علامہ اقبال کی جاوید نامہ بنی نوع انسان کا ایک دستور نامہ ہے: پروفیسر عبد الحق

نئی دہلی ۔ 5 اکٹوبر ۔جاوید نامہ جیسی کتاب فردوسی کے عہد سے لیکر بیدل کے زمانے تک تصنیف نہیں کی گئی جتنے موضوعات کا احاطہ اس کتاب میں ہے کسی کتاب میں اتنے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو نہیں ملتی ان خیالات کا اظہار پروفیسر عبد الحق، پروفیسر ایمیریٹس دہلی یونیورسٹی نے موسسہ مطالعات فارسی درھند کے زیر اہتمام بروز سنیچر بتاریخ 5 اکتوبر انڈیا انٹرنیشنل سینٹر نئی دہلی کے کانفرنس ہال میں ّ جاوید نامہ: ایشیا میں سماجی امن کا منشورٗ کے عنوان پر منعقد سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں بحیثیت صدر کے کیا، انھوں نے مزید کہا کہ اقبال کو جیسی جرات گفتار حاصل تھی ایسی جرات گفتار کسی کو نہ ہوسکی کہ جاوید نامہ میں ایک ہی منبر پر حضرت عیسی ہیں، گوتم بدھ ہیں ،وشنو ہیں اور پیغمبر حضرت محمد بھی ہیں اسلامی عقیدہ میں اس کی گنجائش نہیں ہے ہے لیکن اقبال نے وہ لکھ کر ہندوستان میں انسانیت کی بنیاد پر اتحاد کی تعلیم دی ہماری بد قسمتی ہے کہ اقبال کو ایک مخصوص فکر میں مقید کر دیا گیا ہے ، اقبال جیسا محب وطن ہندوستان کی روئے زمین پر نہیں پیدا ہوا ہے کسی بھی زبان میں اور کسی بھی ادب میں ہندوستان سے ایسی محبت کا اظہار کرنے والا نہیں پایا جاتا ہے۔ اقبال کا جاوید نامہ جہاں ایشیا کے لیے امن کا منشور اور اعلان نامہ ہے وہیں بنی نوع انسان اور پورے ارض کے لیے ایک دستور نامہ بھی ہے۔ اس موقع پر موسسہ مطالعات فارسی درھند(آئی آئی پی ایس) کے صدر پروفیسر سید اختر حسین، پروفیسر شعبہ فارسی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں آنے والے تمام مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقبال ایک عہد کا نام ہے اور ان کی جاوید نامہ ایک لازوال تصنیف ہے جس نے ان کو زندہ جاوید بنادیا۔
اقبال نے اپنی اس کتاب میں موجودہ حیات کو بنانے اور سنوارنے کی فکر کی دعوت دی ہے۔ انسان کو اپنے حال کو بہتر بنانے کے لئے اور بلندی پروازی کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ انسان میں تسخیر کائنات کی مکمل صلاحیت ہے۔ اگر اقبال اور جاوید نامہ کو مشعل راہ بنا لیا جائے تو انسان قنوطیت سے رجائیت کی معراج طے کرسکتا ہے۔ آج یہ عالمی سیمینار جاوید نامہ کے پیغام کو عام کرنے اور جدید ذہنوں کے دریچے کو وا کرنے کے لئے منعقد کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ اس سیمینار کے توسط سے جاوید نامہ کا پیغام امن عام ہوگا ۔اس سیمینار کے مہمان اعزازی جناب سلمان خورشید، صدر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نیو دلھی وسابق وزیر خارجہ ھند نے اپنے خطاب میں اقبال کے فلسفہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اقبال ایک فلسفی تھے اور انھوں نے اپنے فلسفہ کو شاعری کا قالب عطا کیا۔ یقینا اقبال کے فلفسفہ کی تفہیم ایک مشکل چیز ہے۔ اس کے لئے خاص علم وہنر چاہئے جس کے لئے آج ضروت ہے کہ ان کے فلسفہ کو آسان اور سہل اسلوب میں پیش کیا جائے تاکہ اقبال کے فلسفہ کو آج عام لوگ بھی بآسانی سمجھ سکیں۔ یہ المیہ ہے کہ اقبال کو لوگوں نے پڑھنا اور سمجھنا چھوڑدیا ورنہ اقبال تو شاہین بننے اور فکر وتخیل کی بلند پروازی کا درس دیتے ہیں۔
اس موقع پر مہمان خصوصی ڈاکٹر شہرناز کاما ڈائیرکٹر پارزور فاونڈیشن انڈیا نے اظہار خیال فرماتے ہوئے کہا کہ جاوید نامہ ایسی کتاب ہے جس میں تمام مذہبی پیشواؤں کا ذکر کیاگیا ہے اور ان کی خوبیوں اور عمدہ صفات کو بہترین اسلوب میں پیش کیا گیا ہے انھیں پیشواؤں میں سے زرتشت ہیں جن کا ذکر اقبال نے کیا۔ ہندوستان میں لوگ زرتشت کو فراموش کرچکے تھے۔ اقبال ہی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے زرتشت کو دوبارہ متعارف کرایااور زرتشت کی تعلیمات اور ان کے امن پر مبنی پیغام کو اجاگر کیا ہے ۔اس لئے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اقبال کے جاوید نامہ نے کتنی شخصیات کو حیات جاوید بخشی۔اس لئے جاوید نامہ پر اس سیمینار کا انعقاد یقینا ایک ایسا مستحسن قدم ہے کہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ اس سیمینار کے مہمان ذی وقار جناب فاروق ، صدرتسمیہ آل انڈیا ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائیٹی نے کہا کہ جاوید نامہ کا نام اقبال نے اپنے بیٹے جاوید اقبال کے نام پر رکھا کیوں کہ اقبال کا جاوید نامہ کی تصنیف سے ایک اہم مقصد اپنے بیٹے کی تربیت تھی۔ اس لئے باقاعدہ انھوں نے اس کتاب کے آخر میں اپنے بیٹے کو خطاب کیا ہے۔ اس لئے یہ کتاب نوجواںوں کی تربیت کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی۔ ایسے مادیت پرستی کے دور میں ضرورت ہے کہ اس کتاب کا پیغام ہر گھر تک پہونچے۔
اس سیمینار کی نظامت ڈاکٹر ارشد القادری ایسوسیٹ پروفیسر شعبہ فارسی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ و نائب صدر آئی آئی پی ایس نے کی۔ انھوں نے پروگرام کے آغاز میں موسسہ مطالعات فارسی در ھند (آئی آئی پی ایس) کے دس سال پورے ہونے پر اس کے صدرجناب پروفیسر اخترحسین صاحب اور تمام ممبران کو مبارکباد دی اور آئی آئی پی ایس کی سرگرمیوں اور زبان فارسی کی ترویج کے لئے اس کی بیش بہا خدمات کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ اس انسٹی ٹیوٹ نے گذشتہ دس سالوں میں سیمینار، سمر اور ونٹر کلاسس ، اسپیشل لکچرس اور متعدد ادبی وثقافتی پروگراموں کا انعقاد کرکے فارسی زبان وادب کی بقا کے لئے بے نظیر کوششیں کی ہے۔ پروگرام کے آغاز میں نیتو بھاسکر اور پرتما شرما نے بالترتیب فارسی اورانگریزی میں جاوید نامہ کی مناجات پڑھی ۔ پروگرام کا اختتام جناب ڈاکٹر ارشد القادری کے کلمات تشکر کے ساتھ ہوا ۔