مضامین

گرتوبرانہ مانے۔۔۔۔۔ 

انس مسرورانصاری

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن

مدرسوں کی سفارت بہت اہم اورنازک مسئلہ ہے۔تلخ نوائی معاف مگر حقیقت یہ ہےکہ مدارس کی سفارت کاواحد مقصد بس اب یہ رہ گیا ہے کہ مسلم معاشرہ کے غریب ونادارمسلمانوں کے حقوق سمیٹ کر مدرسہ میں لایا جائے اوراس میں سےہر ماہ تنخواہ لے کر اقربا پروری کی جائے۔ آخر مدرسہ والے مدرسوں کے اخراجات کےلیےخودکفالتی کے طریقے کیوں نھیں اختار کرتے کہ چندہ چٹکی کے لیے در در بھٹکنانہ پڑےاورغریبوں، یتیموں اور مسکینوں تک ان کا حق پہنچتارہےاوران کے حالات بھی بدل سکیں۔ ان کے سارے حقوق مدرسےوالےسمیٹ لے جاتے ہیں اور مسلم معاشرہ غریبی کی دلدل سے کبھی باہر ، نہیں آپاتا۔ مدرسوں کے منتظمین کوان ذرائع کے متعلق بھی غور کرناچاہئیے جن کے سبب چندہ وصولی کا دروازہ ہی بند ہو جائےاورمدرسہ اپنے آپ میں خود کفیل ہو۔

 

مدرسوں میں تجارتی شعبہ جات کیوں نھیں قائم کیےجاتےجن کی آمدنی سے مدرسہ کےاخراجات پورے ہوں! یہ ناممکن تونھیں۔کیا ضروری ہےکہ مدارس کے طلباء کی پرورش اسی مال سے کی جائے جسے نبی کریمﷺ نے مال کامیل کہا ہے۔ مدرسوں کے منتظمین کو چاہئیے کہ وہ علمائے کرام سے چندہ وصولی نہ کرایں۔ یہ ان کے منصب کے منافی ہے۔ بلکہ انتظامیہ ایسے وسائل واسباب اختیار کرےکہ ذکاۃ اور فطرہ وخیرات وصول کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔مدرسوں میں الگ سے ایک تجارتی شعبہ ہو جسے تنخواہ دار ملازمین کے ذریعے چلایاجاناچاہئیے۔ ان پر نگراں مقررہو۔ محاسب ہو۔ دیکھ دیکھ کرنے والے ہوں۔ مسلم معاشرہ کے افراد کو ملازمتیں مل سکیں۔ یہ بھی اسی فعال عمل سے ممکن ہے مگر نھیں سب سے آسان طریقہ اختیار کیاگیاکہ رسیداوررودادعلماء کے ہاتھوں میں پکڑادواورکہوکہ وہ سفرپرنکلیں اور ففٹی ففٹی پرسنٹ پر چند ہ وصول کر لائیں اور اگر کوئی غیرت مند عالم انکارکرےتوملازمت سے سبکدوشی کی دھمکی دی جائے۔ کیا یہ استحصال نھیں ہے۔؟مدرسہ چلانے والے عہدہ داروں کی ذمہ داری ہےکہ وہ اس کی آمدنی اور اخراجات کےکےلیےدیگرذرائع کے متعلق غوروفکر کریں اورذکوٰۃ وفطرہ اور خیرات کومسلم معاشرہ کےکمزورافرادکےلیےچھوڑدیں۔ مگر افسوس کہ عامتہ المسلمین کے ذہنوں میں یہ بات بھی بٹھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہےکہ مدرسہ میں ذکٰوۃ نھیں دوگےتوذکٰوۃ ادا ہی نھیں ہوگی۔ایک کروڑ روپئے کے بجٹ والےمدرسےپچاس لاکھ روپئے میں تجارتی شعبہ کیوں نھیں کھولتے۔؟جس کی آمدنی سے مدرسےکاخرچ اٹھایا جاسکے۔

 

سب کچھ ممکن ہے، اگر آدمی کرنا چاہے۔ چھوٹے اوربہت کم بجٹ والے مدرسوں کی مجبوریوں کو سمجھا جاسکتا ہے مگر وہ مدرسے جو لاکھوں لاکھ اور کروڑوں کا بجٹ رکھتے ہیں اور سفارت کاروں کو چندہ وصولی کے لیے در بہ در بھٹکنے، اور ذلیل و رسواہونےپرمجبورکرتےہیں۔انھیں کیا کہا جائے اور ان کے سفیروں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے۔؟

متعلقہ خبریں

Back to top button