مشرقی وسطٰی میں عسکری طاقتوں کا اتحاد _ حماس اورحزب اللہ کے حوصلوں سے کیا اسرائیل لڑکھڑا رہاہے؟

تحریر:سید سرفراز احمد،بھینسہ تلنگانہ
اہل فلسطین اور حماس کی طویل صبر آزما جدو جہد سے اسرائیل اس وقت شدید بوکھلاہٹ کا شکار ضرور ہوگا جس نے شائد یہ تصور بھی نہیں کیا تھا ہوگا کہ ایک عسکری گروپ سے ایک طویل جنگ لڑی جائے گی لیکن وقت نے سب کچھ بتادیا کہ صبر استقامت اور حوصلوں کی اڑان بھرنے والے پیٹھ نہیں دکھاتے بلکہ سینہ تان کر باطل کی ہوا اکھاڑسکتے ہیں آج اہل فلسطین اور حماس نےدنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ غاصب اسرائیل ظلم و دہشت گردی کا کتنا ہی ننگا ناچ رچالے لیکن ان کے ایمان کی کیفیت کو رائی کے برابر بھی کمزور نہیں کرسکتا اس ایک سال میں اسرائیل نے بموں کی بارش برسائی حماس سے جنگ کے بہانے 42 ہزار سے زائد معصوموں کو شہید کردیا اس جنگ میں اسرائیل کا کردار ایک جنگلی بھیڑئے کے مترادف رہا ہے کیونکہ غاصب اسرائیل نے اسکولس دواخانوں کو تک نہیں چھوڑا۔
غزہ پٹی کو لگاتار نشانہ بناتا رہا آج غزہ غزہ نہ رہا بلکہ ایک بڑے ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے عالمی ادارے اس ایک سال میں صرف مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہے بلکہ مظلومین پر ہمدردی کا نمک چھڑکتے رہے لیکن نہ جنگ بندی کے لیئے پیش رفت کی گئی اور نہ ہی غاصب اسرائیل کو دہشت گردی سے روکا گیا آج جنوبی لبنان پر جس طریقے سے اسرائیل عوامی تباہی مچارہا ہے وہ ایک جنگلی بھیڑیا ہونے کا کھلا ثبوت پیش کررہا ہے جس طرح اسرائیل نے غزہ میں قتل و غارت گیری کا کھیل کھیلا آج اسی طرح لبنان کے بیروت اور وہاں کے جنوبی نواحی علاقے الضاحیہ پر شدید حملے بھی کیئے رپورٹ کے مطابق الضاحیہ کے دو علاقے "سینٹ ٹیریز” اور "برج البراجنہ” کے علاقوں کو بھی اسرائیل نے خاص طور پر نشانہ بنایا رپورٹ کے مطابق جمرات کے روزبیروت پر تازہ اسرائیلی فضائی حملوں میں 22 افراد ہلاک اور 117 زخمی ہو گئےحملوں میں حزب اللہ کے رکن وفیق صفا کو نشانہ بنایا جانے کی بھی خبر ہے۔
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں لبنان میں ہلاکتوں کی تعداد2,163ہو گئی جبکہ 11 ہزار افراد زخمی ہو چکے ہیں اب تک اسرائیل کی جانب سے لبنان میں 9,470 حملے کیے جا چکے ہیں اور حکومت نے ایک ہزار پناہ گاہیں قائم کی ہیں جن میں قریب قریب دو لاکھ بے گھر افراد مقیم ہیں اور تقریباً دس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں اسرائیل کا دعوی ہے کہ اس نے حزب اللہ کے 25 اہم کمانڈوس کو شہید کیا ہے حزب اللہ بھی جوابی حملوں میں اسرائیل سے پیچھے نہیں ہے وہ بھی لگاتار حملے کررہا ہے حزب اللہ نے پیر کے روز اسرائیل کے بڑے شہر حیفا پر ایک انتہائی خطرناک میزائل حملہ کیا ہے حزب اللہ کا دعوی ہے کہ اس نے اپنا طاقتور میزائل فادی1 سے اسرائیل کے حیفا میں جنوب میں موجود اسرائیلی فوجی بیس کو نشانہ بنایا ہے میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ کامیاب رہا اور دس اسرائیلی شدید طور زخمی ہوئے ہیں اور عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے لیکن اسرائیل کا دعوی ہے کہ اس نے میزائلوں کو اپنے دفاعی نظام سے روک لیا ہے لیکن بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹر نے اس بات کی تصدیق کی کہ حفاظتی کیمروں میں یہ دیکھا گیا کہ حزب اللہ کی طرف داغے گئے میزائل اسرائیلی شہر حیفا پر گررہے ہیں۔
