عتیق مظفرپوری پر کتاب نئی نسل کے لیے عظیم سرمایہ

عتیق مظفر پوری احمد ہمہ جہد شخصیت کے مالک تھے: میم افضل
جاوید رحمانی اپنے والد کے عظیم نعم الب
ئی دہلی: مرحوم عتیق مظفر پوری معروف صحافی و شاعر کی 9 ویں برسی کے موقع پر ان کے بڑے صاحبزادے جاوید رحمانی نے عتیق مظفر پوری : حیات و خدمات” کے نام سے 400 صفحات پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی ہے اس کا اجرا انجمن ترقی اردو (ہند) اور سائبان فاؤنڈیشن کے اشتراک سے اردو گھر کے آڈیٹوریم میں عمل میں آیا۔ اس موقع پر نہ صرف کتاب کا اجرا عمائدین کے ہاتھوں عمل میں آیا بلکہ ایک سیمینار کا بھی اہتمام کیا گیا۔ سمینار کا موضوع "اُردو صحافت کے چیلنجز اور امکانات” پر دانشوروں نے تفصیلی گفتگو کی۔
عتیق مظفر پوری حیات و خدمات کتاب کے مرتب نوجوان صحافی جاوید رحمانی نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کا یہ جلسہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں صحافت، سیاست اور ادب سے وابسطہ بڑی اہم ترین شخصیات جو آج چھٹی ہونے کے باوجود مرحوم عتیق مظفرپوری کی برسی کے موقع پر کتاب کے اجراء میں شرکت کر کے اس بات کا بین ثبوت دیا ہے کہ مرحوم عتیق مظفر پوری نے پوری زندگی اردو اور اردو صحافیوں کی جو آبیاری کی ہے اور جو انہوں نے ایک نقوش اپنے پیچھے چھوڑا ہے آج ان سب کے اپ سب امین ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ یقینا مرحوم عتیق مظفر پوری کی آج روح خوش ہوگی۔
اس جلسہ کی صدارت معروف اسلامی اسکالر اور پروفیسر ایمریٹس اور انجمن ترقی اردو ہند کے نائب صدر پروفیسر اختر الواسع نے کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مرحوم عتیق مظفرپوری ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، مرحوم بہت خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم اپنی پوری زندگی میں صرف کام پر یقین رکھا کبھی شہرت کی تمنا نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کتنا بڑا کام کر کے خاموشی سے چلے گئے۔ آج ان کے بیٹے نے اپنے نیک اولاد ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ جاوید رحمانی نے مرحوم کی بیشتر کچھ اہم تحریروں کو یکجا کر کے ہم لوگوں تک ان کی صحافتی خدمات کو پہنچانے کا کام کیا ہے یہ نئی نسل کے لیے ایک بڑا سرمایہ ہے۔ مرحوم کی تحریریں آج کے پس منظر کی بکھری ہوئی روزمرہ کی زندگی کی بھی ترجمانی کرتی ہیں۔ مرحوم اردو کے ایک صحافی اور تعلیم کے رسیا تھے۔
سابق ممبر پارلیمنٹ اور سفیر میم افضل نے کہا کہ مرحوم عتیق مظفر پوری ہمارے اخبار سے لمبے عرصے تک وابسطہ رہے اور آج مجھے خوشی ہے کہ یہاں تمام دانشوروں نے اخبار نو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افضل صاحب کی ادارت میں یہ اخبار اس زمانے میں بڑی حد تک نئی نسلوں کی پرورش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم بہت ساری چیزوں کو جاننے کا دعوی نہیں کرتے تھے لیکن اردو زبان پر ان کی گہری گرفت تھی۔ اسی لیے جب تک ہم ان کے ساتھ اخبار نو میں کام کیا کبھی بھی ان کی تحریروں کو ہم نے بغیر دیکھے ہوئے اخبار میں شائع ہونے دیا۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایڈیٹر اپنے يہاں کام کرنے والے اسٹاف کے تحریروں کو بغیر دیکھے شائع کر دے لیکن اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عتیق صاحب کئی معنوں میں اونچی اور اعلی سوچ کے مالک تھے اور وہ صحافت کو کبھی انہوں نے پیشہ نہیں سمجھا بلکہ وہ عبادت کا درجہ دیتے تھے۔
ہمالیہ ڈرگ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید فاروق نے کہا کہ آج کے دور میں یہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ہم اپنے معاصرین کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی یاد میں یہاں سب شریک ہو کر اس بات کی بھرپور دلیل ہے کہ ہم اپنی عظیم ترین وراثت کے محافظ بھی ہیں اور آنے والی نسلوں کو ان کی کاوشوں کے بارے میں باور بھی کرانا جانتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ نئی نسل عتیق مظفر پوری حیات و خدمات کتاب کا نہ صرف مطالعہ کرے بلکہ اپنی زندگی میں بھی اس کی رمک دمک کو قائم رکھے۔انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ آج اردو گھر کا آڈیٹوریم میں اتنی بڑی تعداد میں اردو ادب و صحافت سے وابسطہ اہم ترین شخصیات کا یکجا ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مرحوم عتیق مظفرپوری کتنے نیک دل اور اصول پرست شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ آڈیٹوریم اندر کی سیٹیں بھرنا تو دور کی بات ہے آج میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ جتنے بیٹھے ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ لوگ اندر اور باہر کھڑے ہوئے ہیں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ یہ بھی ہے کہ آج بھی ادبی ذوق رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔اس موقع پر انہوں نے حاضرین جلسہ سے کہا کہ پروگرام کے بعد آپ سب انجمن کی نو تعمیر لائبریری تیسری منزل پر جا کر ضرور دیکھیں اور آپ کو اس بات کا فخر ہوگا کہ اردو کے ادارے میں بھی جدید تکنیک سے لیس لائبریری آپ کو دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ برٹش لائبریری کے طرز پر نہیں کم از کم اس سے کم بھی نہیں ہے۔
سینیئر صحافی اور ممبر پریس کونسل اف انڈیا حکومت ہند جج شنکر گپتا نے موجودہ اردو صحافت کے چیلنجز اور امکانات پر اپنا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کئی معنوں میں صحافت آزاد نہیں ہے۔ یہاں موجود آپ سبھی اس بات کی گواہی دیں گے کہ آپ کو آزادانہ صحافت اب خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ ایک اچھی اسٹوری عوام سے عوام کے مسائل اور حقائق گوئی سے اگر لکھتے ہیں تو کہیں نہ کہیں وہ تحریر ایک حزب اختلاف کے لیڈر کی کمی کو پورا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم عتیق مظفر پوری کی تحریریں ہمیں پھر سے اس صحافتی دیانتداری کو قائم کرنے کی تلقین دیتا ہے۔میں اس موقع پر جاوید رحمانی کی کاوشوں کو سراہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ایسے نوجوان اور نئی نسل کے صحافی کے اوپر موجودہ دور میں یہ بڑی ذمہ داری ہے۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے سابق ممبر پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے کہا کہ مرحوم عتیق مظفرپوری بڑے اعلی درجے کے صحافی تھے۔ آج عزیزم جاوید رحمانی نے ان کے اوپر کتاب مرتّب کر کے ایک نیک بیٹے ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرحوم عتیق مظفرپوری نئی نسلوں کے لیے بھی ایک مشعل راہ ہیں کیونکہ انہوں نے بڑی تعداد میں نوجوان صحافیوں کی تربیت کی ہے۔دلی اردو اکیڈمی کے نو منتخب وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے مہمان خصوصی کے طور پر بولتے ہوئے کہا کہ عتیق صاحب کی شاعری میں بڑی پختگی تھی۔ ان کے چند کلام جو ہم نے کتاب میں پڑھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں بھی بہت سماج کے ان بندشوں کو انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے بھی لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر محمد خواجہ کرام الدین نے کہا کہ یہ ہمارا المیہ رہا ہے کہ قارئین کو جو خبریں پڑھنے کو ملتی ہے اس میں حقائق سے دور دور کا رشتہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کے اندر سچائی آپ کو تلاش کرنی ہوگی۔ اس کے برعکس ابھی صحافت میں کھیلوں کی اسٹوری پڑھیں گے تو اس میں حقائق مل جائے گی۔ بہرحال ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جو تحریریں یا ایسی سٹوری سماج کو بانٹنے کا بھی کام کر سکتی ہے اس میں زیادہ سے زیادہ نمک مصالے لگا کر کے اس کو چٹخارہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی صحافتی روِش کے خلاف مرحوم عتیق مظفّرپوری ہمیشہ رہے۔ ایسے ماحول میں یہ کتاب نئی نسل کے لیے بھی تحفے سے کم نہیں ہے ۔
دہلی یونیورسٹی میں استاد پروفیسر محمد کاظم نے کہا کہ مرحوم عتیق مظفرپوری نے کبھی بھی اپنے قلم کا سودا نہیں کیا اور صحافت کی آبرو کے زندہ امین آخری دم تک رہے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم کا ایک لمبا سفر صحافت میں گذرا ہے جس سے سینکڑوں افراد نے ان کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ان پر یہ کتاب جو شائع ہوئی ہے اس سے آنے والی نسلوں کو بہت فائدہ ملے گا۔سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل زیڈ کے فیضان نے کہا کہ میرا ادب سے رشتہ رہتا ہے اور میں ادبی محفل میں شرکت کرتا رہتا ہوں۔ مرحوم عتیق مظفر پوری کی تحریروں سے میں بہت پہلے سے روشنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مجھے سیمینار کا دعوت نامہ ملا تو میں اپنی تمام مصروفیتوں کو درکنار کر کے پروگرام میں شرکت کو اہمیت دی۔
