تلنگانہ وقف پروٹیکشن سیل اور مدینہ ایجوکیشن اینڈ ویلفیر سوسائٹی کے زیر اہتمام تحفظ اوقاف پر سیمینار مولانا فیصل رحمانی، مولانا حامد محمد خان اور ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد کا خطاب
وقف (ترمیمی) بل ملک کے دستور اور قانون کے مغائر سارے مسلمان اس بل کو مسترد کرتے ہیں
این ڈی اے حکومت کی جانب سے اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا دعوی کرتے ہوئے جو بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے یہ دراصل حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی دانستہ سازش ہے۔ہندوستان کے سارے مسلمان حکومت کی اس بد نیتی کو جانتے ہیں اس لئے مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ وہ اس اقدام سے باز آجائے اور کوئی نیا قانون وقف مدون کرنے کی کوشش نہ کرے۔حکومت اگر اپنی ضد پر اڑی رہے تو مسلمانوں ہر آئینی طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس وقف ترمیمی بل2024کے خلاف جمہوری انداز میں منظم احتجاج اس وقت تک کریں جب تک حکومت اس بل سے دستبردار نہ ہوجائے۔ان خیالات کا اظہار مدینہ ایجوکیشن سنٹر، نامپلی میں تلنگانہ وقف پروٹیکشن سیل اور مدینہ ایجوکیشن اینڈ ویلفیر سوسائٹی کے زیر اہتمام تحفظ اوقاف کے عنوان پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔ سیمینار کے مہمان خصوصی مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ و امیر شریعت بہار،جھارکھنڈ و اڈیشہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ وقف ترمیمی بل 2024سے آگاہی بہت ضروری ہے۔بغیر معلومات حاصل کرکئے ہم اس بل کو حکومت سے منسوخ کروا نے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔اس بل میں بہت ساری خرابیاں اس لئے ہر انصاف پسند شخص اس کی مخالفت کررہا ہے۔انہوں نے وقف کی ساری تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں یہ نظام صدیوں سے جاری ہے۔مسلمانوں کے اسلاف نے اپنی قیمتی جائیدادیں اس مقصد سے وقف کی کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کام ہوں۔انہوں نے اس الزام کو جھوٹا پروپیگنڈا قرار دیا کہ مسلمان جہاں نماز پڑھتے ہیں، وہ اس کو وقف قرار دے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے مسلمانوں کو مطمئن کرتی لیکن بجائے اس کے اچانک یہ بل لگادیا گیا جس سے نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ پورے ملک میں بے چینی پھیل گئی۔مولانا حامد محمد خان، مرکزی سکریٹری جماعت اسلامی ہند نے اپنے خطاب میں حکومت کی نیت پر سوال اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے اور وہ مسلمانوں کی اوقافی املاک کو ہڑپنے کے خاطر ایک ایسا قانون لانا چاہتی جو کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے مجوزہ بل کی مختلف دفعات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر اس بل کو قبول کیاجاسکے۔حکومت اپنے خفیہ ایجنڈے کے مطابق کام کررہی ہیں اس لئے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ متحدہ جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس بل کے خلاف آواز اٹھائیں اور کسی بھی صورت اسے قانون نہ بننے دیں۔مسلمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ہدایات پر عمل کریں۔ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، ایڈوکیٹ نے وقف ترمیمی بل کے قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ہوئے کہا کہ یہ بل ملک کے دستور اور قانون کے خلاف ہے۔اس کے ذریعہ دستور ہند کی کئی دفعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔اقلیتوں کو جو دستوری ضمانتیں دی گئیں یہ بھی پامال ہوتی ہیں۔ مجوزہ بل میں کہا گیا کہ مسلم وقف بورڈ میں غیر مسلم نمائندے بھی ہوں گے۔آیا کسی ہندو،سکھ یا عیسائی مذہبی ادارے میں مسلمانوں کو نمائندگی دی گئی؟۔ اسی طرح یہ کہا گیا کہ وقف کی جائداد کے تعین کا اختیار ضلع کلکٹر کو دیا گیا۔وقف بورڈ سے یہ حق چھین لیا گیا۔ وقف ترمیمی بل میں جو ترامیم کی گئیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت وقف جائیدادوں کو اپنے کنڑول میں لینا چاہتی ہے۔وقف ترمیمی بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کیا گیا۔اب اس کمیٹی کے ممبران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بل کے نقائص کو حکومت کے سامنے پیش کرکے اسے مجبور کرے وہ وقف ترمیمی بل سے دستبردار ہوجائے۔جناب عریض احمد اور مولانا ساجد پیرزادہ نے بھی مخاطب کیا۔ڈاکٹر شیخ محمد عثمان، سکریٹری تلنگانہ وقف پروٹیکشن سیل نے سیمنار کی غرض وغایت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس شعور بیدار کرنے کے مقصد سے رکھا گیا۔محترمہ ماریہ تبسم، سکریٹری مدینہ ایجوکیشن اینڈ ویلفیر سوسائٹی نے اظہار تشکر کیا۔ سیمنار میں شہر کی نمائندہ شخصیات نے شرکت کی۔