یکم اکٹوبر کے دن ایران کا اسرائیل پر بلیسٹک حملوں کے بعد ابھی تک جوابی حملہ نہیں کیا گیا اسرائیل ابھی صرف زبانی طاقت سے کام لے رہا ہے حملہ کرنے میں آخراتنی تاخیر کیوں ہورہی ہے؟یا حملے کی تیاری چل رہی ہے؟کیا صرف زبانی جمع خرچ سے کام کیا جارہا ہے؟یا پھر ایران کو ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ ایک بات تو عیاں ہوتی ہے کہ بائیڈن نے اسرائیل کو ایران کے جوہری اور تیل کے تنصیبات پر حملہ کرنے سے منع کیا ہے سوال یہ ہے کہ امریکہ نے کیوں منع کیا ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسرائیل بائیڈن کا حکم مانے گا؟شائد اسی لیئے کہ اگر اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو ایران جوابی کاروائی میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے جس کا اعلان ایران کے رہبر اعلی خود کرچکے ہیں اس بات کا خدشہ بائیڈن کو لگا ہوا ہے بائیڈن کو دوسرا خدشہ یہ ہے کہ امریکہ میں اگلے مہینے صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں لہذا وہ جنگ کو طول دینے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ایران بہت محتاط طریقے پر عمل کررہا ہے وہ پہلے بھی حملے کا آغاز نہیں کیاتھا بلکہ اس کو اکسایا گیا اور آج بھی ایران یہی چاہتا ہے کہ مشرقی وسطٰی میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کے بجائے جنگ بندی ہوجائے۔
ایران اس وقت سخت اور نرم موقف کی پالیسی کو اپنایا ہوا ہے ایک تو ایران کے رہبر اعلی نے انتباہ دے دیا کہ اگر کوئی چھیڑے گا تو ہم چھوڑیں گے نہیں دوسرا ایران کے وزیرخارجہ عباس عراقچی ان دنوں خلیجی ممالک کے دورے پر ہیں اس ملاقات کے دو پہلو ہیں جس کا خود ایران کے وزیر خارجہ نے جواب دیا کہا کہ ان کا ملک اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے تاکہ استحکام اور سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے دوسرا اسرائیل کے خلاف خلیجی ممالک کو بھی ساتھ لیا جائےانھوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ریاض میں اور قطر میں اعلی حکام سے ملاقات کرتے ہوئے مشرقی وسطٰی کے حالات پر تبادلہ خیال کیا ایران کے وزیر خارجہ کا خلیجی ممالک کا یہ دورہ ایران کے حملوں کے فوری بعد ہورہا ہے کیونکہ ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ نے عالم اسلام کے مسلمانوں کو متحد ہونے کا تذکرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم تمام مسلمانوں کا دشمن ایک ہی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ اس دورے کا مقصد "اسرائیلی حکومت کی جارحیت کو روکنے اور غزہ اور لبنان میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے درد اور تکلیف کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔”عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ تہران جنگ سے خوف زدہ نہیں ہےاور اس نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا لیکن وہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی تازہ دم ہے ایران نے اسرائیل پر حملہ کرنے کے بعد خلیجی عرب ریاستوں سےکہا تھا کہ اگر وہ ایران کے خلاف اپنی فضائی حدود یا فوجی اڈوں کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں تو یہ ناقابل قبول ہوگا اور خبردار کیا ہے کہ ایسے کسی بھی اقدام کا جواب دیا جائے گا ایران کے وزیر خارجہ کا یہ دورہ کلی طور پر اسرائیل کے خلاف مشرقی وسطٰی اور خلیجی ممالک کو اتحاد کے ساتھ کھڑا کرنا نظر آرہا ہے لہذا خلیجی ممالک کو اس پہل پر لبیک کہنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے دلچسپ پہلو دیکھئے کہ خلیجی ممالک سعودیہ قطر یو اے ای نے ایران کے وزیرخارجہ کی ملاقات کے بعد امریکہ سے مطالبہ کیا کہ کہ اسرائیل کو ایران کی جوہری اور تیل کی تنصیبات پر حملہ کرنے سے روکا جائے کیونکہ انھیں خطرہ ہے کہ اگر اسرائیل ایران کے تیل کی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو ایران نواز عسکری گروپس خلیجی ممالک پر حملہ کرسکتے ہیں خلیجی ممالک کے خوف کی کیفیت دیکھئے لیکن ایک سال سے میزائل اور بمباری کے سائے تلے رہائش پذیر فلسطینی مسلمانوں کے متعلق ان کی زبان گونگی ہوجاتی ہے کیا یہ خلیجی ممالک کے حق میں بہتر نہیں ہوگا کہ وہ دہشت گرد اسرائیل کے خلاف اپنا محاذ کھولیں؟مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔
