیڈمی کے ارا کین عاملہ، شمیم کوثر، مرتضی شریف اور عبدالقدیر قریشی صاحبان نے کی۔