مرحوم عتیق مظفر بوری کے ہم زلف بھوپال سے آئے ایم ایس حسن نے کہا کہ مرحوم کے ساتھ میری بے شمار یادیں وابستہ ہیں۔ مرحوم کے بارے میں میرے والد مرحوم ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ عتیق مظفر پوری کی صلاحیت ہر میدان میں نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے اس بات کا غم ہے کہ جلدی ہم سے رخصت ہو گئے۔آج مرحوم ہوتے تو اُن کو فخر ہوتا کہ ان کے بچے ان کی تعلیمی مشن کو بدستور آگے لے جانے کا کام کر رہے ہیں۔مسعود خان نے کہا کہ مرحوم عتیق مظفرپوری سے میرے دیرینہ مراسم تھے۔ میں نے اپنی سیاسی زندگی میں بھی بارہا ان سے مفید مشورے لیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی شخصیت ہماری نسلوں کے لیے ایک زندہ نمونہ چھوڑ گئی ہیں جنہیں آج کے دور میں اس پر چلنا بہت مشکل کام ہے جو کام مرحوم نے کر کے دکھایا ہے ۔معروف بزنس حاجی قمر الدین سروکون کے ڈائریکٹر نے کہا کہ جاوید رحمانی بہت لائق فائق اپنے والد مرحوم عتیق مظفر پوری کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے اپنے والد پر کتاب مرتب کر کے ہم سبھی کو ان کے صحافتی اور علمی خوبیوں سے روشناش کرایا ہے۔
معروف شاعر ڈاکٹر ماجد دیوبندی نے کہا کہ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ اس کی مثال مرحوم عتیق مظفر پوری نے بہت واضح طور پر خاموش رہ کر کے کارنامہ اُردو تعلیم کے لئے جو انجام دیا ہے وہ کافی ہے۔ معروف شاعر و صحافی ڈاکٹر معین شاداب نے جلسے کی کامیاب نظامت انجام دیتے ہوئے درمیان میں مرحوم عتیق مظفرپوری کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے لیے بہت ہی شرف کی بات ہے کہ میں نے عتیق مظفر پوری کے ساتھ کام کیا ہے اور ان کو شاعر کے طور پر بھی میں نے سنا ہے۔ مرحوم عتیق مظفر پوری کا اردو زبان سے والہانہ رشتہ تھا وہ مجھے لگتا ہے کہ بہت کم لوگوں کے حصے میں یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے۔اس موقع پر صحافتی ادبی, سیاسی سماجی شعبہ ہائے زندگی سے وابسطہ بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ اُن میں قابل ذکر اہم شخصیات میں این آئی او ایس ڈائریکٹر ڈاکٹر شعیب رضا وارثی، اوکھلا پریس کلب کے صدر اور این ڈی ٹی ڈی کے مننے بھارتی، وطن سماچار کے ایڈیٹر محمّد احمد، معروف صحافی معروف رضا، فیس گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر مشتاق انصاری، ڈاکٹر پرویز میاں، جاوید اختر وارثی، پروفیسر جسیم محمّد، انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے نو منتخب bot ممبر سکندر حیات، آل انڈیا ریڈیو سے قمرالزماں، ڈاکٹر فہیم بیگ، ڈی ڈی نیوز انکر ابصار الحسن، احتشام الحسن، سینیئر انگریزی صحافی انل مہیشوری، رخشندہ روحی، چشمہ فاروقی، ایس ٹی رضا، انجمن ترقی اردو ہند کے اسسٹنٹ سیکرٹری ثاقب صدیقی، ڈاکٹر ہیڈ گوار ہسپتال کے سی ایم او ڈاکٹر محمد عادل، جمعيت علما ہند سد بھاؤنا منچ دہلی کے صدر مولانا جاوید قاسمی، آل انڈیا امام فاؤنڈیشن کے چیئرمین مولانا عارف قاسمی، ایران کلچر ہاؤس کے سینیئر آفیسر قاری یٰسین، مولانا ساجد رشیدی، یو این ائی اردو کے ایڈیٹر عابد انور، عبدالسلام عاصم، فاروق ارگلی، اردو اکیڈمی گورننگ کونسل کے ممبر فیروز صدیقی، ظفر احمد ، معروف شاعر شیو کمار بلگرامی ، درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کے سجّادہ نشیں سیّد کاشف علی نظامی، بھارت ایکسپریس اردو کے ایڈیٹر خالد رضا، زاہد حسین، صحافی نوشاد عثمانی، صابر علی، ڈاکٹر شمیم انصاری، نثار احمد، سیاسی تقدیر کے ایڈیٹر محمد مستقیم خان، گلزار احمد، ظہیر الحسن، عرفان راہی سید پوری، امن نیوز کے ایڈیٹر ایم اے برنی، ایڈوکیٹ عمران عظیم، پہلی خبر کے ایڈیٹر عمران کلیم، سید شاہد راحت ٹرانسپیرنٹ نیوز کے ایڈیٹر اظہر امام رضوی، صحافی ڈاکٹر وسیم راشد، سینیئر صحافی محمد احمد کاظمی، پنڈت سندیپ مشرا، محمد مجاہد، محمد شاکر حسین، کلیم الحفیظ، پروفیسر محمد امتیاز وغیره کے نام قابل ذکر ہیں۔
۔