ایک طرف سرائیلی وزیردفاع یو آو گالینٹ انتباہ دے رہا ہے کہ ایران کی طرف سے کیے گئے میزائل حملوں کا جواب ’ہلاکت خیز‘ اور ’چونکا دینے والا‘ ہو گااورمزید کہا کہ ہمارے حملے بہت نپے تلے ہوں گے ایران کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا اور کیسے ہوا؟دوسری طرف اسرائیلی انٹلی جنس کاادارہ موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا نے یہ شرط رکھی کہ آئندہ دنوں میں لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جنگ بندی کے معاہدے میں غزہ کی پٹی میں حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ شامل ہونا چاہیے یعنی ایک بات یہاں صاف ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرکے اپنا بدلہ کسی بھی حال میں لینا چاہتا ہے دوسرا وہ لبنان میں جنگ بندی پر آمادہ ہونا چاہتا ہے شائد اسی لیئے کہ وہ حزب اللہ اور اس کے اتحادی گروپوں کی طاقت سے گھبرایا گیا ہو یا پھر اپنے جنگی ہتھیار کو آئندہ کے لیئے محفوظ رکھنا چاہتا ہو یا پھر اسرائیلی قیدیوں کو حماس سے چھڑا کر اپنے ملک میں ہورہی مخالفتوں سے چھٹکارا پانا چاہتا ہو۔
ایران کے بلیسٹک حملے حزب اللہ کے لگاتار حملوں سے اسرائیل کو شدید طور پر نقصان پہنچا ہے اور پہنچ رہا ہے کیونکہ موساد اسرائیل کا انٹلی جنس ادارہ ہے جو جنگ بندی پر یوں ہی آمادہ نہیں ہوسکتا ویسے اسرائیل کے کسی بھی معاہدے کا اعتماد کرنا بھی کسی بڑی خوش فہمی میں مبتلاء ہونے کے مترادف ہے وقت آنے پر یہ امریکہ کو بھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ یو کے سابق وزیراعظم بورس جانسن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میرے خصوصی باتھ روم سے ایک خفیہ اور جاسوسی چیز صفائی کے دوران برآمد ہوئی تھی چونکہ اس باتھ روم میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے نتن یاہو جب یہاں آئے تھے میری اجازت طلب کرکے انھوں نے اس باتھ روم کو استعمال کیا تھا اسی طرح امریکہ کے وائٹ ہاؤس میں بھی ایک جاسوسی شئے برآمد ہوئی تھی مطلب امریکہ اور برطانیہ بھی اسرائیل کی حقیقی سوچ سے واقف ہیں وقت آنے پر یہ اسرائیلی درندہ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ بھی فریب کرسکتا ہے وہ صرف مغربی ممالک کے تعاون سے فلسطین پر مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے بعد دنیا کا سوپر پاؤر بننے کے خواب دیکھ رہا ہے لیکن اس کی اس غلط فہمی سے اس کو کون آشکار کرے۔
امریکی ریاست فلوریڈا میں طوفان کے روپ میں خدا کا قہر زبردست تباہی مچا رکھا ہے ایک ہی جھٹکے میں لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے یہ عبرت ہے ان تمام ممالک کے لیئے جو معصوموں پر ظلم کررہے ہیں اور جو خاموش رہ کر ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں ہوسکتا ہے یہ اللہ کی طرف سے صرف ایک جھلک ہو اگر وہ اپنے جلال کی ایک جھلک دکھادے تو پل بھر میں اس دنیا کو ڈھیر بنادے گا آج دنیااہل فلسطین و حماس کے صبر و استقلال اور ان کے بلند حوصلوں و ایمان کی طاقت کو دیکھ چکی ہے ان آہ بکا کرتے معصوم فلسطینیوں کی وہ دعاؤں کو سن چکا ہے نہ جانے کب وہ اشارہ کردے اور کب تباہی مچ جائے اسرائیل ان ایمان والے جاں بازوں کے ایمان کی طاقت کو دیکھ چکا ہے تب ہی وہ عسکری گروپس کےبڑھتے اتحاد اور انکی طاقت سے تذبذب کا شکار ہے اس نے شائد یہ اندازہ لگالیا کہ لبنان میں جنگ بندی ہی صحیح راستہ ہے کیونکہ اب مشرقی وسطٰی کے تمام عسکری گروپس آپس میں متحد ہوچکے ہیں پورے خطے میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں جس سے اسرائیل تلملا رہا ہے اور زمینی جنگ میں حزب اللہ نے روز اول ہی اسرائیل کو الٹے قدم چلنا سکھا دیا جس سے یہ واضح اشارہ مل رہا ہے کہ وہ ایک طرف حماس اور دوسری طرف حزب اللہ کی طاقت اور مشرقی وسطٰی کےعسکری اتحاد سے لڑکھڑا رہا ہے لیکن یکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ اسرائیل ایران پر حملہ امریکہ کی ہدایت حد سے تجاوز نہ کرنے پر عمل کرتا ہے یا حسب معمول خون خوار بھیڑیئے کا کردار نبھاتا ہے۔